ذہن زاد اورتوصیف بریلوی:جنسی نفسیات کے حوالے سے ایک جائزہ- Mindfulness and Description Barelvi: An Overview of Sexual Psychology

0
103

Mindfulness and Description Barelvi: An Overview of Sexual Psychology

دانش اثری، مئو
اردو کے افسانوی منظر نامے پر اس قدر بھیڑ بھاڑ کا منظر ہے کہ موجودہ عہد میں یہاں کسی کو بھی اپنی حیثیت تسلیم کراپانا اور بھیڑ میں اپنی شناخت قائم کرنا انتہائی دشوار گزار عمل بن چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ اگر قلم کار کی انگلیوں میں دم ہے تو وہ کسی بھی بھیڑ میں اپنی شناخت بنا ہی لیتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس عمل میں کبھی کبھی وقت زیادہ لگتا ہے۔ معاصر اردو افسانے میں یوں تو موضوعات کا تنوع بھی ہے اور ہمہ گیریت بھی لیکن اس کے بعد بھی ایک مسئلہ برقرار رہتا ہے کہ وہ تمام اوصاف جو کسی افسانے کو اعتبار عطا کرتے ہیں کسی ایک شخص کے یہاں یکجا اور اکٹھا نہیں دکھائی دیتے۔ جہاں برننگ ٹاپکس اور عصری موضوعات ہیں وہاں زبان و بیان کا المیہ ہے، جہاں زبان و بیان کی چاشنی ہے وہاں برتاؤ عصری فکشن سے ہم آہنگ نہیں ہے غرضیکہ ہر جا کوئی نئی بلا منتظر ہے اور اردو افسانہ تقریبا سوا صدی کا سفر طے کرنے کے بعد بھی مسکینیت کا شکار ہے۔ ایسے عالم میں اگر کچھ نام ایسے سامنے آتے ہیں جن کے یہاں لوازم افسانہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوں تو یقینا طبیعت خوشی سے جھوم جاتی ہے۔ ایک ایسا ہی نام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسکالر ڈاکٹر توصیف بریلوی کا ہے۔ آپ کا افسانوی مجموعہ ’’ذہن زاد‘‘ کے نام سے حال ہی منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا ہے۔ اس افسانوی مجموعہ میں کل 20افسانے موجود ہیں جبکہ بیک کور پر سید محمد اشرف جیسے معروف افسانہ نگار کے توصیفی کلمات توصیف بریلوی کے فن کو اعتبار عطا کررہے ہیں۔
توصیف بریلوی ان نوجوان اسکالروں میں شامل ہیں جو کوئی بھی کام صرف خانہ پری کے لیے نہیں کرتے اور جب وہ تخلیق کرتے ہیں تو صرف تخلیق کار بننا ہی ان کا مقصد نہیں ہوتا بلکہ ایک طرح سے ہم یوں کہہ لیں کہ تخلیق کار بننا ان کا مقصد ہوتا ہی نہیں ہے بلکہ وہ زندگی میں جن تجربات و مشاہدات سے دوچار ہوتے ہیں ، ان کا گہرائی و گیرائی کے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں کیونکہ قدرت کی طرف سے انھیں سوچنے والا ذہن اور تجزیہ کرنے کی قوت ودیعت کی گئی ہوتی ہے۔ اس عمل میں وہ اس قدر مصروف و منہمک ہوجاتے ہیں کہ ان کی حساسیت ایک کرب بن کر ان کے وجود پر حاوی ہوجاتی ہے اور ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب انھیں یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ اگر انھوں نے دستور زباں پر عمل روا رکھا تو شاید جنون کی حد سے بھی گزر جائیں، ایسے عالم میں پوری قوت سے چیخنا ان کے لیے لازم ٹھہرتا ہے اور وہ چیختے ہیں، ان حالات کے خلاف جو ان کے نزدیک انسانیت کی تباہی کے ذمہ دار ہوتے ہیں، ان افراد کے خلاف جو معاشرتی اقدار کے زوال کا سبب ہیں، اس سسٹم کے خلاف جو دھیرے دھیرے