ذرا نم ہو تویہ مٹی بڑی زرخیزہے ساقی- If it is slightly moist, the soil is very fertile

0
92

If it is slightly moist, the soil is very fertile

انیس درانی
گذشتہ چنددنوں میں بھارتی النسل خواتین نے ایسے نئے نئے کارنامے انجام دیئے ہیں کہ دل بے اختیار ان کی ستائش کے لئے مجبور ہوجاتاہے۔ امریکہ سے لے کر یہاں کئی بھارتی النسل خواتین وحضرات اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کے سبب امریکہ کی منتخبہ نائب صدر کمالاہیرس کے علاوہ بھی امریکہ کے صدرجوبائیڈن کے معتمد اور مشیر کے طورپر نامزد کئے گئے ہیں افریقہ تک جہاں کی ایک مسلم خاتون کو اقوام متحدہ نے مالیاتی امور کاچیف مقرر کیا ہے اور اپنے بھارت سے کرناٹک کی ریشمی سامنت جو برطانیہ کی مشہور ومعروف یونیورسٹی آکسفورڈ کے طلبا کی یونین کی صدرمنتخب ہوئی ہیں اور انھوں نے اپنے مقابل تین دیگر امیدواروں کے مشترکہ ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ جو ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ریشمی سامنت آکسفورڈ یونیورسٹی انرجی میں ایم ایس سی کررہی ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم کرناٹک میں ہی ہوئی تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا صدرمنتخب ہونا اپنے آپ میں بڑااعزاز ہے۔ وہ پہلی بھارتی خاتون ہین جو آکسفورڈ یونین کی صدارت کے لئے منتخب ہوئی ہیں۔ اسی طرح کرناٹک کی راجیوگاندھی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزکے کنویکشن میں دو طلائی تمغے حاصل کرنے والی سونالی راٹھور ہیں جنہوں نے چندروز قبل صدرجمہوریہ ہند کے ہاتھوں سے یہ تمغے حاصل کئے۔ مہاراشٹرکے ویلن گاؤں کی رہنے والی اس طالبہ نے کرناٹک کی راجیوگاندھی یونیورسٹی سے نرسنگ میں BSCکیا ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مہاراشٹرسے حاصل کی اور نہایت پریشان کن حالات میں ان کا بچپن گذرا۔ کرایے کے مکان میں رہنے والے ان کے والد شراب پینے کے دھتّی تھے۔ روز شراب پی کر آتے اور روزانہ سونالی کی ماں سے جھگڑاکرتے تھے۔ سونالی رات کو تین بجے جاگ جاتی تھی تاکہ پرسکون ماحول میں اپنی تعلیم پوری کرسکے۔ اتنی محنت اور مشقت کے ساتھ اس نے بارہویں کا امتحان پاس کیا۔ سونالی کی تعلیم کے لئے اس کی ما ں نے قرضہ لیا۔ جبکہ ایک مرتبہ ایسی نوبت بھی آئی کہ سونالی کی ماں کو اپنا منگل سوتربھی بیچناپڑامگر اس عورت نے اپنی بچی کے مستقبل کوبنانے کے لئے ہر مصیبت اٹھائی۔ بارہویں کلا س میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہونے پر اس کی ایک ٹیچر نے اسے کیریئرکے لیے نرسنگ کا کورس کرنے کی صلاح دی جس پر سونالی نے عمل کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلور کی راجیوگاندھی یونیورسٹی سے سب سے زیادہ نمبر لے کر اول پوزیشن حاصل کی۔ بہت سے لوگوں نے اسے نرسنگ میں ٹاپ کرنے کے بعد خلیج کے کسی ملک یا پھر یورپ امریکہ جانے کے مشورے دئیے مگر سونالی بھارت میں رہ کر ہی اپنے ملک کے غریبوں کی خدمت کرنا چاہتی ہے ایک سال سروس کرنے کے بعدوہ ایم ایس میں نرسنگ میں داخلہ کی اہل ہوجائے گی۔ سونالی کے مطابق اس کے والدین تویہ بھی نہیں سمجھتے کہ گولڈن میڈل کیا ہوتاہے۔ بس وہ اتنا جانتے ہیں کہ میں نے کوئی بڑا کام کیا ہے۔
