سید بصیر الحسن وف نقوی
جون ایلیاء جدید اردو شاعری کی ایک ایسی مستند آواز ہیں جن کی غزل میں ذات و کائنات کے شکوے کے ساتھ ساتھ ایک منفرد انداز میں نرگسیت کاعنصر بھی شامل ہے ان کی غزل میں جہاں سہلِ ممتنع کی تمام نقوش موجود ہیں وہیں گہرائی و گیرائی بھی کارفرماء نظر آتی ہے۔وہ جہاںعصرِ حاضر کے بدلتے ہوئے اقدار کا نوحہ پڑھتے ہیں وہیں تغزل کی چاشنی بھی برقرار رکھتے ہیں۔وہ بہ یک وقت جمال پرست بھی اور زمانے کے شاکی بھی ہیں انھیں نہ صرف زمانے سے شکایت ہے بلکہ وہ خدا سے بھی شکوہ کیے بغیر نہیںرہتے ۔ان کے یہاں ایک مخصوص قسم کی بیباکی ہے جو انھیں معبودِ حقیقی کے انکار کی حدوں تک لے جاتی ہے۔
انھوں نے بھی دیگر ہمعصر شعراء کی طرح اپنی شاعری میں مخصوص انداز میں اسلامی واقعات و تلمیحات کا سہارا لیکر اپنے اندرون کو واضح کیا ہے۔بظاہر وہ ایک عقیدت مند مسلمان نہیں لیکن ان کی انکاری کیفیت میں بھی اہلِ حق کے لیے ایک پیغام موجود ہے۔انھوں نے قرآنی تلمیحات میںدعا مانگنے اور دعا کرنے پر اپنے زاوئیے سے روشنی ڈالی ہے:
دیتا ہوں تم کو خشکی مژگاں کی میں دعا
مطلب یہ ہے کہ دامنِ پر نم ملے تمہیں
وہ چاہتے ہیں کہ ان کا محبوب کو گریہ کرنا نصیب ہو کیونکہ یہی عشق کا تقاضہ ہوا کرتا ہے لیکن انھیں معلوم ہے کہ وہ جو دعا کرتے ہیں اس کی مقبولیت اس صورت میں ہوتی ہے کہ اس کا برعکس ہوتا ہے اس لیے وہ محبوب کو خشکی مژگاں کی دعا دیتے ہیں۔ظاہر ہے کہ انھیں دعا کی مقبولیت پر یقین ہے۔اسی لیے کہتے ہیں:
لاکھ جنجال مانگنے میں ہیں
کچھ نہ مانگو،فقط دعا مانگو
یعنی ان کی مخصوص انا کسی انسان کے آگے دستِ تمنا دراز نہیں کرنے دیتی اسی لیے انھیں دعا پر بھروسا ہے لیکن ان کے یہاں یقین و تشکیک کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔کہتے ہیں:
اے اہلِ شہرمیں تو دعا گوئے شہر ہوں
لب پر مرے دعا ہے،اثر کس کے پاس ہے
ان کے یہاں قرآنی آیات کے ٹکڑے بھی نظر آتے ہیں جس کے استعمال میں ان کا مخصوص فکری انداز نمایاںہے۔وہ کائنات کی تخلیق کو عجلت قرار دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ عجلت کی ہی وجہ سے کائنات خراب ہے:
حاصلِ کن ہے یہ جہانِ خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
ان کے یہاں روایتی شعراء کی طرح محبوب کو حشر ،قیامت،یا عذاب کہنے کا بھی مخصوص طریقہ نظر آتا ہے۔یہ مخصوص طریقہ کلاسیکیت سے ہم آہنگ ضرور ہے لیکن اپنی تمام تر جدتوں کے ساتھ ۔مثلاً:
ہے طرفہ قیامت جو ہم دیکھتے ہیں
ترے رخ پہ آثارِغم دیکھتے ہیں
یہاں محبوب کے چہرے پر فکر کے نقوش قیامت کی مانند ہیں لیکن جونؔ کا یہ انداز یہیں نہیں رکتا بلکہ قیامت کی یاد انھیں محبوب کا ناف پیالہ اور اس کے شکم کی شکن دیکھ کر بھی آتی ہے۔کہتے ہیں:
