آسام میںآے آئی یو ڈی ایف کے سربراہ بدرالدین اجمل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ بی جے پی کو ریاست کے اقتدار سے دور رکھنے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے تیار ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بابری مسجد کا فیصلہ تو ہو چکا لیکن ہندوستان بھر میں 3500 مساجد ایسی ہیں جن پر بی جے پی اور اس کے حلیفوں کی نظر ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے نشانے پر ہیں 3500 مساجد۔بدرالدین اجمل کا کہنا ہے کہ ’’وہ (بھارتیہ جنتا پارٹی والے) لوگوں کو یہ کہہ کر بے وقوف بنا رہے ہیں کہ شیر آ رہا ہے، شیر آ رہا ہے۔ لیکن وہ کوئی شیر نہیں بلکہ ایک انسان ہیں۔
اصل میں مستقبل قریب میںجن پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، ان میں آسام کا نام بھی شامل ہے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی پورا زور لگا رہی ہے کہ آسام میں وہ ایک بار پھر حکومت پر قابض ہو جائے، لیکن اے آئی یو ڈی ایف سربراہ بدرالدین اجمل ہر حال میں بی جے پی کو ریاست سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ بدرالدین اجمل بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کوئی بھی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ نفرت کی سیاست مزید کی جائے۔ وہ ملک کی تقریباً 3500 مساجد (جنھیں بی جے پی منہدم کرنا چاہتی ہے) کی حفاظت بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں۔
دراصل گزشتہ مہینے بدرالدین اجمل نے اپنے ایک بیان میں مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر 2024 میں بی جے پی پھر سے اقتدار میں آئی تو ملک کی 3500 مساجد کو وہ منہدم کر دے گی۔ بدرالدین نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بی جے پی نے ابھی سے ملک بھر کی 3500 مساجد کی فہرست بنا لی ہے جسے 2024 کے عام انتخابات میں حکومت بننے کے بعد گرایا جائے گا۔ اس تعلق سے بدرالدین اجمل کا ایک تازہ بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ وہ بی جے پی کو آسام میں ہر حال میں شکست دینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں۔3500 مساجد کا بی جے پی کے نشانے پر ہونے کا ذکر کیا مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے نہیں کیا جا رہا ہے۔
یہاں قابل غور یہ ہے کہ وہ کون سی قربانی ہے جسے دی نے کے لئے بدرالدین اجمل خود کو تیار بتا رہے ہیں۔اس پر اگر غور کریں تو یہ سامنے آتا ہے کہ کانگریس نے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر جن پانچ پارٹیوں سے آسام میں اتحاد کیا ہے، ان میں اے آئی یو ڈی ایف بھی شامل ہے۔ اور ظاہر ہے کہ بدرالدین اجمل نے کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملا کر بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’میرا مقصد بی جے پی کو آسام سے باہر کرنا ہے۔ اس کے لیے وہ کانگریس کے ساتھ مل کر لڑائی لڑیں گے۔‘‘ بقول اجمل وہ قربانی دے کر بی جے پی کو ہرائیں گے کیونکہ بی جے پی ایک خاص طبقہ کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیمنت بسوا سرما وزیر اعلیٰ بننے کے لیے تقسیم کی سیاست کر رہے ہیں جو ریاست اور ملک کے لیے نقصاندہ ہے۔
بی جے پی کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے بدرالدین اجمل نے کہا کہ ’’وہ (بی جے پی والے) لوگوں کو یہ کہہ کر بے وقوف بنا رہے ہیں کہ شیر آ رہا ہے، شیر آ رہا ہے۔ لیکن وہ کوئی شیر نہیں بلکہ ایک انسان ہیں۔‘‘ دراصل بی جے پی لیڈران لگاتار بدرالدین اجمل کے خلاف بیان بازیاں کر رہے ہیں۔ ہیمنت بسوا سرما نے تو حال ہی میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’عطر لگانے والے آسام کے دشمن ہیں۔‘‘ اس طرح کے حملوں سے بدرالدین اجمل کافی ناراض ہیں اور ہر حال میں بی جے پی کو ریاست سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس سے ہاتھ ملانا ہی ان کی قربانی ہے۔اگر ہاں تو کانگریس سے ہاتھ ملانے میں ان کا کون سا ایسا نقصان ہے جسے وہ قربانی سے تعبیر رکر رہے ہیں۔کاگریس سمیت چھہ پارٹیوں کے اتحاد میں نتیجہ کچھ بھی نکلے بدرالدین اجمل کا تشخص کیا کہیں مجروح ہوتا نظر آتا ہے۔ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اتحادیوں کی جماعت میں نبدرالدین اجمل کی وہ حثیت نہ رہے جو اپ نی پارٹی مین سربراہ کی حیثیت سے ہے۔لیکن اسے قربانی کا نام دینا کہاں تک درست ہے یہ سوال بہر حال قائم ہے۔
Also read