انسانوں کی انسانیت ختم کرکے انھیں مشین یا جانور میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن ان کا چیخنا لوگوں کو گراں گزرتا ہے، ان کی حق بیانی سے بہت سے لوگوں کی سماعتیں زخمی ہونے لگتی ہیں اور ان انھیں ایک مخصوص ٹائٹل دے کر کنارے لگانے کی نامسعود کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔ توصیف بریلوی کے یہاں موضوعات کی کمی تو نہیں ہے لیکن ان کے موضوعات میں ایک چیز جو مشترک نظر آتی ہے وہ ان کا جنسی نظریہ ہے۔ یہ ایک ایسا نازک موضوع ہے جسے بہت سارے لوگ جانتے

بوجھتے اور سمجھتے ہوئے بھی ڈسکس نہیں کرنا چاہتے اور ان کی یہی خاموشی پورے سماج میں زہر گھول رہی ہے۔
ڈاکٹر توصیف بریلوی جب اپنے موضوعات کو منتخب کرتے ہیں تو صرف ہوائی اور خیالی بنیادوں پر ہی نہیں کرتے بلکہ اس میں کسی نہ کسی حد تک ان کا ذاتی تجربہ و مشاہدہ بھی شامل ہوتا ہے۔ وہ اپنے موضوعات کو منتخب کرنے کے بعد پورے تاریخی پس منظر اورمالہ و ماعلیہ کی تحقیق کے بعد پوری طرح مطمئن ہوکر اپنے قلم کو سینہ قرطاس پر رواں کرتے ہیں اور کسی میدانی ندی کی طرح سبک روی کے ساتھ بہتے ہوئے اپنے انجام تک پہنچ جاتے ہیں۔یہیں ان کے اسلوب کی اہمیت و افادیت بھی نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ جس سبک روی سے وہ افسانے تحریر کرتے ہیں اسی سبک روی سے ان کا قاری بھی پورے انہماک کے ساتھ ان کی انگلی تھامے افسانے کے انجام تک پہنچ جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کی سب سے بڑی کامیابی تو یہ ہے کہ قاری ان کے افسانے ختم کرنے کے بعد سوچتا ہے کہ یہ افسانہ ختم کیوں ہوگیا؟ آگے کیا ہوا ہوگا؟ یہ افسانہ کچھ دور مزید چلنا چاہیے تھا! پھر ہر ایک قاری اپنے ذہنی مستوی اور علمی معیار اور فہم و ادراک کے سہارے اس کہانی کو ذہنی طور پر آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ میرے نزدیک کسی بھی افسانہ نگار کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس کا افسانہ کاغذ پر ختم ہونے کے بعد قاری کے ذہن میں چلنے لگے۔ کسی ایک مختصر مضمون میں ان کے تمام افسانوں کا جائزہ لکھ پانا تو ممکن نہیں لیکن ان کے چند افسانوں کے تجزیے کے سہارے ہم ان کے فکری اور فنی دھارے سے جڑنے کی کوشش ضرور کریں گے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ توصیف بریلوی کی فکری رو کس سمت میں بہہ رہی ہے اور فن پر گرفت کا ان کا کیا انداز و اسلوب ہے۔
’’ذہن زاد‘‘ میں شامل ان کے ایک افسانے کا عنوان ’’نک ٹائی‘‘ ہے۔ یہ افسانہ انسانی نفسیات کا بڑی عمدگی کے ساتھ احاطہ کرتا ہے ، افسانہ پڑھتے ہوئے فاضل افسانہ نگار کی انسانی نفسیات پر زبردست گرفت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ایک رومانی افسانہ ہے، کچی عمر کا کھیل جو بڑھتی عمر کے ساتھ پکا ہوجاتا ہے۔افسانے میں ساری کہانی ایک نک ٹائی کے گرد گھومتی ہے۔ افسانے میں چار متحرک کردار نظر آتے ہیں، نادر، گل، روبینہ اور سمی، ان کے علاوہ نادر کی ماں اور بہن کا کردار بھی ایک مختصر وقفے کے لیے افسانے میں جگہ پاتا ہے لیکن کہانی کی روانی اور اس کے نشیب و فراز میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اصل کہانی نادر کے عشق کی ہے جو گل کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے، لیکن یہ بوجوہ ممکن نہیں ہوپاتا ہے۔
