بنگال کی سیاست اور معصوم عوام- The politics of Bengal and the innocent people

0
61

The politics of Bengal and the innocent people

طارق اطہر حسین
ہندوستان ایک وفاقی پارلیمانی جمہوریہ ریاست ہے جہاں صدر سربراہ ریاست ہے اور وزیر اعظم سربراہ حکومت ہے۔ بنگال میں تقریباً ہر مذاہب کو رچنے بننے کا موقع ملا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان اور اس میں شامل بنگال ریاست کی تاریخی واقعات کو بیان کیا جائے تو ورق کم پڑ جائے۔ لہذا بنگال آج کی تاریخ میں سیاسی سرگرمیوں کے لئے چرچے پر ہے، ویسے تو ہندوستان ایک وفاقی ریاست سب سے بڑی جمہوریت والا ملک ہے لیکن اصل میں ایک جھوٹی جمہوریت والا ملک ہے، جمہوریت بس نام کے لئے ہے کاموں میں اسکا کوئی دخل نہیں جبکہ 29 ریاستوں اور 7 مرکزی زیرِ اقتدار علاقوں پر مبنی ملک کو چلانے والا شخص بلکل نہ اہل فریب ہوا کرتا ہے کیونکہ آزادی کی تاریخ سے لیکر آج تک ملک میں بے روزگاروں کی فیصد میں اضافہ ہوتا رہا ایکونومی کلاس کے لوگوں کو دشواری پیش آتی رہی امبانی اور اڈوانی کے خزانوں میں اضافہ ہوتا رہا اور جس کسی نے حکومت کے خلاف آواز بلند کی اسکے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا گیا، جبکہ میں کسی پارٹی کا ساتھ نہیں دے رہا بلکہ حق کا ساتھ دے رہا ہوں۔ مغربی بنگال جہاں ہواؤں نے بھی چناؤ کا رخ موڑ رکھا ہے‌ ابھی کچھ وقت پہلے ہمارے وزیر اعظم سربراہ حکومت ملک کے خیر خواہ عوام کے دلوں میں بسنے والے مسلمانوں کے ہمدرد اور غریبوں کے مسیحا کلکتہ آیے تھے اور انہوں نے یقین دلایا کہ بنگال میں نوجوانوں کے لئے نوکریاں پڑی ہوئی ہیں غریبوں کے لئے مکانات فلیٹ تعمیر ہو رہیں ہیں کسانوں کے لئے غذائی اشیاء اور آسان طریقے سے فصلوں کی کاشت پر کام ہو رہیں ہیں، “انہوں نے کہا کہ ” آمار سونار بنگلہ” انہوں نے یقین دلایا کہ ظاہری شکل رابندرناتھ ٹیگور جیسا بنا لینے سے ٹیگور جیسے احساسات نمودار ہوتے ہیں انہیں لگتا ہے کہ بنگال کو الگ پہچان دی جا سکتی ہے یعنی کہ مچھلی پر روک لگا کر گوشت چھپ چھپا کر کھایا جا سکتا ہے لیکن گائے قتل کیے بغیر اور انڈوں پر بھی پابندی عائد ہو سکتی ہے کہیں مرغیوں کی نسل تباہ نہ ہو جائے، ہاں وہ بات الگ ہے کہ انسان اور انسانیت تباہ ہو جائے لیکن وہ جو سوچتے ہونگے اچھا ہی سونچتے ہونگے اور بنگال کے لئے بھی اچھا ہی سونچا ہوگا ہاں یہ کوئی بڑی بات تھوڑی ہے کہ پیٹرول، دیزل اور گیس مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور کھانے پینے کے اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا، ہو سکتا ہے کہ الیکشن تک کی ہی بات ہو اور ویسے بھی ہمارے وزیر اعظم سربراہ حکومت جو کچھ بھی کریں گے اچھا ہی ہو گا۔ یہ بات غلط ہے شاید کہ اب اہل سیاست کا کام ریاست کے معاملات چلانا نہیں ہے اور نہ ہی اس طرف کوئی توجہ ہے اب سیاست اقتدار اور کرسی کے لئے ایک دوڑ ہے، وہ کچھ پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں غلط ہی کہتے ہونگے کہ اب اہل سیاست کا کام صرف دشنام طرازی، ایک دوسرے کی ذاتیات پر انگلیاں اٹھانا، ایک دوسرے کی عزت کو اچھالنا، مخالف جماعتوں کے کارکنوں کو الٹے سیدھے ناموں سے پکارنا، معلوم ہوتا ہے کہ قانون کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، جھوٹے وعدے کرنا فریب دے کر ووٹ بٹورنا اور منصب کا ناجائز استعمال کرنا وغیرہ۔ وہ پڑھے لکھے لوگ یہ بھی شاید غلط ہی کہتے ہونگے کہ یہ تمام خرافات عرصوں سے ہماری سیاست کا اہم ترین حصہ ہیں بلکہ اسکے بغیر سیاست کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ ٹیلیویژن پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ پارلیمنٹ آیے دن مچھلی بازار بنی ہوتی ہے شاید غلط دیکھاتے ہونگے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے ایسے لوگ اقتدار میں شامل ہو گئے ہیں کہ حکمرانی کو لونڈی بنا رکھا ہے جس مطابق چاہا نچایا جسے چاہا بیچ دیا ٹھیک اسی طرح بنگال کے کچھ سیاسی رہنما آیے دن اپنے ضمیر کا سودا کر رہیں ہیں اور سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہے۔ مزید وہ لوگ کہتے ہیں کہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس جہاں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے وہیں ریاست میں مذہبی لفظ بازی چل رہی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو تو پہلے سے ہی بی جے پی لیڈران تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کیونکہ ممتا بنرجی کے وزیر اعلیٰ بنتے ہی انکے دل میں مسلمانوں اور مفلیصوں کے لئے ہمدردی جاگ اٹھی اور کہنے والے کہتے ہیں کہ مسلمانوں سے نفرت کے بیچ تاج محل جیسے تاریخی ورثے کو غلام دور کی علامت قرار دیا ہندوستانی تاریخ عمارتوں کی فہرست سے نکال دیا اور کبھی دارالعلوم دیوبند کو دہشت گردوں کا مرکز قرار دیا تو کبھی بلند شہر میں ہجوم کے تشدد سے ہلاک ہونے والے لوگوں کو ایک حادثہ قرار دیا۔ ان سب سے الگ اب بنگال میں گندی سیاست کے لئے مخالفین کے پاس کوئی اور مداح نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پارٹی کے مضبوط رہنماؤں کو بنگال میں ریلی کرنے پر زور دیتے ہیں اور کبھی خود بھی بنگالی صورت کے ساتھ بنگال والوں کے دل کو جیتنا چاہ رہے ہیں لیکن عوام کو چاہیے کہ اپنے مرضی کا انتخاب کریں کیونکہ حکمرانی وہ چیز ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ مدینہ منورہ کی حکومت دس سال میں 274 مربع میل یومیہ کے حساب سے بڑی آپ نے دنیا کی جغرافیائی صورت حال کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا، اتنا ہی نہیں بلکہ اسلام نے غلامی کے ادارے پر بھی حکیمانہ انداز سے ضرب کاری لگائی، اب ممکن نہیں کہ ایسے اسلامی سیاست دان ملک کو نصیب بھی ہوں بلکہ انہوں نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رکھی ہے اور جاہلوں کو اقتدار کی رسّی تھما دی ہے۔ بس اتنا کہ اب ملک کے معصوم عوام سے توقع ہے کہ ایک ایسے نشان پر اپنے حکمرانی کا انتخاب کریں جو بنگال کے لئے اور ملک کے لئے بہتر ہو۔
عبدلحمید نگر برنپور آسنسول مغربی بنگال ہندوستان

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here