ایک آفت ہے وہ پیالۂ ناف
کیا قیامت ہے وہ پیالۂ ناف
قیامت تھی اس کے شکم کی شکن
کوئی بس مرا پھر چلا ہی نہیں
دونوں اشعار ان کی حسن پرستی اور ذوقِ جمالیات کی دلیل کے ساتھ ساتھ ان کی جدت طرازی کے بھی ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ایسا نہیں کہ انھیں محبوب کے حسن میں ہی قیامت نظر آتی ہے بلکہ انھیں کسی کی خاموشی بھی قیامت سے کم نہیں لگتی:
تھا قیامت،سکوت کا آشوب
حشر سا اک بپا رہا مجھ میں
قرآن میں جنت و دوزخ کے واقعات بھی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔اس لیے ان تلمیحات کا بھی ذکر شعراء کے یہاں کبھی استعارتاً تو کبھی محاورتاً خوب پایا جاتا ہے۔جونؔ بھی اس سے پیچھے نہیں ۔وہ اس سلسلے سے کبھی خود کو مخاطب کرکے اپنے حقائق کو آشکار کرتے ہیں تو کبھی زمانے کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔مثلاً اپنے لیے کہتے ہیں:
ہوس کا مجھ میں اک دوزخ تھا لیکن
شبِ اول میں بالکل سرد نکلا
شعر میں واضح ہے کہ شاعر کسی کی عدم موجودگی میں جس طرح جذبات و خیالات کا مظاہرہ کرتا تھا اس کی موجودگی میں وہ کام انجام نہ دے سکا۔کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان منسوبے کچھ بناتا ہے اور اس سے عمل کچھ اور سرزد ہوجاتا ہے۔یہ مقصودِ نگاہ کے جلوے کا اثر بھی ہوسکتاہے اور اپنی کوتاہی بھی،لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے جو ہم سے دور ہوتا ہے اس کی دوری میں اس کی اہمیت کچھ اور ہوتی ہے اور موجودگی میں اس کی کچھ اور قیمت لگائی جاتی ہے۔اسی لیے دنیا پر طنز کرتے ہوئے جونؔ کہتے ہیں:
جو رعنائی نگاہوں کے لیے فردوس جلوہ ہے
لباسِ مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آئی
جونؔ محبوب کی فرقت کو بھی جہنم سے کم نہیں مانتے لیکن اس کے بے تاثیر ہونے کا بھی انھیں شکوہ رہتا ہے:
دوزخِ ذات باوجود ترے
شبِ فرقت نہیں جلی کب تک
جونؔ کے یہاں رسول پاک ؐ سے متعلق تلمیحات بہت کم ہیں بلکہ نہ کے برابر ہیں اس سلسلے سے ایک شعر قابلِ غور ہے:
ہر نفر حمالہ ہے یا بولہب
یہ ہے میرا خانداں،افسوس میں
شعر میں حمالہ اور بولہب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جونؔ نے اپنی داستانِ غم بیان کی ہے جس طرح بولہب اور حمالہ نے رسول کو اذیت دی اور جس کے لیے عذاب کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے اس سلسلے سے جونؔ کو لگتا ہے کہ ان کے عزیز و اقارب جو ان کے خلاف ہیں وہ حمالہ اور بولہب سے کم نہیں ہیں۔
جونؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی بھی تلمیح کو برتتے ہوئے اپنے جدید رنگ کو جانے نہیں دیتے ۔کیونکہ ان کا تعلق سادات سے تھا اور سادات کی عظمت سے کون واقف نہیں اس لیے کہتے ہیں:
