ڈاکٹر سیّد احمد قادری
اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت ہمارا ملک بھارت سماجی نا انصافیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں کے لوگ مشکل ترین حالات سے نبردآزما ہیں۔عالمی سطح پر مختلف ممالک اور مختلف حکمرانوں کے ذریعہ اپنے ملک کے عوام کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس وقت بھارت کے لوگ سب سے زیادہ مشکل دور سے گزر رہے ہیں ۔ جدھر نظر اٹھایئے ،ادھر لوگ ہو رہی نا انصافیوںاور حق تلفی کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کسان ہوں ، فوجی جوان ہوں ،وکلا¿ ہوں ، مزدور ہوں ،طلبا¿ ہوں ، اساتذہ ہوں ، جنسی ہوس کی شکار خواتین حمائتی ہوں، بے روزگار نوجوان ہوں ،تاجر ہوں اورانتہا تو یہ ہے کہ انصاف دینے والے جج ہی کیوں نہ ہوں۔وہ بھی حکومت سے انصاف کی گوہار لگاتے نظر آ رہے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔
اپنے ملک کے ان ناگفتہ بہ حالات میںبین الاقوامی سطح پر آج کی تاریخ 20 فروری بہت ہی اہم اس لحاظ سے ہے کہ چند برسوں قبل دنیا کے مختلف ممالک میں جب سماج اور معاشرے میں ناانصافی،حق تلفی،استحصال، غربت و افلاس ،بے روزگاری اور ظلم و تشدد میںمسلسل اضافہ ہونے لگا ۔ ایسے بڑھتے حالات سے فکر مندلوگوں نے اپنی تشویش کو اقوام متحدہ تک پہنچایا اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عالمی سطح پر ہو رہی ایسی سماجی انصافیوں کے تدارک کے لئے کوشش کرے اور ایسا کوئی دن مقرر کرے کہ اس دن عالمی سطح پر یکساں انصاف پر غور و فکر کرتے ہوئے لائحہ عمل تیار کیا جائے ۔اس مقصد کے حصول کے لئے ہی نومبر 2007 ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک اہم قرار داد منظور کرتے ہوئے ہر سال 20 فروری کو باقاعدہ طور پر عالمی سطح پرعالمی یوم سماجی انصاف کے لئے منعقد کئے جانے کا فیصلہ کیا گیا اور 20فروری2009 ءکو پہلی باراس کا انعقاد کر پوری عالمی برادری کے انصاف پسند عوام کو ایک مثبت پیغام دینے کی اقوام متحدہ نے کوشش کی۔
اس طرح دیکھا جائے اقوام متحدہ کی سماجی انصاف کے لئے عالمی سطح پر سماجی انصاف کا یوم منانے کی یہ کوشش زیادہ طویل نہیں ہے، لیکن ہم اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ اقوام متحدہ کی مختلف ممالک کے معاشرے میں بڑھتی سماجی ناانصافیوں ، بے روزگاری اور افلاس کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو کامیابی ملنے کی بجائے عالمی سطح پر سماجی ناانصافی اور بنیادی حقوق سے محرومی کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے 2019 ءمیں عالمی یوم سماجی انصاف کے موقع پر بڑا یہ تھیم دیا تھا
” If you want peace and development ,work for social justice ”
اس ٹھیم میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ( کوئی بھی ملک) اگرامن اور ترقی کا خواہاں ہے تو سماجی انصاف پر عمل کرے۔ یہ تھیم یقینی طور پر بہت اہم اور قابل عمل تھا اور ہے۔ لیکن افسوس کہ اس تھیم پر بیشتر ممالک کے سربراہوں نے اقتدار کے نشہ میںکوئی توجہ نہیں دی۔ اس تناظر میں ہم اپنے ملک کے منظر نامے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں ، تو ہمیں نہ صرف بے حد مایوسیوںکا سامنا کرنا ہوگا بلکہ بہت زیادہ افسوس بھی ہوگا کہ ملک کے حکمرانوں نے ملک کی ترقی و فلاح و بہبود اور امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لئے سماجی ناانصافیوں سے پریشان حال لوگوں کے ایسے مسئلے کے تدارک کے لئے کسی طرح کے اقدامات اور تدابیر کئے ہوں ، بلکہ حقیقت تو یہ ہے پورے ملک میں اقوام متحدہ کی ان کوششوں کے بر خلاف بر سر اقتدار حکمراں نے ظلم و زیادتی، ناانصافی،مذہب ، ذات پات کی تفریق، رنگ و نسل کے درمیان خلیج بڑھانے نیز کروڑوںروزگار مہیا کرائے جانے کے بر خلاف سرکاری کمپنیوں کو کوڑی کے مول اپنے چندخاص صنعت کارکے ہاتھوں فروخت کر، ان شعبوں میں کام کر رہے لوگوں کو بے روزگار کئے جانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ بے روزگار ہونے والے لوگ اپنی بیوی ، بچوں سمیت خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوان بے روزگاری کی مسلسل مار جھیلنے کے بعد یہ لوگ یا تو خود کشی کر رہے ہیں یا پھر غلط راستے اختیار کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کسانوں سے ان کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ پورا کیا جانے تو ہونا دور ، ان کی