پہلا ٹرننگ پوائنٹ یہ ہے کہ نادر اور گل کی شادی کیوں نہیں ہوئی، اس پر افسانہ نگار نے روشنی نہیں ڈالی ہے۔
دوسرا مقام یہ ہے کہ نادر کی روبینہ سے شادی ہوگئی، آگے چل کر یہ وضاحت ملتی ہے کہ یہ شادی ملازمت اور مستقبل کے مدنظر کی گئی تھی، جس میں ان دونوں کا کوئی دخل نہیں تھا۔
تیسرا اور اہم مقام یہ ہے نادر کو سمی سے عشق ہوجاتا ہے۔
قدر مشترک کے طور پر یا ربط باہمی کے لیے افسانہ نگار نے نِک ٹائی کو استعمال کیا ہے، نادر کو ٹائی باندھنی نہیں آتی ہے اور وہ اسے سیکھنا بھی نہیں چاہتا کیونکہ اسے یقین ہے کہ گل یہ کام زندگی بھر کرتی ہی رہے گی، لیکن ان دونوں کی یکجائی نہیں ہوپاتی۔ اس کی شادی روبینہ سے ہوتی ہے جو ٹائی باندھنے کا سلیقہ رکھتے ہوئے بھی ٹائی نہیں باندھتی ہے، یہاں پھر ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیوں؟ اس کا جواب افسانہ نگار نے نہیں دیا ہے۔ سمی نادر کی سکریٹری ہے جو ٹائی کی ناٹ درست کرکے دیتی ہے کہ صرف گلے میں ڈال کر ناٹ کس لیجیے، دوسری ملاقات میں وہ خود سے ٹائی کی ناٹ باندھتی ہے۔ نادر کو چونکہ گل کا بدل مل چکا ہے اس لیے اب اسے روبینہ کی توجہ کی ضرورت نہیں رہی (جو پہلے ہی سے صرف فارمیلٹی تک تھی)طویل عرصے کی کھینچا تانی کے بعد روبینہ کو نادر سے قریب ہونے کا خیال آتا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ افسانہ اختتام پزیر ہوجاتا ہے۔
جہاں تک نادر اور گل کی شادی نہ ہونے کا سوال ہے، تو بہت سے امکانات ہیں اور یہی امکانات کو افسانے کو ایک سے زائد جہات کا حامل بناتے ہیں۔ ممکن ہے کہ نادر اپنے اہل خانہ سے اپنی روداد عشق بیان کرنے کی ہمت نہ کرسکا ہو، ممکن ہو کہ اس کے بیان کیا لیکن اہل خانہ راضی نہ ہوئے ہوں، ممکن ہے کہ اہل خانہ راضی ہوگئے ہوں لیکن گل کے ذمہ داران سے بات نہ بن پائی ہو لیکن ان تمام امکانات میں دوسرا امکان زیادہ قوی ہے کیونکہ افسانہ نگار جب اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ نادر اورروبینہ کی شادی ملازمت اور مستقبل کا خیال کرتے ہوئے کی گئی تھی تو شاید گل کو درکنار بھی اسی سبب سے کیا گیا ہوگا۔
عہد حاضر کی مصروف ترین زندگی میں پرانی اور صحت مند اقدار کی تمام تر پامالی کے باوجود بھی ہم اکثرمشاہدہ کرتے ہیں کہ عشقیہ معاملات میں لڑکے یا لڑکی کو قربانی دینی ہی پڑتی ہے اور کبھی کبھی اس مذبح میں دونوں کو معاشرتی معبود کے سامنے ذبح کردیا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کا قوی امکان ہے کہ نادر نے بھی اہل خانہ کی ضد کے آگے (ممکن ہے کہ اس کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی مستقبل کے خیالات ہی انگڑائی لیتے رہے ہوں) ہار مان لی ہو۔ اسی کے بالمقابل روبینہ کا کردار ہے۔ بہت ممکن ہے کہ بیشتر لوگ اس بات سے انحراف کریں یا اسے لائق اعتناء نہ گردانیں لیکن راقم کا ذاتی مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ عام طور پر عشق میں ہارے ہوئے لڑکوں کو عشق میں ہاری ہوئی لڑکیاں ہی مل جاتی ہیں، دونوں دل شکستہ، کبھی کبھی دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ماضی کو بھول کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور کبھی کبھی دونوں نرگسیت پسندی میں تباہ ہوجاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ روبینہ کا ماضی بھی کچھ ایسا ہی ہو جیسا نادر کا ہے ، اس خیال کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ روبینہ کا کردار نہ صرف نادر کے بالمقابل لایا گیا ہے بلکہ اس کے عادات و اطوار بھی نادر سے کافی مشابہ بیان کیے گئے ہیں۔
رہا نادر اور سمی کا عشق… تو اسے ایک نفسیاتی مسئلہ کہا جاسکتا ہے۔ کبھی کبھی کسی کسی کو اپنے محبوب کی کوئی ایک ادا اتنی زیادہ محبوب ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں اپنے مقابل آنے والے ہر کردار میں اسی ادا کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے، نہ پانے پر جھنجھلاتا ہے اورمل جانے پر شادکام ہوجاتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی گرہ ہے جس میں نادر الجھا ہوا ہے اورجیسے ہی سمی اس کے گلے میں ٹائی باندھتاہے اسے گویا اپنا گوہر مقصود حاصل ہوجاتا ہے۔
میراذاتی مطمح نظر افسانوں کے تعلق سے یہ ہے کہ ان میں کچھ نہ کچھ ان کہی تو ہونی ہی چاہیے، تاکہ افسانہ ایک سے زائد جہات کا حامل ہوسکے۔ اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ اس ان کہی کو کس جہت میں کھولتا ہے۔اسی طرح مجموعے میں شامل ایک افسانہ ’’ایش ٹرے‘‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ ایک عشقیہ جوڑے جم Jim اور اسٹیلا Stellaکی کہانی ہے جو کچھ عرصہ ساتھ رہنے کے بعد بچھڑ جاتے ہیں اور ایک عرصے کے بعد دوبارہ ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دونوں پھر سے پرانے تعلقات کو استوار کریں لیکن کچھ دنوں کی رفاقت کے بعد لڑکا اس سے دور ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دوری کا سب سے اہم سبب یہ ہوتا ہے کہ اسٹیلا اسی پرانے جم کو تلاش کرتی ہے جسے اس نے برسوں پہلے کھویا تھا، حالانکہ وقت اور حالات بدلتے ہیں، انسانی مزاج اور رویے تبدیل ہوتے ہیں اور ڈھلتی ہوئی عمر انسان میں ٹھہراؤ لادیتی ہے۔ اس کے اندر وہ وارفتگی باقی نہیں رہتی جو عنفوان شباب کا حصہ ہوتی ہے۔ اسٹیلا ان اسباب پر غور نہیں کرنا چاہتی اور آخر جم اسے آئینہ دکھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہاں بھی کرداروں کی نفسیات پر فاضل افسانہ نگار نے بڑی مضبوط پکڑ رکھی ہے اور کہیں بھی کسی ایک بھی نکتے ہو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا ہے۔ جم کے عدم التفات کے نتیجے میں جب اسٹیلا اسے رجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتی ہے:
’’جم تمھیں کیا ہوا ہے…؟ کیوں ایسا behave کررہے ہو…؟ تمھیں تو معلوم ہے کہ میں ابھی چھبیس کی بھی نہیں ہوئی اور تم ہو کہ…‘‘
ایش ٹرے مشمولہ ذہن زاد، ص:34
