ممتا کا مقابلہ یوگی سے یا مودی سے؟- Mamata’s competition with Yogi or Modi?

0
210

بنگال کو نہ اتر پردیش بنایا جاسکتا ہے نہ گجرات

Mamata's competition with Yogi or Modi?

عبدالعزیز
بھارتیہ جنتا پارٹی نے مغربی بنگال کے اسمبلی الیکشن میں وزیر اعلیٰ کے چہرے کے طورپر کسی کو پیش نہیں کیا ہے۔ یہ دراصل مودی اور شاہ کی سیاسی حکمت عملی ہے کہ ممتا بنرجی جیسی قد آور اور مقبول لیڈر کے مد مقابل بی جے پی میں کوئی بھی نہیں ہے، اس لئے پارٹی کیلئے مودی بمقابلہ ممتا بنرجی ہی الیکشن میں مفید ہوگا۔ اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا مغربی بنگال میں جیتنا محال ہے لیکن توڑ جوڑ سے الیکشن کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی خدانخواستہ کامیاب ہوجاتی ہے تو یوگی کی طرح ہی مودی اور شاہ کسی کو مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا سکتے ہیں، جس طرح یوگی آدتیہ ناتھ اتر پردیش جیسی بڑی ریاست کو تباہ و برباد کر رہے ہیں ۔ یوگی کو جب وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو وہ ایم پی تھے۔ اسمبلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے300 امیدوار جیت کر آئے تھے مگر یوگی کی طرح کوئی بھی فرقہ پرست اور فسطائی ذہنیت کا نہیں تھا جس کی وجہ سے 300 ایم ایل اے میں سے مودی جی نے کسی کو بھی وزیر اعلیٰ نہیں بنایا۔ پہلے ان کی نظر غازی پور کے منوج سنہا پر گئی تھی مگر وہ یوگی کی طرح انتہا پسندی اور دہشت گردی میں مشہور نہیں تھے۔ اس لئے مودی نے آر ایس ایس کے مشورے سے یوگی ہی کو پسند کیا۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مودی اور شاہ کو وزیر اعلیٰ کیلئے کیسا شخص چاہئے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن کے بعد یوگی کی طرح ہی کسی شخص کو مغربی بنگال میں وزیر اعلیٰ بنایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ الیکشن کے بعد توڑ جوڑ اور خرید و فروخت میں مودی جی کامیاب ہوجائیں۔ ممتا بنرجی کی پارٹی اگر 150 یا 160سیٹوں پر کامیاب ہوجاتی ہے تو مودی اور شاہ توڑ جوڑ اور خرید و فروخت میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ اگر 120 یا 130 تک ممتا بنرجی کی پارٹی کے امیدوار اسمبلی میں جیت کر آتے ہیں تو مغربی بنگال میں بی جے پی وہی سب کچھ کرسکتی ہے جو اس نے گوا، مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش ، کرناٹک ، منی پور اور پانڈیچری میں کیا ہے۔
یہاں مسلمانوں کے ووٹ پر بہت کچھ انحصار ہے۔ اگر مسلمانوں کے ووٹ تقسیم نہ ہوئے تو ترنمول کانگریس کو ایک سو ساٹھ سیٹوں پر کامیابی مل سکتی ہے مگر بایاں محاذ، کانگریس اور آئی ایس ایف کے سیاسی اتحاد سے ترنمول کانگریس کو خطرہ لاحق ہے۔ مسلم ووٹوں میں شگاف پڑسکتا ہے۔ خاص طور سے آئی ایس ایف (انڈین سیکولر فرنٹ) سے۔ مسلمانوں میں جذباتی لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ ناسمجھ لوگوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ پیروں سے بھی ایک بڑی تعداد متاثر ہے۔ ممکن ہے کہ پیرزادہ عباس صدیقی کی جذباتی تقریروں سے ایسے لوگ متاثر ہوجائیں۔ کچھ لوگ ترنمول کانگریس کے خلاف ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ پیر زادہ صاحب کو ایک دو سیٹوں پر ممکن ہے کامیابی بھی مل جائے، مگر چند سیٹوں پر ترنمول کانگریس کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ اگر مسلمان نے حکمت عملی اور ماہرانہ توڑ جوڑ کا طریقہ اپنایا تو بی جے پی کو فائدہ نہیں پہنچے گا جس کی کوششیں ہورہی ہیں۔
