بنگال پر فرقہ پرستی اور فسطائیت کا حملہ – The attack of sectarianism and fascism on Bengal

0
132

The attack of sectarianism and fascism on Bengal

سب کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئے

عبدالعزیز
جب کوئی طوفان یا سیلاب آتا ہے تو دوست دشمن سب مل کر اس سے بچنے اور بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جو الگ تھلگ ہوجاتے ہیں وہ طوفان یا سیلاب کے شکار ہوجاتے ہیں اور لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی فسطائیت اور فرقہ پرستی کے تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے نہ صرف ہم سب جانتے ہیں بلکہ چشم سر سے دیکھ رہے ہیں، محسوس کر رہے ہیں، اس کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ’اچھے دن‘ کے نام سے یہ عذاب ہم سب پر مسلط ہوا تھا۔ افسوس اس کی فرقہ پرستی اور نام نہاد قوم پرستی (Nationalism) کو ملک کے سیدھے سادے لوگ پہچان نہ سکے۔ اس کا زہر آہستہ آہستہ بہتوں میں سرایت کرگیا۔ اب پورے ملک کے لوگ اسے بھگت رہے ہیں۔ پہلے مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی کے نام پر اس کا عروج ہوتا گیا۔ گجرات اس کی پہلی تجربہ گاہ (Laborotry) بنا۔ مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔
وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی نے اس سیاہ کارنامے کیلئے خوب نام کمایا۔ فرقہ پرستوں نے اس کی پذیرائی کی۔ بالآخر ان کا یہ ہیرو بن گیا۔ دنیا جب اس کی مذمت کر رہی تھی اپنے ملک میں کوئی سربراہ اسرائیل کے سربراہ کے سوا داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہا تھا تو آر ایس ایس کے اشارے پر بی جے پی نے اسے 2014ء میں وزیر اعظم کے امیدوار کی حیثیت سے نامزد کیا اور اس نے ایسی ہوا کھڑی کی اور ہندستانیوں کو ایسے خواب دکھائے کہ بہت سے لوگ اس کے جھانسے میں آگئے۔ دورِ اقتدار ہی حاصل نہیں ہوا بلکہ پُر فریب نعروں اور جھوٹے وعدوں اور خوابوں کے سحر میں لوگ آگئے۔ 2014ء سے 2019ء تک ملک کی ناک میں دم کر دیا۔ پلواما کا سانحہ اور ایئر اسٹرائیک نے 2019ء کے الیکشن میں پھر قوم پرستی کے نشے نے فسطائیت کا بول بالا کردیا۔ ڈیڑھ سال ہونے کو آئے پہلے کے پانچ سال سے اس وقت کا ڈیڑھ سال زیادہ ہی بدتر ہے مگر آہستہ آہستہ اب لوگوں کو فرقہ پرستی اور فسطائیت سے سابقہ پڑنے لگا۔ پہلے اس کی زد میں مسلمان آئے۔ انھوں نے اپنی بساط بھر صبر و تحمل سے کام لیا اور پھر ’این آر سی ، سی اے اے اور این پی آر‘یہ تین سیاہ قوانین اگر چہ ایسے تھے کہ اس کی زد میں سارے غریب شہری، کسان اور مزدور آئے تھے مگر مسلمانوں کو اس میں خاص نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور تحریک یا آندولن میں پیش پیش رہے۔ فسطائیت اور بربریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کے نتیجہ میں دہلی کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا گیا۔ فرقہ وارانہ فساد برپا کرکے پچاسوں افراد کو قتل کر دیا گیا۔ اربوں کی جائیدادیں تباہ و برباد ہوئیں۔ آر ایس ایس اور بی جے نے مل کر اس فساد کو پولس کی مدد سے کرایا۔ جو لوگ مظلوم تھے انھیں گرفتار کیا گیا۔ جو لوگ کالے قوانین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے انھیں سلاخوں کے پیچھے کر دیا گیا۔ آج تک وہ جیلوں میں ہیں۔ بہتوں کو ضمانت نہیں مل رہی ہے۔
