ماحول اور انسان- The environment and man

0
112

آمنہ جبیں (بہاولنگر)
انسان جب پیدا ہوتا ہے۔ تبی اس کا واسطہ اس کے ماحول سے پڑ جاتا ہے۔انسان اپنے ماحول سے اپنا حق حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور وہ حق ہوتا ہے سانس لینے کا آ کسیجن کا اور تازہ ہوا کا حق۔ لیکن ماحول تو یہ حق دے دیتا ہے۔ مگر انسان ماحول کا حق ادا نہیں کرتا۔ ہمارا ماحول بھی ہم سے کچھ حق مانگتا ہے۔ اور وہ حق ماحول کی صفائی کا حق ہے۔ ماحول سے محبت کا حق ہے۔ ماحول صرف انسانوں سے نہیں بنتا بلکہ ہمارے اردگرد موجود پودوں، درختوں، جانوروں اور پرندوں سے مل کر بنتا ہے۔ یہ تمام مخلوقات ماحول بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ماحول بنانے میں ساری مخلوقات اپنا اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ لیکن انسان اسے بنانے کے ساتھ ساتھ اسے برباد کرنے میں بھی لگا ہوا ہے۔ آج کی بڑھتی ہوئی بیماریاں، سانس کا بند ہو جانا، جلدی امراض کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ کیونکہ انسان اپنے ماحول کو خراب کر رہا ہے۔ بے جا درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ جبکہ درخت صرف سایہ نہیں دیتے۔ اور نہ ہی درخت صرف بارش برسانے کا سبب بنتے ہیں۔ بلکہ درخت بہت حد تک زمین کی زرخیزی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر سال موسم خزاں میں ان سے جھڑنے والے پتے کئی گنا ذرخیزی مواد زمین کے سپرد کرتے ہیں۔ جب کہ ہم انہیں کاٹ کر زمین کو زمینی کٹاؤ کا شکار کر رہے ہیں ۔اور زمین کی زرخیزی کو کم کر رہے ہیں۔اس کے علاؤہ اگر ہم غور کریں تو ایک درخت بہت سے پرندوں کا مسکن ہوتا ہے۔ درخت پرندوں کی خوراک کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔ جب ہم اسے کاٹ دیں گے تو پرندوں کا مسکن تباہ ہو جائے گا۔ ان کی خوراک کا ذریعہ کم ہوتا چلا جائے گا۔ پودے کاربن ڈائی آکسائڈ کو استعمال کر کے خوراک تیار کرتے ہیں۔ لیکن جب پودوں اور درختوں کی کمی ہو گی تو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جمع ہوتی چلی جائے گی۔ اور ہمیں سانس لینے میں دشواری ہو گی۔ کیونکہ کاربن ڈائی آکسائڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار آکسیجن کی مقدار کو کم کر دے گی ۔ جبکہ کاربن ڈائی آکسائڈ استعمال کر کے درخت بدلے میں ہمیں آکسیجن دیتے ہیں۔ اور ہم آکسیجن استعمال کر کے انہیں بدلے میں کاربن ڈائی آکسائڈ دیتے ہیں۔ انسان مرتے ہیں تو اُسی تعداد سے پیدا بھی ہوتے ہیں۔ انسانوں کی تعداد کا توازن برقرار ہے مگر ان کی زندگی کا توازن تب ڈگمگا اٹھتا ہے۔ جب ماحول برباد ہوتا ہے۔ انسان جس شرح سے مرتے اور پیدا ہوتے ہیں۔ تو درخت بھی اُسی شرح سے کاٹے اور لگائے جانے چاہیے۔ درخت کاٹنا بُری بات نہیں انسان ضرورت میں جکڑا ہے۔ لیکن بے جا درخت کاٹنا اور پھر لگانے کی زحمت بھی نہ کرنا یہ چیز ماحول کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ہم پانی پیتے ہیں ہزاروں ملاوٹوں اور کثافتوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ گندے نالوں کا گزر صاف پانی سے ہوتا ہے۔ فیکٹریوں کے گندے پانی کی آرام گاہ صاف پانی کے ذخائر ہیں۔ کہاں کہاں پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائے جائیں۔ وہ علاقے جہاں پانی بمشکل میسر آتا ہے وہاں پلانٹ کیسے لگیں گے۔ ہم پانی کو صاف کرنے کا انتظام کرنے کی بجائے ماحول کو صاف کرنے کی کوشش کریں تو اتنی کھپت سے بچ سکتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم فیکٹریاں اس لیے لگاتے ہیں کہ روزی کمائیں، معیشت چلائیں مگر ہم اس روزی اور معشیت کی مضبوطی کو کیا کریں گے۔ جب خود ہی بیمار اور غیر متوازن زندگی گزایں گے۔ اور جلد موت کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔ آج دنیا کتنی مادیت پرستی میں چلی گئی ہے۔ قدرتی چیزوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ سبزیوں کو گندے نالے کے پانی لگتے ہیں۔ اور وہ غذایت سے زیادہ جراثیم اور کیڑوں سے بھری ہوتی ہیں۔ انسان قدرت سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہر جگہ سبزہ کٹ رہا ہے۔ جب کہ سبزہ انسان کے لیے شفا ہے۔ اسے دیکھ کر انسان اپنے اندر سکون محسوس کرتا ہے۔ انسان کا سٹریس دور ہوتا ہے۔ سبزے کی ہریالی میں مقناطیسی قوت موجود ہوتی ہے۔ یہ ہمارے اندر کی پرشانی کو جذب کر کے ہمیں ہلکا پھلکا کر دیتی ہے۔ مگر ہم اسے ختم کرتے جا رہے ہیں۔ فیکٹروں کی چِمنیوں سے نکلنے والا اور بَھٹوں سے نکلنے والا دھواں ماحول کے لیے زہِر قاتل ہے۔ آج کینسر کی بڑی وجہ سورج کی نقصان دینے والی شعاعوں کا زمین پہ پہنچ جانا ہے۔ جبکہ ان شعاعوں کو صاف کرنے والا نظام قدرت نے فضا میں ایک حفاظتی تہہ بنا کر مقرر کر رکھا ہے۔ مگر وہ حفاظتی تہہ ہم ہی خراب کر رہے ہیں ۔ کیونکہ ہم نے بہت زیادہ حد تک جنریٹرز اور اے سی وغیرہ استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اور ان سے نکلنے والے نقصان دہ مادے اس تہہ کو خراب کر کے اس کے اندر سوراخ کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے سورج کی روشنی بغیر صاف ہوئے اپنے ساتھ نقصان دہ شعائیں لیے ہم تک پہنچ جاتی ہے۔ اور ہمیں نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہماری صحت کے لیے جو نقصان ہے وہ تو ہے۔ لیکن غیر متوازن ماحول دوسری مخلوقات کے لیے کتنا خطرہ ہے۔ بہت سے نایاب جانور ختم ہوتے جارہے ہیں اور بہت سے ختم ہونے کے قریب ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ انسان نے ان جانوروں کے مسکن تباہ کر رہے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کئی زندگیوں کو داؤ پہ لگا رہے ہیں۔ ماحول انسان کے دوست ہوتے ہیں انسان کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم خود سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اس ماحول سے محبت کرنی ہے۔اسے صاف کرنے کے لیے قدم بڑھانے ہیں۔ملتان کے معروف شاعر اشرف جاوید ملک صاحب نے ماحولیات کے حوالے سے کافی تحقیق کی ہے اور بہت نظمیں بھی لکھی ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک نظم میں کہا کہ اگر ہم اپنے ماحول کو یونہی برباد کرتے رہے اور درخت کاٹتے رہے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو پرندوں کی صرف تصاویر ہی دکھا پائیں گے۔ اصلی زندگی میں پرندوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ صرف یہی نہیں ہمارے رویے بھی تو ایک ماحولیات جنم دیتے ہیں۔ اگر یہ درخت اور دوسری مخلوقات ظاہری ماحول بناتی ہیں۔ تو یہ رویے باطنی ماحول بناتے ہیں۔ مگر آج یہ رویے بھی تلخ ہیں۔ حسد اور بغض کی آگ نے ہر طرف گھیرا ڈالا ہوا ہے۔بے حیائی عام ہے۔ جھوٹ، رشوت خوری اور سفارش کی دنیا نے ماحول کو اندھا کر دیا ہے۔ ہمیں سانس لینے میں رکاوٹ ماحول کے اس باطنی بگاڑ سے بھی ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے ماحول کے ظاہری اور باطنی دونوں طرح کے حسن کو قائم رکھنا ہے۔ خاص طور پر اپنے بچوں کو یہ تربیت دینی ہے کہ ماحول سے دوستی کریں۔ اس سے محبت کریں اور اس کی صفائی کا خیال رکھیں۔ گند اور کوڑا کرکٹ پھیلانے سے منع کریں۔ درختوں اور پودوں کو لگانے کا شعور بیدار کریں۔ اس کے لیے عالمی سطح پر اس بات کی تشہیر ضروری ہے کہ ماحول کو صاف نہ کرنے والوں پہ جرمانہ عائد کیا جائے۔ گندے پانی کے اخراج کے درست انتظامات ہونے چاہیے۔ ہر شخص کو انفرادی طور پر اپنی گلی اپنا محلہ صاف کر کے ماحول کی صفائی میں حصہ ڈالنا چاہیے۔ ہمیں مٹی سے رشتہ جوڑنا چاہیے تا کہ ہمیں اس بڑھتی ہوئی مادیت پرستی میں پھنسنے سے نجات پا سکیں۔ خود سے جڑ کر ماحول سے محبت کر سکیں۔کیونکہ اگر ماحول برباد ہو گیا تو ہم بہت سی نایاب مخلوقات کو کھو دیں گے۔ اور اپنے اوپر بھی زندگی جینے کے راستے بند کر دیں گے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here