کالم نویس اور زعفرانی پارٹی کے ترجمان سپن داس گپتا نے بنگال کی نئی سیاسی صف بندی پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’آئی ایس ایف کی متحدہ محاذ میں شمولیت سے فرق پڑسکتا ہے‘‘۔ سپن داس گپتا نے پیر زادہ کی بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ والی تقریر کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ ’’ان کی جارحانہ تقریر سے ان کی نیت صاف ہوجاتی ہے کہ وہ اقتدار میں حصہ داری چاہتے ہیں۔ اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ یونائیٹڈ فرنٹ مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال نہ کرے بلکہ اقتدار اور اختیار میں حصہ دار بنائے تو یونائیٹڈ فرنٹ پپولر فرنٹ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ پیر زادہ کی شمولیت سے سی پی ایم اس وقت ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں ہے بلکہ کانگریس کے ساتھ وہ بھی پسنجر ہے۔ یہ منظر اس وقت تک دکھائی دیتا رہے گا جب تک عباس صدیقی ایک غصہ ور نوجوان کی طرح انتخابی میدان میں جارحانہ تقریر کرتے رہیں گے‘‘۔ سپن داس گپتا نے مضمون کے آخر میں لکھا ہے کہ ’’سیاست میں جو ڈیولپمنٹ ہوا ہے فی الحال کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی، مگر یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اگر تیسرے محاذ کو مسلمانوں کا ایک قابل لحاظ ووٹ ملتا ہے تو اس کا اثر اور نقصان سب سے زیادہ ترنمول کانگریس کو ہوگا اور فائدہ اس کے چیلنجر بی جے پی کو ہوگا۔ 2019ء کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو بایاں محاذ اور کانگریس کے ووٹوں کے شفٹ ہونے سے بی جے پی کو فائدہ ہوا‘‘۔ ’’ووٹروں کی گھر واپسی سے مسلمانوں کا ایک حصہ سیاسی محاذ کو یہ سمجھ کر ووٹ دے گا کہ ان کا ووٹ ضائع نہیں جائے گا، لیکن متبادل کے طور پر آئی ایس ایف کی وجہ سے سی پی ایم اور کانگریس کا ہندو ووٹ بی جے پی کی طرف منتقل ہوسکتا ہے۔ اس وقت واضح جواب دینا مشکل ہے مگر جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ فرفرہ شریف کے ہاتھ میں اسپینر (اسکریو ڈرائیور) آگیا ہے اور ان کی وجہ سے انتخابی نتائج غیر واضح ہوچکا ہے یا ان کی موجودگی سے یکطرفہ عمل کا امکان ہے‘‘۔ (دی ٹیلیگراف،4فروری)
بی جے پی کے ترجمان کی سیاسی فکر سے بھی دوباتوں کا پتہ چلتا ہے۔ ایک تو یہ کہ بی جے پی کے لوگ محسوس کررہے ہیں کہ پیرزادہ صاحب کی سیاست میں آمد بی جے پی کیلئے خوش آئند ہے اور ان کی وجہ سے پولرائزیشن کا بھی امکان ہے۔ سب سے واضح جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ ترنمول کیلئے یکطرفہ نہیں ہوگا بلکہ تقسیم بھی ہوسکتا ہے۔ اس اشارے اور مسرت کو مسلمانوں کو بھی سمجھ لینا چاہئے اور سی پی ایم اور کانگریس کو بھی سمجھنے میں دشواری نہیں ہونی چاہئے کہ آئی ایس ایف سے جتنا فائدہ ان دونوں پارٹیوں کو ہوگا مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔
یوگی آدتیہ ناتھ کی جو تقریریں مالدہ اور دیگر علاقوں میں ہوئی ہیں اس میں پولرائزیشن کی بات زیادہ ہورہی ہے۔ وہ ’لو جہاد‘ جیسے مسئلے کو ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ بنگال کے کلچر میں ان کی یہ تقریر الٹی ثابت ہوسکتی ہے۔ بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے بجائے زبردست نقصان ہوسکتا ہے۔ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی آج (5مارچ) کی اشاعت میں ’بین المذاہب‘ شادیوں کا ذکر ہے۔ پانچ چھ جوڑوں کی طرف سے انٹرویو ہے۔ جن لڑکیوں نے مسلم نوجوانوں سے شادی کی ہے ان کا کہنا ہے کہ کسی نے جہاد نہیں کیا ہے Love (پیار) کیا ہے۔ یوگی کی تقریروں سے بنگال میں انتہاپسندانہ ذہنیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ’لو جہاد‘ ، ’لو اسکاڈ‘ ، ’تبدیلیِ مذہب‘ جیسے عنوانات سے اتر پردیش کے ماحول کو یوگی نے فساد انگیز بنا دیا ہے۔ لڑکیوں پر مظالم کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ نظم و نسق کی حالت بھی انتہائی خراب ہے۔ جب یوگی کو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کیلئے حلف دلایا گیا تھا اس کے بعد ہی تلوین سنگھ اور انوپم کھیر جیسے مودی بھکت مودی سے متنفر ہوگئے تھے۔ کھیر نے تو یوگی نے بہت پہلے پارٹی سے نکالنے کی بھی اپیل کر ڈالی تھی۔ تلوین سنگھ جو مودی کو مسیحا لکھتی تھیں اور ’مسیحا مودی‘ کے نام سے ان کی کتاب بھی شائع ہوئی ہے یوگی کے وزیر اعلیٰ بنائے جانے کے بعد لکھا کہ مودی کے ’ڈی این اے‘ میں آر ایس ایس کی ذہنیت پائی جاتی ہے۔ اس ذہنیت کے لوگ ہی مودی کو پسند کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اگر بنگال کا وزیر اعلیٰ بنایا جاتا ہے تو بنگال کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی بیحد متاثر ہوگی۔
اچھی بات یہ ہے کہ بنگال کے دانشور اور ہوش مند افراد کے علاوہ بنگالیوں کی اکثریت مودی اور یوگی کے سخت خلاف ہے۔ ممتا بنرجی کا یہ نعرہ ’’بنگال کو اپنی بیٹی چاہئے‘‘ مقبول ہورہا ہے۔ پانچ روپئے میں غریبوں کو سرکاری باورچی خانے سے کھانا کھلانے کی اسکیم چل رہی ہے۔ یہ دو چیزیں بی جے پی پر بھاری پڑ رہی ہیں۔ کسان آندولن کی طرف سے چار پانچ ریاستوں میں جہاں جہاں بھی الیکشن ہورہا ہے اپیل کی گئی ہے کہ بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا جائے۔ 12 مارچ کو کسان آندولن کا بہت بڑا جلسہ بی جے پی کے خلاف کلکتہ میں منعقد ہوگا۔ 15 مارچ کو کسانوں اور مزدوروں کا عظیم الشان جلسہ آسام میں منعقد ہوسکتا ہے۔ اکھلیش یادو اور تیجسوی یادو نے بھی ممتا بنرجی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ شرد پوار نے بھی ممتا کے حق میں بیان دیا ہے۔ لیکن شیو سینا حمایت کرنے میں سب سے آگے ہو گئی ہے اور ممتا کو ’بنگال کی شیرنی‘ کہا ہے۔ امید ہے کہ جنگل کا شیر جو یوگی کے ذریعے مغربی بنگال میں ’جنگل راج‘ قائم کرنا چاہتا ہے بنگال کی شیرنی اپنی مقبولیت اور طاقت سے قائم نہیں ہونے دے گی۔ کیونکہ یہ شیر کسی کے کام نہیں آتا بلکہ شیر پورے ملک کو تباہ کر رہا ہے۔ ایسا شیر جو کسی کے کام نہیں آتا بلکہ کام بگاڑتا ہے وہ گدھے سے بھی بدتر ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here