دسویں امام علی النقی (ع) کی مختصر سوانح حیات- Brief Biography of the Tenth Imam Ali Al-Naqi (AS)

0
114

Brief Biography of the Tenth Imam Ali Al-Naqi (AS)

امام علی بن محمد ملقّب به لقب هادی (ع) کی ولادت باسعادت نیمہ ماه رجب سنہ212ھ، کو شهر مدینہ کے قریب (صریا) نامی مقام پر هوئی هے، کچھ مؤرخین نے حضرت کی ولادت کو اسی سال، رجب کے مہینہ کی دوسری یا پانچویں تاریخ کو لکھا هے اور دوسرے بعض افراد نے سنہ214ھ، لکھا هے ۔ رجب المرجب کے مہینہ میں آپ ولادت کی دلیلوں میں سے ایک دلیل دعائے ناحیہ مقدسہ کو بیان کیا گیا هے:
“اللّهُمَّ اِنّي أسئلكَ بالمَولوُدَينِ في رَجبٍ، مُحمّدِ بنِ عَليٍ الثّاني وَابنه عليّ بنِ محمّدٍ المُنتَجب”۔خدایا میں تجھ سے سوال کرتا ھوں رجب کے دو مولود محمد ابن علی دوم اور ان کے فرزند علی ابن محمد کے واسطہ جو برگزیدہ هیں۔
آپ (ع) کی شهادت، رجب کے مہینہ کی تیسری تاریخ سنہ2۵4ھ، میں اور ایک قول کی بناپر 2۵/جمادی الثانی کو سامره میں معتز عباسی کے ذریعہ هوئی هے، حضرت (ع) نے اپنے والد ماجد کی شهادت کے بعد 33/سال تک امامت کی ذمہ داری سنبھالی هے ۔
آپ (ع) کی والده ماجده کا نام سمانہ مغربیہ تھا۔، اس کے علاوه، ان کے ناموں میں ، حدیث اور غزال کا بھی ذکر کیا گیا هے اور ان کی کنیت ام الفضل تھی۔، دسویں امام (ع) کا نام مبارک علی اور ان کی کنیت ابو الحسن هے (چونکہ آپ علاوه دوسرے ائمہ (ع) کی کنیت بھی ابو الحسن هے اسی وجہ سے تشخیص کے لئے) آپ (ع) کو ابو الحسن ثالث کہا جاتا هے، حضرت کے القاب میں نقی، هادی، امین، طیب، ناصح اور مرتضیٰ وغیره هیں۔
امام علی نقی (ع) کا اخلاق اور عملی سیرت:
ائمہ معصومین علیہم السلام انسان کامل اور اللہ کے منتخب و برگزیدہ بندے هیں جنہیں کردار و رفتار کے نمونے کے عنوان سے اور بنی نوع بشر کی هدایت کے لئے روش چراغ بناکر پروردگار کی طرف سے بھیجا گیا هے ۔ ان بزرگوں کی حیات پاک یعنی رفتار و گفتار، اخلاق و عادات اور انسانی فضائل، تمام لوگوں کے لئے الٰہی اقدار کا مکمل آئینہ هیں ۔
امام علی نقی (ع) اهل بیت اطہار علیہم السلام کے مقام و مرتبہ کے متعلق ارشاد فرماتے هیں:
“… وَ مَعْدِنَ الرَّحْمَةِ وَ خُزَّانَ الْعِلْمِ وَ مُنْتَهَى الْحِلْمِ وَ أُصُولَ الْكَرَمِ … وَ عَنَاصِرَ الْأَبْرَارِ … وَ صَفْوَةَ الْمُرْسَلِينَ …أَئِمَّةِ الْهُدَى وَ مَصَابِيحِ الدُّجَى وَ أَعْلَامِ التُّقَى … وَ الْمَثَلِ الْأَعْلَى … وَ حُجَجِ اللَّهِ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ الْأُولَى؛ اور رحمت معدن اور علم کے خزینہ دار، حلم کے انتهائی مقام، کرامت کے اصول، اور ابرار و نیکوں کے ارکان، اور مرسلین کے برگزیده و منتخب، هدایت کے ائمہ، تاریکیوں کے چراغ اور تقویٰ کی نشانیاں، اور الله کے عظیم و برتر نمونے اور دنیا و آخرت میں الله کی حجت هیں ۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نهیں هے کہ ایسی ذوات مقدّسہ اور درخشان چہروں کے مالک افراد کے دستور اور رفتار و کردار کی پیروی کرنا هی انسانی کمال کے مدارج اور دونوں جہاں کی سعادت و کامیابی تک پہنچا سکتے هیں ۔
