’’آخر کب تک مسلمان حال مست مال مست میں رہینگے ؟‘‘- “How long will Muslims remain in a state of intoxication?”

0
422

قیصر محمود عراقی
موجودہ حالات بتارہے ہیں کہ امت مسلمہ تاریخ کے بد ترین بحران سے گذر رہی ہے ۔ اس طرح کا کٹرا وقت اس سے قبل پہلے کبھی نہیں آیا ۔ ایک دو ر وہ بھی دنیا نے دیکھا جب طاغوت کے بڑے بڑے فراعنہ نما حکمران اسلام کے درویش صفت بوریا نشین حکمرانوں کے سامنے پر مارنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے ۔ کفر کے یہ حکمران مسلم حکمرانوں سے شرف ملاقات کے حصول کے لئے ترستے تھے اور اس سلسلہ میں مسلسل کئی کئی دن انتظار کے کھٹن حالات سے گذرنا پڑتا تھا ، لیکن آج ایسا کیا ہو گیا کہ مسلمان حکموتیں ہی طاغوت کی ایک نظر کرم کی محتاج بن کر رہ گئی ہیں ۔ طاغوت کی خواہش ہو گی تو انھیں شرف ملاقات نصیب ہو گا ورنہ دھتکار کر کم تر درجے کے لوگوں سے ملاقات پرٹا لا جا تا ہے ، وہ بھی منت سما جت اور طاغوت کی پیش کر دہ کڑی شرائط پر ہی ہمارے مسلم حکمراں شرف ملاقات کے حصول پر پھولے نہیں سماتے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ بے غیرت اور حمیت اسلامی سے محروم لو گ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں ۔ آج امت مسلمہ کی حیثیت مال و دولت اور افرادی قوت کی کثرت رکھنے کے باوجود سمندر کی جھاگ کی طرح ہے ، جسے امریکہ اور اسلام مخالف ممالک جب چاہیں اپنی بات منوالیں ، جدھر چاہیں موڑدیں کیونکہ اغیار کو پوری طرح یقین ہو چکا ہے کہ کرہ ارض پر کوئی امت مسلمہ نہیں ، کوئی عالم اسلام نہیں ، اگر امت مسلمہ ہو تی اور عالم اسلام ہو تا تو وہ کشمیر ی، فلسطینی اور دیگر ملکوں میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لئے کم از کم ایک زور دار صدا ضرور بلند کر تے ۔ یہ ایک بہت بڑی عالمی سازش ہے کہ مسلمانوں کی جہالت اور نادانی و نا سمجھی کے باعث امت مسلمہ کا شیرازہ بکھرا پڑا ہے اور ٹکڑوں میں بٹی ہو ئی ہے ، سب کو اپنے مفادات عزیز ہیں ، کوئی آگے بڑھ کر اپنے بھائی کی دلجوئی کر نے کو رضا مند نہیں ہے ، کوئی مشکل وقت میں ظالموں کے سامنے مظلوموں کی حمایت کو تیارنہیں ہے ، پوری دنیا میں کہیں بھی دیکھ لیں ، ہر جگہ مسلمانوں کا خون بکھرا پڑا ہے ، ہر جگہ ان کی گرد نیں کٹ رہی ہیں ، نسلیں ختم ہو رہی ہیں ، اغیار کی جارحانہ حملوں میں لوگ معذورہو رہے ہیں ، اپاہج ہو رہے ہیں ، مال کا نقصان ہو رہا ہے ، معیشت تباہ ہو رہی ہے ، ان کی مسلم قومیت معدوم ہوتی جا رہی ہے ، لیکن پھر بھی مسلمانوں کو ہو ش نہیں ہے ، وہ کہ جنھیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنے کا حکم ملا تھا ،وہ کہ جنھیں ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا کہ مسلمان ایسے ہیں کہ جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم درد میں مبتلا ہو جا تا ہے ، وہ کہ جنھیں مظلوم کا ساتھ دینے کی تلقین کی گئی ، وہ کہ جنھیں بتایا گیا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ آ ج ان کی آنکھوں کے سامنے معصوم کلمہ گو شہید ہو رہے ہیں جوانوں کو کلمہ حق پر قائم رہنے کی سزا دی جا رہی ہے ، عزتیں پا مال ہو رہی ہیں ۔ شہیدو ں کی تعداد ہے کہ ہر روز بڑھتی ہی جا رہی ہے ، لیکن اس کے باوجود کسی کے ضمیر نے ملامت کی نہ کسی کا ضمیر جا گا ۔ بلکہ وہ اپنے ہی برادر ان ملت کے خلاف اعدائے دین کی مدد کی اور مسلمانون کی نسل کشی پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ ہر طرف مظلوم مسلمانوں کی دلدوز چیخیں، لیکن مجال ہے کہ مسلم حکمراں کی غیرت جا گ جا ئے ۔ مجال ہے کہ ان کا مردہ ضمیر زندہ ہو جا ئے ۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ کوئی خودی اور خودواری نہیں بلکہ یہ بد ترین غلامی ہے کہ بر داران ملت کو چھوڑ کر اغیار کو دوست بنایا جا ئے ۔ چاہے اس دوستی کا ٹائٹل تجارت اور کاروباری منفعت ہی کیوں نہ ہو ں۔آج ہر مسلمان حال مست مال مست میں ہیں ۔ بحیثیت مسلمان ہمارا اتحاد ، شناخت اور حتیٰ کہ ایمان بھی شدید خطرات سے دوچار ہے ،ا گرچہ ہمیں معاملے کی نزاکت کا احساس ہے ، لیکن ہم ابھی بھی الجھن کا شکار ہیں ، کہیں اور کھوئے ہو ئے ہیں۔شاید ہم اپنی شاندار تاریخ ، فتوحات اور بہادری کی بے مثال داستانوں کو بھُلا چکے ہیں ۔ جس وجہہ کر آج ہر جگہ مسلمانوںکو ذلیل وخوار کیا جا رہا ہے ، مسلک کے نام پر مسلمان ہی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں ، یہی وجہہ ہے کہ غیر مسلم بھی ہم پر بھاری ہیں ، حالانکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو تمام مذاہب سے سچاہے اور غالب ہو نے والا ہے ، مگر وقتی طورپر یہ مفلوہیت ہماری ہی کمی کو تاہیوں اور ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ آج ہر ملک میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں ۔ مسلمانوں پر یہ مظالم کب تک ؟ آخر کب تک ہم مسلمان اس ظلم کی چکی میں پستے رہینگے ؟آخر کب تک ہم ان یہودونصاری اور ہنودکے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھاتے رہینگے ؟اس لئے قوم کے لوگو! حال مست اور مال مست کے خول سے باہر نکلو اور اسلامی طور زندگی کو اپناتے ہو ئے ایک دوسرے کا ساتھ دو اور پھر دیکھو، وہی امن و امان بحال ہو گا جو آج سے چودہ سو سال پہلے، اسلام کے آنے کے بعد دنیا امن کا گبوارہ بن گئی تھی ۔ اس کے لئے ہمیں اپنے اختلافات بھلانے ہو نگے ۔ اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالنا ہو گا اور صرف اور صرف قرآنی تعلیمات پر عمل کر نا ہو گا ، ساتھ میں موجودہ خطرات کا مقابلے کر نے کے لئے خود کو ہمیں تیار کر نا ہو گا ، تبھی ہم دنیا میں سر اُٹھا کر جی سیکھینگے ۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو اتنی طاقت دے کہ مسلمان اپنے دین کی حفاظت کر سکیںاور مصیبت زدہ مسلمان بھائیوں کی بلا امتیاز مسلک و ملت مدد کر سکیں۔ آمین

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here