ان چند جملوں کو پڑھتے ہوئے بے ساختہ ایک خیال ذہن میں لہراتا ہے کہ بات چھبیس اور اٹھائیس کی نہیں ہوتی، بلکہ عمر کی ہوتی ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تسکین کی ہوتی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی مرد کی مردانگی پر سوال اٹھایا جائے گاتو ایسی صورت میں اس کا برگشتہ و بددل ہونا ضروری ہے۔ پھر وہ تعلقات منقطع نہ بھی کرے تو بیزاری کا اظہار تو کرے گا ہی۔ پرندہ آزادانہ فضا چاہتا ہے تاکہ وہ شام کو لوٹ آئے لیکن جب اس کی فضا محصور کی جائے گی تو وہ ہمیشہ کے لیے اس فضا سے نکل جانے کا راستہ تلاش کرنے لگے گا۔ دھیرے ایک وقت آتا ہے جب دونوں ایک دوسرے سے اپنا ماضی ڈسکس کرنے بیٹھتے ہیں اور جم اپنی محرومیوں کی داستان سناتا ہے۔ اپنے ماں باپ کی جدائی کا قصہ سناتے ہوئے وہ رو پڑتا ہے تو اسٹیلا اسے اپنے سینے سے لگالیتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ہر عورت کے اندر ممتا کا جذبہ اور عنصر لازماموجود ہوتا ہے جو کسی بھی کمزور لمحے میں باہر آسکتا ہے۔ جم کی زندگی میں اس کے علاوہ کوئی اور حادثہ تو نہیں تھا لیکن وہ اسی صدمے سے جانبر نہیں ہوپارہا تھا۔ ہاں اسٹیلا کے ساتھ ایسا نہیں تھا بلکہ وہ جم سے بچھڑنے کے بعد مختلف حالات کا شکار رہی اور اجتماعی آبروریزی کے جاں سوز مرحلے سے بھی گزری، اسی مرحلے کو بیان کرنے کے لیے توصیف بریلوی نے ایش ٹرے کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ جنسی اذیت کوشی کوئی نئی بات بھی نہیں بلکہ یہ وباء محلات اور حرم کی کنیزوں کے لیے ایک زمانے تک خاص رہی ہے، لیکن اس کا شکار عام لوگ نہیں ہوئے تھے ، افسوس کہ یہ آج کل عمومی رجحانات میں شامل ہے۔ زندگی کی ناآسودگیاں کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لیتی ہیں۔یہاں ایش ٹرے کا استعارہ دراصل اسٹیلا کی اندام نہانی کے لیے ہے جس میں مختلف لوگ اپنے سگار کی راکھ جھاڑ کر تسکین حاصل کرتے ہیں۔ جم جب اسٹیلا کی داستان کا یہ حصہ سنتا ہے تو وہ پھٹ پڑتا ہے اور پھر اسٹیلا کے سابقہ جملے کا جواب دیتا ہے:
’’کیا کہا تم نے، میرے اندر passionباقی نہیں رہا؟ اور تمھارے اندر…؟ تم تو کھوکھلی ہوچکی ہو۔ تم وہ اسٹیلا نہیں ہو جو دس سال پہلے مجھ سے جدا ہوئی تھی۔تم کسی کو خوش رکھنے کے لایق نہیں ہو بلکہ تم اب ضرورت کا سامان بھی نہیں رہی ہو۔‘‘
ایش ٹرے مشمولہ ذہن زاد، ص:38
یہاں پر تھوڑی دیر رک کر ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ یقینا اسٹیلا ایش ٹرے نہیں ہے جس میں سگریٹ کی راکھ جھاڑی جائے، لیکن اس بات سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں کہ مرد کی تسکین میں عورت کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ پچھلے صدمات کی ماری اسٹیلا شاید اس عمل میں مکمل شرکت نہیں کرپارہی تھی اور رشتوں کی سردی کا سارا بوجھ جِم کے سر پر رکھ کر خود کو بچانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ آ خرکار اسٹیلا جم سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کرتے ہوئے اس سے جدا ہوجاتی ہے، ایک منظر افسانے میں مزید جڑتا ہے جب اسٹیلا ٹرین میں سفر کررہی ہوتی ہے اور اس کے ہاتھوں میں ایک میگزین ہوتا ہے جس میں Reverginity Surgeryکا اشتہار ہوتا ہے۔افسانہ یہاں اختتام پزیر ہوجاتا ہے۔ قاری یہ تو سمجھ جاتا ہے کہ اسٹیلا یا تو سرجری کروانے جارہی ہے یا سرجری کروا کر آرہی ہے۔ پچھلی کہانی سے جڑتے ہوئے ہمیں علم ہوتا ہے کہ وہ مفلس اور قلاش تھی، ایسے عالم میں اس سرجری کے اخراجات سے کہاں سے آتے؟ اس کے لیے افسانہ نگار نے پہلے ہی سے انتظام کررکھا تھاکہ اسٹیلا کا گھر بیچنے کے بعد بھی اس ماں کا ایک بریسلیٹ اور نیکلس محفوظ رکھا تھا:
’’ڈیڈ کی موت کے بعد ان کی شیلف سے موم کا ایک نیکلس اور برسلیٹ ملا تھا جس کے بارے میں نے آنٹ کو کچھ نہیں بتایا تھا۔‘‘
ایش ٹرے مشمولہ ذہن زاد، ص:37
موم کا یہ نیکلس اور برسلیٹ ملنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ تاکہ سرجری کے اخراجات پورے کیے جاسکیں۔ فاضل افسانہ نگار اس نکتے کو اپنے ذہن سے محو نہیں ہونے دیا تھا بلکہ اس کا پہلے ہی سے انتظام کررکھا تھا، اس لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کہانی کا انجام اور اختتامی خاکہ شاید افسانہ نگار کے ذہن میں پہلے ہی سے تیار تھا۔
جنسی تعلقات کے پیچھے ایک اہم ترین محرک نفسیات بھی ہوتی ہے، ساتھی کا انتخاب اور اس کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی اور ضرورتوں میں توازن یا تساوی جیسی چیزیں اس رشتے کو مضبوط بناتی ہیں۔ بیشتر ایسا ہی ہوتا ہے کہ دونوں ہمراہی ایک دوسرے کو مطمئن کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ بس ماضی کی حسین یادوں، یا ناسٹیلجیا کے سہارے زندگی رہی ہوتی ہے اورایسے میں ذہن میں کوئی شک گھر جائے تو یہ ہمراہی مزید مشکل ہوجاتی ہے۔
افسانے کے اختتام کے بعد جو سوالات قارئین کے اذہان میں پیدا ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ کیا سرجری کے بعد اسٹیلا جم کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے؟ اور جم اپنا passionکہاں سے واپس لائے گا؟ اسٹیلا کے پاس تو پھر بھی ایک آپشن تھا لیکن جم…کیا یہ ضروری ہے کہ اسٹیلا جم کے پاس ہی واپسی کرے؟ اس کے لیے دوسرے متبادل بھی تو مہیا ہوسکتے ہیں اور ان سب سے بڑھ کر اہمیت اس مسئلے کی ہے کہ کیا محبت کی تجسیم ضروری ہے؟ یا محبت میں جسم کی شمولیت ضروری ہے اور اگر محبت میں جسم کی شمولیت کو مان بھی لیا جائے تو کیا جسم کا مصرف صرف بستر کی گرمی اور سانسوں کی بے ترتیبی تک ہی محدود ہے؟ یہ افسانہ ایسے متعدد سوالات اٹھاتا ہے جن کا جواب ڈھونڈنا ہر ذی شعور قاری پر فرض ہے۔ کوئی بھی ایک نقطہ نظر قاری کی فکر کو محدود کرسکتا ہے، ایسی صورت میں ہر قاری کو اپنا علیحدہ جواب ڈھونڈنا ہوگا۔ حالات و ظروف کی رعایت سے ترجیحات تبدیل ہوسکتی ہیں لیکن زوال پزیر اقدار کے درمیان کم از کم ایک معیار تو قائم کرنا ہی ہوگا۔