وہ سید بچہ ہو اور شیخ کے ساتھ
میاں عزت ہماری جا رہی ہے
تونے رندوں کا حق مارا مے خانے میں رات گئے
شیخ! کھرے سید ہیں ہم تو ہم نے سنا ناشاد ہوئے
انبیاء سے متعلق اشعار میں بھی ان کے لہجے کی شناخت بھرپور نظر آتی ہے۔اس سلسلے سے کہیں کہیں وہ آدم و ابلیس اور حتیٰ کہ خدا کو بھی اپنے مخصوص زاوئیے سے دیکھتے ہیں:
وہ خدا ہو کہ آدم و ابلیس
سب کے سب آزمائے جائیں گے
اہرمن ہو،خدا ہو،یا آدم
ہو چکا سب کا امتحاں چپ رہ
انھیں آدم کی زندگی اور حادثہ ایک ہی سکے کے دو پہلو نظر آتے ہیں۔کیونکہ وہ قدم قدم پر رنج و غم کا امتزاج دیکھتے ہیں:
حادثہ زندگی ہے آدم کی
ساتھ دے گی بھلا خوشی کب تک
انھیں حضرتِ یوسف کی تلمیح بھی بہت عزیز ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اس کو اپنی غزلوں میں طرح طرح سے استعمال کرتے ہیں۔اس سلسلے سے ان کے یہاں بہترین تراکیب کا بھی استعمال ہوا ہے مثلاً :
مصرِ لطف و کرم میں بھی اے جونؔ
یادِ کنعاں ہے،کیا کیا جائے
شعر میں مصر لطف و کرم کی ترکیب قابلِ ستائش ہے۔اس کے علاوہ شعر میں واضح ہے کہ کس طرح اس ترکیب نے اور حضرتِ یوسف کے کی تلمیح نے شعر کو آفاقی اور ماورائے زمان و مکان بنا دیا ہے۔اسی طرح ایک اور شعر دیکھا جاسکتا ہے:
پسند آتا ہے دل سے یوسف کو
وہ جو یوسف کے بھائی کرتے ہیں
یعنی جہاں جہاں عزیز و اقارب کی بے وفائیاں سامنے آئیں گی وہیں حضرت یوسف اور ان کے بھائی یاد آئیں گے۔یوسف کے واقعے کے ساتھ ساتھ زلیخا کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔زلیخا اور یوسف کا قصہ ہر دور میں عاشق و معشوق کے لیے ایک استعارتی تصویر بھی پیش کرتا ہے۔جونؔ اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
اپنے یوسف کو زلیخا کی طرح تم بھی کبھی
کچھ حسینوں سے ملا دو تو مزہ آجائے
جس طرح زلیخا نے یوسف کو مصر کی خواتین سے ملوایا تھا یہاں بھی شاعر چاہتا ہے کہ اس کا عاشق جو بظاہر معشوق ہے حسینوں سے اس کی ملاقات کرانے میں دریغ نہ کرے۔شعر میں نکتہ یہ ہے کہ اس دور میں یوسف کا حسینانِ مصر کے درمیان ہوا و ہوس سے پاک تھالیکن آج کے افراد خواہاں ہیں کہ انھیں حسینوں کی قربت حاصل ہو تاکہ اپنی جذبات و احساسات کی عکاسی کر سکیںاور یہ جذبات و احساسات ہوس پرستی سے قطعی محفوظ نہیں۔
وہ حضرتِ موسیٰ سے بھی متاثر ہیں ۔انھیں معلوم ہے کہ موسیٰ کس طرح پہاڑ سے آگ لے کر آئے اور ان کے ساتھ کیا واقعہ رونما ہوا اور انھیں کس طرح نبوت سے سرفراز کیا گیالیکن اس واقعہ کو وہ معمولی سمجھتے ہیں اور اپنے دور کے نام نہاد رہبروں پر طنز کرتے ہیں:
جونؔ یوں ہے کہ آج کے موسیٰ
