ہر کارروائی کا جواب ہوتا ہے- Every action has an answer

0
147

مکرمی!
اس دنیا میں کسی سوال یا الجھن کا جواب اور حل پوشیدہ ہو سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کی اسکا کوئی راستہ ہی نہ ہو. آج میں مساجد کے پسمنظر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں کی پورے ملک میں کتنی مساجد متنازعہ صورت حال میں ہیں اور اگر کوئی مسجد عوامی جھگڑے کا شکار نہیں ہے تو سیاسی طور پر اسکو نشانہ بنایا جاتا ہے. اقلیت کا مطلب کیا ہے یہی کی اکثریت میں کم تعداد کا ہونا، لیکن اسکا مطلب کیا یہ ہے کی اپنے حقوق کی لڑائی میں ہتھیار ڈال دیے جاییں. آج ہریانہ اور پنجاب علاقوں میں ہمارے بزرگوں کی بنائی ہوئی ہزاروں مساجد ایسی ہیں جو آزاد ہندوستان کے بعد اپنی شناخت کھو چکی ہیں. ایک بابری مسجد کی شہادت کے بعد اتنا بھی کیا خوف کی ہم دیگر اللہ کے گھروں کی حفاظت کرنا اور پھر سےانہیں آباد کروانا بھول جاییں، کوشش تو کر سکتے ہیں. وقت اور حادثات کے کھیل میں ہماری مسجدوں کی شکلیں بھی بدل دی گئیں ہیں. کسی مسجد کو گردوارے کی شکل دے دی گئی تو کوئی مندر میں تبدیل کر دی گئی. اور یہ وہی مساجد ہیں جہاں ٧٠ سال پہلے ہمارے بزرگوں نے سجدہ کیے تھے. پنجاب ہریانہ کی مسجدوں کی آزادی کے لئے کافی وقفے سے دیوبند ، شاملی اور کیرانہ کے بزرگوں کی طرف سے مثبت کوششیں ہوئی ہیں لیکن اسکے لئے ایک پلانڈ مہم چلانے کی ضرورت ہے اور اسمیں سبھی کو شامل ہونا ہوگا. آج بیشمار مساجد کھنڈروں میں تبدیل ہو چکی ہیں، کچھ کو بچانے کے لئے قانونی جنگ چل رہی اور کچھ پر دوسرے عقائد والے مسلّط ہو چکے ہیں. خلجی ، تغلق. مغل اور نوابوں کی تعمیرشدہ مساجد خوبصورت نقاشی کے ساتھ ویران کھڑی ہیں. انکی حالتوں کو دیکھتے ہوئے حساس مجاز شقص تو جذباتی ہو جاتا ہے کیونکی بزرگوں کی خوشبو آج بھی وہاں سے آتی ہیں.
احمد فوزان
خرّمنگر لکھنؤ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here