محدود آمدنی اور ان کی سلامتی ہی ختم کرنے کے لئے تین ایسے زرعی بل لاک ڈاو¿ن کے زمانے میں بغیر کسانوں کے مشورے کے پاس کر لئے گئے ،جس کے احتجاج میں گزشتہ ڈھائی ماہ سے کسان سخت سردی کے عالم میں حکومت سے ایسے کسان مخالف کالے قانون کو واپس لئے جانے کے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر پُر امن احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج ان کی زندگی اور موت کا سوال ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ اس پُر امن احتجاج اور مظاہرے میں اب تک دو سو سے زیادہ کسان شہید ہو گئے ، لیکن حکومت ان کے مسئلہ کے تدارک کے بجائے اپنے خاص صنعت کارکے مفادات کو ترجیح دے رہی ہے۔حکومت کے ذریعہ ملک کے چند کارپوریٹ کے ایسے مفادات کے باعث مہنگائی اس حد تک بڑھتی جا رہی ہے کہ بنیادی ضرورتوں کا پورا ہونا مشکل ہو رہا ہے ، نتیجے میں کم آمدنی والے لوگوں کو بھی خودسوزی میں ہی عافیت نظر آ رہی ہے ۔
اس طرح دیکھا جائے تو بھارت میں مسلسل سماجی انصاف کا خون ہو رہا ہے اور حکومت سماجی نا انصافیوں کے خلاف تادیبی کاروائی کئے جانے کی بجائے نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ ایک طرف تو حکومت ایسے ناپسندیدہ عناصر جو سماجی نا انصافیوں کو اپنی تحریروں، تقریروں،مباحثوں نیز عملی کوششوں سے فروغ دے رہے ہیں،ان کی ہمت افزائی بھی کر رہی ہے ،وہیں دوسری جانب سماج اور معاشرے کے لئے مثبت سوچ اور فکر رکھنے والے ادیب،شاعر، فنکار اور دانشوران کی ایسی تحریروں ،تقریروں پر پہرے بٹھائے جا رہیں ۔انھیں ناانصافیوں اور حق تلفیوں کے خلاف لکھنے اور بولنے کی پاداش میں انھیں خوف و دہشت میں مبتلا کیا جا رہا ہے ، انھیں ملک مخالف کہا جا رہا ہے ، انھیں جھوٹھے مقدموں میں پھنسا کر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ملک کے انصاف کے مندر یعنی عدلیہ سے بھی انصاف ملنا بھی اب مشکل ہوتا نظر جارہا ہے ۔ اگر عدلیہ سے انصاف ہی ملتا تو پھر عدلیہ کے باہر احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ اتنا دراز کیوں ہوتا۔ عدلیہ میں انصاف کرنے والی کرسیوں کی خرید و فروخت اب عام بات ہو گئی ہے۔ انصاف دینے والوں کو گورنری، راجیہ سبھا کی ممبر شپ ،ترقی یا پھر روپئے اور عہدہ کا لالچ دے کر اپنے من مطابق فیصلے صادر کرا ئے جا رہے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں سماجی انصاف اور سماجی برابری کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور جن ممالک میں ان بنیادی حقوق پر توجہ دی جاتی ہے ، وہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے ۔ لیکن ہمارے ملک میں ان دنوں ہر طرح سے منافرت کو سیاسی مفادات کے لئے فروغ دیا جا رہا ہے ۔ مختلف طبقاتی نظام ،معاشرے میں انصاف اور انسانی اقدار کو ختم کر دینے کے درپئے پئے ہے۔ جن کے تدارک کی کوئی کوشش حکومت کی جانب سے ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ عالمی یوم سماجی انصاف اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ انسانی تاریخ فلاحی معاشرہ کے قیام اور تمام انسانوں کو یکساں حقوق حاصل ہو۔ لیکن افسوس کہ ان تمام باتوں پر سیاسی مفادات کو ترجیح دیا جا رہا ہے جو کہ ملک کے مفاد میں ہے نہ ہی یہاں کی عوام کے مفاد میں ۔
المیہ یہ بھی ہے کہ برسر اقتدار حکومت کی جانب سے کی جانے والی مسلسل نا انصافیوں کے خلاف اب عالمی سطح پر بہت شدت سے آواز اٹھنے لگی ہے ۔ بیرون ممالک میں مسلسل احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت ہند کے عوام مخالف رویہ کے خلاف طرح طرح مذمتی بیانات اور ٹوئیٹ کئے جا رہے ہیں ۔ لیکن اقتدار کے نشہ میں چور ملک حکمرانوں کو اس بات کی قطئی پرواہ نہیں کہ بیرون ممالک کے سیاستدانوں ، فنکاروں ، دانشوروں کے ذریعہ دئے جا رہے حکومت مخالف بیانات اور ٹویٹ سے ملک کی شبیہ کس قدر مسخ ہو رہی ہے ۔ان دنوں کسان تحریک، منافرت وناانصافیوں پر جس طرح سے مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ مشاہیر اپنے ٹویٹ کے ذریعہ خدشات اور تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ۔ وہ بھی اس ملک کے لئے رسوائیوں کا باعث بن رہا ہے ۔
آج کا دن جو کہ عالمی سماجی انصاف کا دن ہے ، اس دن شائد اس بات کا احساس حکومت کو ہو کہ سماجی انصاف سے بے توجہی کے باعث کو آنے والے دنوں ملک کو کس قدر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ۔
رابطہ:8969648799