اب یہی ننگی اور برہنہ طاقت جہاں جہاں الیکشن ہونے والا ہے حملہ آورہے اس میں ریاست مغربی بنگال بھی شامل ہے۔ مغربی بنگال اس طوفان اور سیلاب کا مقابلہ کیلئے ترنمول کانگریس، بایاں محاذ اور کانگریس اتحاد میدان میں ہے۔ ’ایم آئی ایم‘ اور فرفرہ شریف کو دروازے کے پیچھے سے لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پہلے اسد الدین اویسی صاحب فرفرہ شریف کے عباس صدیقی کے دربار میں حاضر ہوئے اور ان سے ملنے کے بعد اپنے ایک بیان میں فرمایا کہ وہ مغربی بنگال میں عباس صدیقی جو فیصلہ کریں گے اس کے مطابق ایم آئی ایم کام کرے گی۔
عباس صدیقی صاحب کو کانگریس اور سی پی ایم کئی ماہ سے ایک نئی سیکولر پارٹی کیلئے تیار کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ عباس صدیقی صاحب ایم آئی ایم کے ذریعہ میدانِ سیاست میں اترنا چاہتے تھے مگر اتحاد نے ان پر زور دیا کہ مجلس اتحاد المسلمین میں اگر وہ رہیں گے تو انھیں اتحاد میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ عباس صدیقی صاحب نے پبلسٹی کیلئے اسد الدین اویسی صاحب سے وعدہ کیا ہوگا کہ وہ ان کی پارٹی کی شاخ مغربی بنگال میں بنائیں گے۔ اسی امید میں اویسی صاحب تشریف لائے۔ آنجناب تو اپنا بیان دے کر حیدر آباد رخصت ہوگئے۔ صدیقی صاحب کی میڈیا نے خوب پبلسٹی کی۔ گودی میڈیا بھی بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کیلئے پیش پیش رہی۔ دو ہی چار دنوں کے بعد صدیقی صاحب نے نئی پارٹی کا اعلان کیا اور 21 جنوری کو پریس کلب میں پارٹی تشکیل ہوگئی اور اس کے نام کا اعلان بھی ہوگیا۔ موصوف ’انڈین سیکولر فرنٹ‘ کے صدر نہیں بنے بلکہ اپنے بھائی نوشاد کو صدر بنایا اور خود پارٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنی سرپرستی کا اعلان کیا۔ جس انداز سے اس وقت سیاسی اتحاد سے بھاؤ تاؤ کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کو فائدہ ضرور پہنچائیں گے۔ مسلمانوں کو یہ مان کر ووٹ دینا ہوگا کہ ایم آئی ایم یا نوزائیدہ پارٹی ’آئی ایس ایف‘ فرقہ پرستی کو بڑھا وا دے گی۔ بی جے پی کو اس سے پولرائزیشن کرنے میں مدد ملے گی۔ اسے ووٹ دینے کا مطلب فرقہ پرستی کو ختم کرنا نہیں بلکہ بھاجپا کی فرقہ پرستی اور فسطائیت کو تقویت پہنچانا ہوگا۔
جہاں تک سیاسی اتحاد اور ترنمول کا معاملہ ہے تو یہ کہنا صحیح ہو گا کہ مقابلہ در اصل بی جے پی اور مودی کی جارحیت اور فرقہ پرستی سے ہے ۔ ممتا بنرجی کی پارٹی کوئی پسندیدہ پارٹی نہ سہی کم خراب (Lesser evil) ضرور ہے۔ کم خراب کو ووٹ دینا یا حمایت کرناانصاف پسندوں اور مظلوموں کی مجبوری ہے۔ سیاسی اتحاد کے امیدوار جہاں بی جے پی کے امیدوار کو مات کرسکتے ہیں ان کی ضرور حمایت کرنی چاہئے۔ آئیڈیل حکومت تو مخلوط حکومت ہی ہوگی مگر مخلوط حکومت کا معاملہ الیکشن کے بعد آئے گا۔ فی الحال تو جو قوت یا قیادت مودی یا ان کی پارٹی کو شکست فاش دے سکے اس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا ضروری ہے جو پارٹی سیکولر یا مسلم نام رکھ کر مسلمانوں یا اقلیتوں کے ووٹ تقسیم کرے وہ وووٹ کٹوا ہی ثابت ہوگی۔ اسے ووٹ دینا یا بی جے پی کے کھاتے میں ووٹ ڈالنا برابر ہے۔ بی جے پی کو واسطہ یا بالواسطہ عقلمند یا انصاف پسند فائدہ پہنچانا یا اسے مضبوط کرنا ہرگز نہیں چاہیں گے۔ ایک دوسیٹوں پر جیت درج کرنے والی اور کئی سیٹوں پر بی جے پی کی راہ ہموار کرنے والی پارٹی کو منہ نہیں لگانا چاہئے۔ بی جے پی کی منشا ہے کہ مسلمانوں کی کوئی ایسی پارٹی ضرور میدانِ انتخاب میں آئے تاکہ مسلم ووٹوں کی تقسیم ہواور مغربی بنگال میں بی جے پی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ بی جے پی کی اس منشا کو کسی حال میں پورے ہونے نہیں دینا چاہئے۔ مسلمانو ں کو Tactical (ماہرانہ جوڑ توڑ) طریقہ سے ووٹ دینا ہے جس سے بی جے پی کو فائدہ نہ ہو۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here