آگ بس آگ لائے جائیں گے
وہ موسیٰ کے واقعہ کو نہایت مضبوط طریقے سے اپنے دور سے جوڑتے ہیں ان کا خیال ہے کہ محبوب کے کوچے کے دربان یعنی وہ افراد جو کسی مقصد کے حصول میں رخنہ ثابت ہوتے ہیں وہ فرعون و شداد سے کم نہیں لگتے:
خاک نشینوں سے کوچے کے کیا کیانخوت کرتے ہیں
جاناں جان!ترے درباں تو فرعون و شداد ہوئے
وہ بلقیس و سلیماں کے واقعات بھی یاد رکھتے ہیںکیونکہ بلقیس و سلیماں بھی جہاں ایک طرف حکومت کے استعارے ہیں وہیں ایک پہلو ان کا عاشق و معشوق ہونا بھی ہے۔بلقیس ملک سبا کی رانی تھی لیکن اس نے وہاں سے کوچ کیا اور حضرت سلیمان کی دعوتِ حق قبول کی۔اس کا اس طرح چلے جانا یقیناً ساکنانِ ملکِ سبا کے لیے شاق ہوگا ۔جونؔ اسی تصور کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے محبوب سے فرقت کا ذکر کرتے ہیں:
کیا بتائوں بچھڑ گیا یاراں
ایک بلقیس سے سبا میرا
شعراء کے نذدیک حضرت عیسیٰ اپنے لقب مسیحا کی وجہ سے بہت مقبول ہیں کیونکہ ان سے مردے جلا پاتے ہیں اور بیمار شفا حاصل کرتے ہیں۔چونکہ عاشق بیمار ہوتا ہے اور محبوب کے پاس اس کا مداوہ ہوتا ہے اس لیے اسے بھی مسیحا کہا جاتا ہے لیکن موجودہ دور میں مسئلہ یہ ہے کہ اب ہر شئے کی حقیقت و اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے ۔مسیحا کی اہمیت بھی اسی وقت تک ہے جب تک بیمار موجود ہوں اور اگر بیمار ہی نہ رہے ہوں تو مسیحا خود بیمار ہوجاتا ہے یعنی دکھ درد کا شکار ہوجاتا ہے۔اس مضمون کا جونؔ اس طرح بیان کرتے ہیں:
اے مسیحا ترے دکھ سے ہے سوا دکھ کس کا
کس سے پوچھوں ترے بیمار کہاں ہیں جانے
جونؔ کے یہاں خال خال کربلا کی تلمیحات اور کربلا سے متعلق اشعار یا کربلا سے متعلق الفاظ سے بنے ہوئے اشعار بھی موجود ہیں۔ وہ واقعہ کربلا کو ایک ایسا واقعہ تسلیم کرتے ہیں جو ہر دور کے لیے ایک نمونۂ حیات ہے۔انھیں جہاں کہیں ظلم نظر آتا ہے باطل کا مظلوم پر جبر دکھائی دیتا ہے وہ اسے واقعہ کربلاکے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں:
مزاجِ شام ہے بیعت طلب مدینے سے
ہوا ہے تازہ پھر اسلام کربلا آشوب
ان کے یہاں صبرِ امام حسینؑ اور شہادتِ امامِ حسینؑ کی بڑی اہمیت ہے۔وہ جانتے ہیں کہ حسینی کردار جہاں باطل سے ٹکرانے کا جذبہ رکھتا ہے وہیں وہ صبر کا اور معبودِ حقیقی کی محبت کا دامن بھی ہاتھ سے نہیںجانے دیتا:
پھینک دے اے حسینِ عصر! پھینک دے تیغ اور سپر
وقتِ نمازِ عصر ہے،خون سے تو وضو کرو
عزاداری میں سوزو سلام اور مجلس کی اہمیت سے انکار نہیں کیاسکتا ۔جونؔ ان الفاظ سے شعر بنانے کا فن جانتے ہیں:
سوز و سلام و مرثیہ کیسا،کیسا ذکر بھلا
مجلسِ بے ماتم ہے،اب تم یاد نہیں آتے