جنسی تعلقات اور آسودگی و ناآسودگی کی اسی فضا میں ایک افسانہ ’’پزا بوائے‘‘ کے عنوان سے ہے جو انتہائی سفاکی کے ساتھ Colonial Curlture اور جنسی فاقہ کشی کا بھیانک چہرہ ہمارے سامنے لاتا ہے۔ ممکن ہے کہ افسانے کے مشمولات پر، کسی مقام، کسی موڑ پر کچھ قارئین کو زبان و بیان پر اعتراضات بھی ہوں لیکن ذاتی طور پر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے جو انداز و اسلوب اختیار کیا ہے وہ انتہائی مجبوری کے عالم میں اختیار کیا گیا ہے اور شاید اس سے زیادہ سنجیدہ اور اشاراتی زبان کم از کم اس موضوع پر تو نہیں استعمال کی جاسکتی۔ افسانے کا حاصل صرف اتنا ہے کہ کس طرح کالونیوں میں سب لوگ ایک دوسرے سے دور دور رہتے ہوئے ذہنی تناؤکا شکار ہوتے ہیں اور پھر اس تناؤ کو دور کرنے کے لیے کسی ایسے فرد کا سہارا لیتے ہیں جو بادی النظر میں کسی کو بھی ان سے متعلق نہ معلوم ہوسکے۔ خاص طور پر ایسے مقامات پر جنسی ناآسودگی سب سے اہم مسئلہ ہوتی ہے، جس کی تسکین کا کوئی ذریعہ نہیں بنتا تو پھر مجبور و مقہور انسانوں کا مشینی استعمال شروع ہوجاتا ہے۔ اس کام کے لیے سب سے زیادہ جو لوگ استعمال کیے جاتے ہیں وہ ڈیلیوری بوائز ہی ہوتے ہیں، چاہے وہ کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل کرتے ہوں یا دیگر چیزوں کی یا گھریلو اشیاء کی مرمت کا کام کرتے ہوں۔ ایک اقتباس سے اس افسانے کے کرداروں کی نفسیات کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں:
’’ہر بار اتنے ہی روپے دوں گی، جس دن کوئی فرینڈ آگئی تو اس دن ڈبل ملیں گے اوراگر کم لگیں تو بول دینا۔ جب فون کروں گی تب آنا ہوگا اور خالی ہاتھ کبھی نہ آنا پزا ہمیشہ لانا۔ میرا بوائے فرینڈ بننے کی کوشش کبھی مت کرنا ، پزا بوائے ہو پزا بوائے ہی رہنا۔ یہ رہا تمھارا پزا کا بل، اب تم جاسکتے ہو۔‘‘
پزّا بوائے مشمولہ ذہن زاد، ص:17
اس ایک مختصر سے اقتباس سے شاہانہ مزاجی اورفرد انسانی کا مشینی استعمال بالکل واضح ہوجاتا ہے، یہاں اقبال کا وہ شعر یاد آنا ناگزیر ہے جو انھوں نے لینن کی زبانی خدا کے حضور کہلوایا تھا ؎
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب عورت اپنا سب کچھ کسی کے حوالے کردیتی ہے تو پھر اسے چھوڑ پانا، یا مکمل طور پر قطع تعلق کرلینا یا کسی اور کی آغوش میں اسے دیکھ پانا ناممکن سا ہوجاتا ہے۔ اس کہانی میں بھی وہی ہوتا ہے اور جس کردار کو پہلے یہ غرور تھا کہ ’’میرا بوائے فرینڈ بننے کی کوشش کبھی مت کرنا‘‘ وہ اسی کردار سے جبرا شادی کرنا چاہتی ہے اور انکار کی صورت میں اسے بلیک میل کرنے کی کوشش کرتی ہے، نتیجتاً وہ بالکنی سے کود کر ہلاک ہوجاتا ہے۔
مجموعی اعتبار سے اگر دیکھا جائے توتوصیف بریلوی کی گرفت نفسیات اور خصوصا جنسی نفسیات پر بہت ہی مضبوط ہے اور وہ جب اس طرح کے موضوعات کو اٹھاتے ہیں تو اس قدرفنی چابک دستی کے ساتھ اٹھاتے ہیں کہ قاری اش اش کر اٹھتا ہے۔فکشن کی جمالیات میں یہ بات انتہائی اہم ہوتی ہے کہ افسانہ نگار/ فکشن رائٹر جو کچھ لکھ رہا ہے، جس جذبے سے لکھ رہا ہے، اور اشیاء و جذبات کو جس قوت سے محسوس کرتا ہے اپنے قاری تک اسی قوت سے پہنچائے تاکہ قاری میں اس جذبے کا نفوذ بھی اسی قوت سے ہوسکے۔ یہ کام اسلوب و انداز کا ہوتا ہے، لفظیات کے انتخاب کا ہوتا ہے اور لفظوں کے اجتماع سے ماخوذ و مراد تعبیرات کا ہوتا ہے اور توصیف بریلوی ان تمام سطحوں پر کامیاب ہیں۔
ریسرچ اسکالر: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
7007809510

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here