” کیا امریکہ و ایران تعلقات پر جمی برف پگھلے گی..! “- “Will the ice on US-Iran relations melt ..!”

0
42

عباس دھالیوال
امریکہ و ایران کے بیچ جوہری پروگرام کو بھلے معاہدے ہوئے ہوں لیکن پھر بھی دونوں کے بیچ ایک لمبے عرصہ سے متنازعہ چل رہا ہے . لیکن گزشتہ 20 جنوری کو جیسے ہی ٹرمپ کے اقتدار خاتمہ ہوا اور امریکہ کی باگ ڈور بائیڈن کے ہاتھوں میں آئی تو یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں.
جبکہ اس سے قبل جوہری معاہدے کے تحت ایران نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہو گا جب کہ اس کے بدلے امریکہ نے اس پر عائد پابندیاں ہٹا لی تھیں۔ لیکن اس کے بعد امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کو ناقص و ناکارہ قرار دیتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔
امریکہ کا ایران پہ اس طرح کے الزامات مسلسل لگاتا ررہاہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے جس سے خطے میں امریکہ کے اتحادی ممالک کو خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن وہیں ایران کا اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے یہی کہتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
اس سے پہلے اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر مجید تخت‌روانچی نے امریکی اخبار ‘نیو یارک ٹائمز’ میں لکھے اپنے ایک مضموں میں کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کو ٹرمپ دور میں ایران پر عائد کی جانے والی تمام پابندیاں فوری طور پر ہٹانی چاہیئں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہی ایران جوہری معاہدے میں واپسی پر سوچے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ روانچی کا یہ بھی کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے پابندیاں ہٹائے جانے کے معاملے میں دیری کا مطلب یہی سمجھا جائے گا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرح ایرانی عوام کے ساتھ دشمنی برقرار رکھنا چاہتے ہیں.
ادھر تازہ اطلاعات کے مطابق واشنگٹن ڈی سی ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے کہ دونوں ممالک 2015 میں ہونے والے اس معاہدے کی طرف لوٹ آئیں جس کا مقصد تہران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے دور رکھنا تھا۔
ماہرین کے مطابق دراصل یہ پیش رفت امریکی انتظامیہ میں تبدیلی کی عکاس ہے۔ وہیں امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن بھی اب صدر جو بائیڈن کے اس مؤقف کو دہرا رہے ہیں کہ اگر تہران معاہدے کی مکمل تعمیل کرتا ہے۔ تو امریکہ باضابطہ طور پر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) سے موسوم معاہدے کی طرف لوٹ سکتا ہے۔
مذکورہ وزیر خارجہ بلنکن کی جانب سے ای تھری سے معروف برطانیہ، فرانس، جرمنی کے گروپ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے وڈیو خطاب پر ایران نے بھی مثبت ردِ عمل دیا ہے۔ دراصل ان کا یہ یہ رد عمل مذکورہ چار ملکی وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد سامنے آیا ہے کہ اگر ایران جے سی پی او اے معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کی مکمل پاسداری کرتا ہے تو امریکہ بھی ایسا ہی کرے گا اور وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے۔
امریکی عہدیدار نے خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ واشنگٹن ڈی سی مذاکرات کی ایسی کسی بھی دعوت کا مثبت جواب دے گا جس میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ جیسی طاقتوں کے ایران سے ہونے والے حقیقی معاہدے پر مذاکرات ہوں گے۔
چار ملکی مشترکہ بیان کا جواب دیتے ہوئے ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ اس معاملے میں پہلا قدم امریکہ کو اٹھانا چاہیے۔ اس سے قبل بھی جواد ظریف نے معاہدے کی بحالی کے لیے واشنگٹن ڈی سی اور فریقوں کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کی تھی.
ادھر ایک ٹوئٹ میں ایران کے وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ظاہری شائستگی دکھانے اور تمام تر ذمہ داری ایران پر ڈالنے کے بجائے ای تھری اور یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کریں اور ایران کے خلاف ٹرمپ کی عائد کردہ پابندیوں کا خاتمہ کریں۔
جبکہ فرانسیسی سفارتی ذرائع کے مطابق واشنگٹن کی حکمت عملی میں تبدیلی ایران کے لیے ایک نیا موقع پیدا کر رہی ہے لیکن آگے کا راستہ رکاوٹوں سے بھرپور ہے۔
ادھر ایک رپورٹ میں مطابق تہران نے بائیڈن انتظامیہ کو آئندہ ہفتے کی مہلت دے رکھی ہے کہ سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں ہٹا دے بصورت دیگر تہران معاہدے کی خلاف ورزی میں بڑا قدم اٹھانے کو مجبور ہو گا اور ساتھ ہی تہران نے اقوام متحدہ کے جوہری امور کے نگران ادارے کی مختصر نوٹس پر انسپکشن پر پابندی لگا سکتا ہے ۔
ادھر دوسری طرف برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ اس اقدام سے گریز کرے۔ ان ممالک نے ایران کی طرف سے 20 فی صد تک یورینیم کی افزودگی اور یورینیم میٹل تیار کرنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے.
دوسری طرف ماہرین امریکی حکام کی طرف سے ہو رہی پیش رفت کو مثبت انداز میں دیکھ رہے ہیں. امریکی حکام نے ایران کے لیے کچھ مصالحانہ قدم اٹھانے کے اشارے دیئے ہیں اس ضمن میں اقوام متحدہ میں ایران کے سفارت کاروں پر نقل و حرکت کی پابندیوں کو نرم کرنا شامل ہے ۔
جبکہ رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی حکام یعنی بائیڈن انتظامیہ کا ایران کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ یو این مشن کو نوٹیفکیشن بھجوایا گیا ہے جو سفری پابندیوں میں نرمی کا متقاضی تھا۔
بہرحال آنیوالے وقت میں اگر امریکہ اور ایران کے مابین کشیدگی بھرے تعلقات میں کمی آتی ہے تو یقیناً اس کے مجموعی ایشیا میں مثبت نتائج دیکھنے کو ملیں گے.
مالیر کوٹلہ ،پنجاب.
رابطہ :9855259650

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here