انھیں سوز و سلام و مرثیہ اور ماتم محبوب کی یاد دلانے کا وسیلہ نظر آتے تھے لیکن اب ان کو اس سے بھی ربط نہیں۔کمال یہ ہے کہ شعر میں محبوب کو یاد کرکے محبوب کی یاد کا انکار کیا جا رہا ہے۔
جونؔ کسی طور صوفی نہیںلیکن ان کا خاصہ یہ ہے کہ وہ اپنے کلام میں تصوف کے عناصر کو شامل کرتے ہیں۔لیکن ان کا تصوف ریاکاری کا شکار نہیں بلکہ اس کے توسل سے وہ اپنے دور کے حالات پر تبصرہ و تنقید کرتے نظر آتے ہیں:
خدایا ترے حسنِ تقویم میں ہم
تضادِ وجود و عدم دیکھتے ہیں
ان کا خطابیہ انداز اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا سے بھی شکایت میں گریز نہیں کرتے۔انھیں اپنی غفلت پر بھی فخر ہے:
ہے غنیمت کہ اسرارِ ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے
یہی وجہ ہے کہ وہ روایتی تصوف کے قائل نہیں ان کے یہاں نہ حق سے سروکار ہے نہ انالحق سے کچھ لینا دینا اس لیے وہ جدید دور میں خود کو گنہگار تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کی سزا بھی وہ روایتی نہیں چاہتے:
حق کے منکر ہیں،انا الحق کے بھی منکر،سو ہمیں
وہ سزا دیجیو جو دارورسن پاس نہیں
وہ شاہد و مشہود اور ذکرِ غیب و حجاب کو بھی اپنے نقطۂ سے دیکھتے ہیںاور روایتی تصوف سے بغاوت کرتے ہیں:
منشیانِ شہود نے تا حال
ذکرِ غیب و حجاب ہی لکھا
وہ چاہتے ہیں کہ تصوف بھی ان کے خیالات پر مبنی ہویا ان کا نقطۂ نظر ہی تصوف قرار دیا جائے:
ہم کریں قائم خود اپنااک دبستانِ نظر
اور اسرار و رموزِ زندگی افشا کریں
ان کے یہاں تصوف کی اصطلاحات مثلاً فنا و وصال،قلندر اورمزاروغیرہ کا بھی ذکر ہے لیکن اس ذکر میں بھی وہ اپنا موقف نہیں بھولتے۔کہتے ہیں:
ہوگا جس دن فنا سے اپنا وصال
ہم نہایت سجائے جائیں گے
انھیںمحبوب کے کوچے کے افراد یعنی اس کے عاشق بھی کسی قلندر کی طرح معلوم ہوتے ہیں جو محبوب پر مر نے کو شیوۂ زندگی بنائے ہوئے ہیںجب کہ محبوب کا کوچہ زندگی کی علامت ہے:
تمہارے کوچۂ جاں بخش کے قلندر بھی
عجیب لوگ ہیں ہر لمحہ مرنے لگتے ہیں
انھیں عشق کی دشواریاں اور تکالیف میںزندگی گذارنے کا ہنر نظر آتا ہے اور ان مصائب کا اثر انھیں شمعِ مزار کی مانند لگتا ہے:
عشق کے زخمِ خونچکاںمشعلِ راہ بن گئے
پرتوِ زخمِ خوں چکاں ،شمعِ سرِ مزار ہے
غرض کہ جونؔ ایلیاء ایک ایسے بیباک اور کھلے مزاج کے شاعر ہیں جنھوں نے عقائد و مذاہب کی فکر سے خود کو آزاد رکھنے کی کوشش کی اور زندگی کو اپنی طرح سے گذارا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی کسی کی تقلید نہیں ملتی وہ اسلامی تلمیحات استعمال تو کرتے ہیں لیکن روایت شکنی کے طور پر۔ انھیں ان تلمیحات کو اپنے نقطۂ نگاہ کے اعتبار سے استعمال کرنے کا خوب فن آتا ہے۔
علی گڑھ یوپی،موبائل:9219782014