آپ نے ابھی تک فراموش نہیں کیا ہوگا کہ کس طرح بین الاقوامی گلوکارہ ریحانااور ماحولیات کے لئے ساری دنیا میں جنگ لڑنے والی گریٹا تھنبرگ اور چنددیگر غیرملکی خواتین سماجی کارکنوں نے دھرنے پر بیٹھے کسانوں کے حق میں سوشل میڈیا /ٹول کٹ کا استعمال کرکے بھارت سرکار کے لئے کافی پشیمانی کا سامان پیدا کردیا تھا حکومت ان بین الاقوامی شخصیات کے خلاف توکچھ کرنہیں سکی مگر بھارتی سوشل ایکٹوٹس کے خلاف ایک طرح سے یلغار کردی ہے۔ یہ خاص طورپر خواتین وکلا طالبات کی لیڈر کسانوں کے جلسے میں جاکر تقریر کرنے والی خواتین اور دیگر خواتین سوشل کارکنان کو احتجاج کرنے پر ملک سے غداری اور عوام کو بھڑکانے کے جرم میں قید کرلیا گیا ۔ پولیس اچھی طرح جانتی ہے کہ جب ان مقدمات کی باقاعدہ سماعت شروع ہوگی تو وہ عدالت میں کوئی جرم ثابت نہیں کرسکے گی۔ مگرسیاسی آقاؤں کے اندھے احکامات کی تعمیل کرنے کے علاوہ اس کے پاس راستہ بھی نہیں ہے اس لئے پولیس مقدمہ میں ملوث خواتین کی خاص طورپر ضمانت نہ ہوسکے اس بات کے لیے ہرحیلہ بہانہ استعمال کرتی ہے۔ ہریانہ کے دلتوں اور غریب زرعی مزدوروں کے لئے لڑنے والی نردیپ کور مہاراشٹرکی نکیتاجیکپ شنتانو ملک اور ٹول کٹ کیس میں ملزم بنائے جانے والی دشا روی کے ساتھ جو سلوک پولیس کررہی ہے وہ سارا ملک دیکھ رہا ہے ۔ ایسا ہی سلوک CAAتحریک کے دوران حکومت کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ کیا جارہاہے۔ عشرت جہاں مس کلیٹا(پنجرہ توڑگروپ) خالد عمر اور بہت سے لوگ ہیں جن کو مشرقی دہلی کے فساد کا مرکزی ملزم قراردے کر جیل میں ڈال دیا گیاہے اور کسی نہ کسی حیلے بہانے سے ان کی ضمانت نہیں ہونے دی جارہی ہے۔ خیر ان سب واقعات کاذکر تودرمیان میں اس لئے آگیا کہ اپنے زخموں پر نظرڈالتے رہنے چاہیے تاکہ اپنی صورتحال سے باخبررہیں۔
میں نے ابھی کالم کے آغاز میں چند غیر مسلم خواتین کاذکر کیا جو اپنی ہمت اور ولولہ سے اپنے منفی حالات کومثبت حالات میں بدلنے میں کامیاب ہوئیں۔ لیکن مسلم لڑکیاں بھی اس معاملہ میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ وہ بھی اگر گھر والوں کی معمولی سی بھی مددمل جائے توآسمان سے تارے توڑ کر لاسکتی ہیں میں ایسی ہے ایک مثالی مسلمان لڑکی سے آپ کو متعارف کراتاہوں جو انتہائی نامساعد انہ حالات کاسامنا کرکے چارٹر اکاونٹنٹس کے امتحان میں سارے ملک میں اوّل آئی ہے۔ اس پچیس سالہ لڑکی کا نام زرین خان ہے جو مہاراشٹرکے تھانے ضلع کی رہنے والی ہے ۔ اپنے غریب والدین اور تین بہن بھائیوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے مکان میں رہتی ہے جہاں صبح فجر کے بعد سے ہی شوروغل شروع ہوجاتاہے کیونکہ یہ چھوٹاسا مکان سڑک سے زیادہ دورنہیں ہے ۔ زرین کے والد ایک موٹر میکینک ہیں جو نویں کلاس تک ہی پڑھ سکے تھے۔ والدہ گھرمیں رہتی ہیں ان کے دوچھوٹے بھائی دسویں کلاس میں پڑھتے ہیں اور ان کی چھوٹی بہن نے اس سال BSCکیاہے۔ اس طرح زرین خان اور ان کے بہن بھائی اپنے خاندان میں پیشہ وارانہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی پہلی نسل ہے۔ زرین خان ساری رات پڑھتی تھی تاکہ رات کے سناٹے میں کوئی ان کے مطالعہ اور پڑھائی میں خلل نہ ڈال سکے میں چندالفاظ میں آپ کو اس امتحان کی بابت بھی بتاتاچلوں ملک میں ہرسال ڈاکٹری اور انجنیئرنگ میں داخلوں کے امتحانات ہوتے ہیں ان میں لاکھوں ہونہار طلبا حصہ لیتے ہیں۔ مگر سی اے میں داخلے کے لئے جو امتحان ہوتاہے۔ اس میں صرف چار پانچ ہزار طلبا ہی حصہ لیتے ہیں کیونکہ CAکی پڑھائی اور امتحان دونوں ہی بہت غیر معمولی مشقت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ اب وہ زیر تربیت چار ٹراکاؤنٹ کے طورپر معینہ وقت تک کسی CAکمپنی میں کام کریں گے اور پھرانھیں ایک مستند چارٹراکاؤنٹنٹ کی ڈگری حاصل ہوجائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زرین خان نے CAکے امتحان میں سارے ملک میں اول پوزیشن حاصل کرکے بڑا کام کیا ہے خاص طورپرجب ہم ان کے خاندانی پس منظرکو دیکھیں توبے شک یہ کارنامہ عظیم تر نظرآئے گا۔
زرین ہی نہیں بلکہ ہمارے ملک میں مسلم لڑکیاں بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہی ہیں بورڈ کے امتحان ہوں یا میڈیکل ڈگری یا پھر انجینئرکی ڈگری سب ہی میدانوں میں وہ امتیازی حیثیت حاصل کررہی ہیں۔ بس انہیں اپنے گھروالوں کی ذرا سی مددکی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلمان لڑکیاں مسلمان لڑکوں سے زیادہ صلاحیتوں کی حامل ہیں۔ اپنی بیٹیوں کی طرف دھیان دیجئے۔ ان کی تعلیم اور اعلی تعلیم کی طرف ہمت افزائی کیجئے یا کم ازم ان کی راہ میں رکاوٹیں تو مت کھڑی کیجئے۔ ہمارے کٹھ ملاّؤں نے مسلمانوں کے دل میں بے بنیادخوف پیداکردیئے ہیں۔ ان سب کی اجتماعی سوچ یہیں آکر اٹک گئی ہے کہ مسلمان لڑکیا ں پڑھ لکھ کر غیر مسلموں کے ساتھ شادی کرلیں گی۔ یا یہ کہ دوسری مذاہب کی لڑکیوں کی طرح بے شرم اور بے لگام ہوجائیں گی۔ یہ منفی طرز فکر مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں حائل ہے۔ ہندتوا کے عناصر رات دن اس فکرمیں پاگل ہورہے ہیں کہ ان کی لڑکیاں مسلمانوں کے ساتھ کیوں شادی کرلیتی ہیں ان کو سوتے جاگتے لوجہاد نظرآتاہے انہیں ان کی بدخوابی کاشکار رہنے دیجئے مگر آپ ذراغورکیجئے کہ مسلم علاقوں کے لڑکیوں کے اسکولوں میں کتنی کثیر تعداد میں طالبات زیر تعلیم ہوتی ہیں۔ مسلم ڈگری کالجوں میں بھی کثیر تعدادمیں مسلمان لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ اگرآپ اعدادوشماراکٹھا کریں گے توآپ کو پتہ چلے گاکہ مشکل سے دوچار فی صدایسے کیس سامنے آئیں گے۔ جہاں کسی مسلم لڑکی نے غیر مسلم سے شادی کی ہو ان میں بھی بمشکل ایک دوفی صدایسے ہوں گے جہاں باہمی تعلق کاوسیلہ صرف تعلیم ہو ورنہ زیادہ تر معاشقے کام کرنے کی جگہ سے پروان چڑھتے ہیں اس لئے مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کو غیرمسلموں کے ساتھ شادی کرنے سے جوڑنا قطعی غیر منطقی ہے ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں کہنے پر مجبور ہوں کہ جلد ہی مسلم گھرانوں کی بیٹیوں کو بھی نوکریاں کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اور اس وقت اس قسم کے مسائل کثیر تعداد میں ہمارے سامنے آئیں گے۔
آج سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں کے دلوں میں بچپن سے ہی نہ صرف اسلام کی محبت پیداکریں بلکہ اسلام کیا ہے۔ ہم مسلمان کیوں ہیں ؟ اسلامی شریعت میں عورتوں کو کتنی آزادی دی گئی ہے جیسے موضوعات سے انہیں آگاہ کریں تاکہ وہ اسلام کی حقیقت کو بخوبی سمجھیں اور افضل سمجھیں۔ پھر ان کاکسی غیرمسلم سے متاثر ہونے کا امکان ہی ختم ہوجائے گا۔ والدین کوشش کریں کہ وہ کم ازکم اپنی اولاد وں کو مذہب اسلام کی برتراور افضل تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لئے قرآن مجید کاترجمہ پڑھنے کی ترغیب دیں ۔ ہِل ہِل کرقرآن کوبناسمجھے پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔باربارقرآن میں پڑھنے اور غورکرنے کی تاکید اسی لیے کی گئی ہے۔ اور غوروفکر بھی اس وقت ہی ممکن ہے جب آپ قرآن مجید کاترجمہ پڑھیں اسلامی احکامات کی مصلحتوں پر غور کریں۔ توحید، کفر اور شرک کے فرق کو سمجھیں تاکہ بلوغت تک پہنچتے پہنچتے ان کا ایمان اتنا مضبوط ہوجائے کہ وہ کسی غیراسلامی عمل کے لئے تیار ہی نہ ہوسکیں۔اسلام کہیں سے کہیں تک خواتین کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ طلاق ہے توخلع بھی ہے۔ ورثے میں وضاحت کے ساتھ خواتین کے حصے بیان کردئیے گئے ہیں۔ عدت کے دوران اگرچہ گھرسے باہرنکلنے پر پابندی ہے لیکن اگر معاشی ضرورت ہے تواس کی بھی شرائط کے ساتھ اجازت دی گئی ہے۔عورت کو نوکری ،تجارت، مالی لین اورسرمایہ کاری سب کی اجازت ہے۔ہمیں اپنی اولادوں کو سمجھانابہت ضروری ہوگیاہے کہ اسلام عورت کو ایک خودمختار شخصیت سمجھتاہے۔ غلام یاباندی نہیں۔اسی لئے صرف اسلام نے شادی دوافرادکے مابین ایک معاہدہ ہے۔جسے فریقین کی مرضی سے ختم بھی کیا جاسکتاہے۔ان سب باتوں کا مقصدہمیں اپنی بچیوں کواسلام کی صنفی مساوات اور آزاد روش سے آگاہ کرنا ہے۔ اور انھیں ملاّؤں کے فرسودہ خیالات سے آزادکراکر نئے چیلنجزکے لئے تیارکرنا ہے!
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here