میانمر: فوج مخالف مظاہرین آنسوگیس سے بچنے کے لیے بھاگ رہے ہیں‘ نوجوان آمریت کا علامتی جنازہ اُٹھائے ہوئے ہیں
نیپیداؤ : میانمر میں جمہوریت کا تختہ الٹنے والے آمروں کے خلاف عوامی احتجاج پر سیکوڑٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے استعمال کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق ایک ماہ سے جاری احتجاج کے سلسلے میں گزشتہ روز احتجاجی مظاہرے پر سیکورٹی فورسز نے ایک بار پھر براہ راست گولیاں برسا دیں، جس کے نتیجے میں 8 افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہو گئے۔
دریں اثنا فوج اور پولیس نے ینگون اور منڈالے سمیت دیگر شہروں میں آمریت کے خلاف تحریک کے حامی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل برسائے اور ربڑ کی گولیوں کے ساتھ اصلی گولیاں بھی براہ راست چلائی گئیں۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق احتجاج کے آغاز سے اب تک مظاہروں میں 21 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
آن لائن اجلاس میں میانمر کے نمایندے سمیت وزرائے خارجہ نے شرکت کی اور تشدد کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔ اُدھر امریکا نے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میانمر کے حالیہ معاملات پر غور کرے۔
دوسری جانب جمہوریت نواز مظاہرین پر تشدد اور ان کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے بعد عالمی تنقید کا سلسلہ بھی وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان نے اس سلسلے میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا، جس میں فوجی بغاوت کے بعد شروع ہونے والے بحران پر غور کیا گیا۔ آن لائن اجلاس میں میانمر کے نمایندے سمیت وزرائے خارجہ نے شرکت کی اور تشدد کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔ اُدھر امریکا نے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میانمر کے حالیہ معاملات پر غور کرے۔
عالمی ادارے میں امریکی سفیر لِنڈاتھومس گرین فیلڈ نے کہا ہے کہ مجھے خوشی ہے کہ سلامتی کونسل نے میانمر کی صورتحال پر تشویش کے اظہار کے لیے متفقہ بیان جاری کیا، تاہم اس معاملے پر زیادہ سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سلامتی کونسل نے ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں میانمر کی فوج کی جانب سے ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کے نفاذ کے اعلان پر اظہار تشویش کیا گیا تھا، تاہم چین اور روس کی مخالفت کے باعث فوجی انقلاب پر موثر تنقید نہیں کی گئی تھی۔