امام علی نقی (ع) کے اخلاق و فضائل کسی پر پوشیده نهیں هیں، علماء اور مؤرخین اس بات سے اچھی طرح واقف هیں، یہاں تک کہ اهل بیت علیہم السلام کے دشمنوں نے بھی آپ کی مدح و ثنا کی هے ۔ (ابو عبدالله جنیدی) کہتا هے: “خدا کی قسم وه روئے زمین پر الله کی بہترین مخلوق اور لوگوں میں سب سے افضل هیں” ۔
(ابن حجر) حضرت کی زندگی کے بارے میں لکھتا هے : (و کان وارث ابیه علما و سخاء)، وه علم و سخاوت میں اپنے والد کے وارث تھے ۔
اب ھم اس مقصد کے تحت کہ آپ کی رفتار و کردار اور اخلاق حسنہ ھم سب کے لئے نمونہ عمل قرار پائیں لہذا کچھ نمونے کی یاد دهانی کرتے هیں ۔
1- معبود حقیقی سے انس اور لگاؤ:
ائمہ معصومین علیہم السلام پروردگار عالم کی معرفت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے اور ان کی یہی گہری معرفت و بصیرت باعث بنی کہ یہ حضرات همیشہ پروردگار عالم سے انس و لگاؤ رکھیں اور خدائے متعال سے انس و مجبت کے یہی رابطے تھے کہ جو پروردگار کی بارگاه میں حاضری کے لئے بے چین کئے رهتے تھے اور سکون و اطمینان کو ان سے چھین لیتے تھے۔
امام علی نقی (ع) رات کے وقت بارگاه پروردگار میں حاضر هوکر پوری رات عبادت، حالت خشوع و خضوع اور سجدے و رکوع میں گزارتے تھے اور آپ کی نورانی پیشانی زمین پر هوتی، جس کے درمیان سوائے سنگریزوں اور خاک کے کوئی چیز حائل نهیں هوا کرتی تھی اور مسلسل اس دعا کو پڑھا کرتے تھے ۔ ” الٰهي مُسيٌء قد وَرَدَ، و فقيرٌ قد قَصَدَ، لا تُخيِّبْ مسعاه و ارحَمهُ و اغفر لَه خَطۡاَهُ؛ اے میرے پروردگار تیرا گنہگار بنده تیرے پاس آیا هے اور ایک تہی دست تیری بارگاه میں حاضر هوا هے اس کی سعی و کوشش کو ناکام نہ کرنا اور اسے اپنی رحمت و عنایت کے سایہ میں قرار دے اور اس کی لغزشوں کو معاف کردے ۔
2- سخاوت و بخشش:
ائمہ معصومین علیہم السلام دنیوی مظاهر کےلئے مال و دولت کی ذاتی قدر و قیمت کے قائل نہ تھے بلکہ پوری کوشش کرتے تھے کہ اس کی حد اقلّ مال دینا پر اکتفا کریں (یعنی یہ کہ ان کی زندگی میں معمول کے مطابق گزر اوقات هوتا رهے اور ان حضرات کے فردی و اجتماعی وظائف کی انجام دهی میں معاون هوں) اور اس سے زیادہ چیزوں کو خوشنودی پروردگار کی راه میں خرچ کر دیتے تھے ۔
انفاق کی راهوں میں سے ایک راستہ یہ هے کہ سماج کے تہی دست اور محتاجوں کو عطا کیا جائے، امام علی نقی (ع) اپنے والد بزرگوار کے مانند سخاوت و کرم کے مرکز تھے اور بسا اوقات راهِ خدا میں اتنی زیاده مقدار میں انفاق کرتے تھے کہ (ابن شہر آشوب) جیسا دانشمند درج ذیل واقعہ کو نقل کرنے کے بعد کہتا هے:
اتنی زیاده مقدار میں راهِ خدا میں انفاق کرنا ایک معجزه هے جو بادشاهوں کے علاوه کسی اور کے بس کی بات نهیں هے اور ابھی تک میں نے اتنی کثیر مقدار میں راهِ خدا میں انفاق کرنا، کسی اور کے بارے میں نهیں سنا هے ۔
هم درج ذیل ایک نمونے کے ذکر پر اکتفا کرتے هیں، اسحاق جلاب کہتے هیں:
میں نے ابوالحسن امام علی نقی (ع) کے لئے بہت سی بھیڑ بکریاں خریدی، اس کے بعد حضرت (ع) مجھے ایک وسیع جگہ پر لے گئے جس کے بارے میں مجھے اطلاع نہ تھی، پھر تمام بھیڑ بکریوں کو جن لوگوں کے درمیان تقسیم کرنے کا حکم دیا میں نے ان سب کو بانٹ دیا۔
دوسری روایت میں بھیڑ بکریوں کے خریدنے اور انهیں تقسیم کرنے کا وقت “ترویہ”۔، کا دن بیان هوا هے ۔
اس روایت سے پتہ چلتا هے کہ حضرت مال و دولت کے مسائل اور جزئی انفاق کے سلسلہ میں بھی امن و امان کے مسائل کی رعایت کا خیال رکھتے تھے ۔
اس بات سے معلوم هوتا هے کہ نظامِ حکومت کی طرف سے حضرت پر بڑی سخت پابندی رهتی تھی، اس صورت حال کے هوتے هوئے امام نے اس کام کو قربانی کے ذیل میں انجام دیا، تاکہ هر طرح کے سوء ظن کو اپنے سے دور کریں ۔
3- حلم اور بردباری:
حلم و بردباری کا شمار بہت اهم اوصاف میں هوتا هے جو خاص طور سے الٰهی رهبروں میں پائے جاتے هیں جس کا اندازه نادان، گمراه، اور بے عقل و بے وقوف لوگوں سے سامنا کرنے پر الٰهی پیشواؤں میں کیا جاسکتا هے، اور یہ حضرات اپنے اسی نیک برتاؤ اور اچھے اخلاق کی روشنی میں بہت سے لوگوں کو اپنے آئین کی طرف کھینچ لاتے تھے ۔
امام علی نقی (ع) اپنے آباء و اجداد کی طرح سختیوں اور پریشانیوں میں صبر و تحمّل سے کام لیتے تھے اور جہاں تک اسلام کی مصلحت کا تقاضا هوتا تھا آپ حق کے دشمنوں، برا بھلا کہنے والوں اور توهین کرنے والوں کے مقابلہ میں حلم و بردباری سے پیش آتے تھے ۔
(بریحہ عباسی) جو حکومت بنی عباس کی طرف سے مکہ و مدینہ کی پیشنمازی کے لئے منصوب کیا گیا تھا – اس نے متوکل کے پاس امام علی نقی (ع) کے بارے میں چغلخوری کرتے هوئے لکھا:
اگر تمهیں مکہ و مدینہ کی ضرورت هے تو (علی بن محمد) کو ان دو شهروں سے نکال دو، کیونکہ وه لوگوں کو اپنی امامت کی طرف دعوت دیتے هیں اور کافی تعداد میں لوگ ان کے پیروکار هوگئے هیں ۔
بریحہ کی مسلسل چغلخوری و شکایت کی وجہ سے متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو آپ کے جد بزرگوار رسول خدا صلیٰ الله علیه وآله وسلم کے روضہ اقدس کے پاس سے دور کردیا۔ اور جس وقت امام مدینہ منوره سے سامره کی جانب سفر طے کر رهے تھے، بریحہ بھی آپ کے همراه تھا، بریحہ نے سفر کے دوران امام کی طرف متوجہ هوکر کہا:
آپ خوب اچھی طرح جانتے هیں کہ آپ کے شهر مدینہ سے نکالے جانے کا سبب میں هوں، میں زبردست قسم کھا کر کہہ رها هوں کہ اگر آپ نے متوکل یا اس کے درباریوں اور بیٹوں کے سامنے میری شکایت کی تو (مدینہ میں) موجود آپ کے تمام درختوں میں آگ لگادوں گا، آپ کے غلاموں و خادموں کو مار ڈالوں گا، آپ کی کھیتی کے چشموں کو بند کردوں گا اور آپ یقین جان لیں کہ میں یہ کام کروں گا ۔
امام (ع) نے اس کی طرف رخ کر کے فرمایا: تمهاری شکایت کا سب قریبی راستہ خدائے متعال کے پاس تھا اور میں نے گذشتہ رات پروردگار عالم سے تیری شکایت کردی اور اس کے علاوه الله کے بندوں میں کسی کے پاس نهیں کروں گا ۔
بریحہ نے جیسے هی امام (ع) کا یہ کلام سنا فوراً حضرت (ع) کا دامن پکڑ کر رونے لگا اور معافی مانگنے لگا۔
امام (ع) نے فرمایا: میں نے تمهیں معاف کر دیا ۔
4- دلوں میں رعب اور دبدبہ:
ائمہ معصومین (ع) خداوند عالم کی قدرت و عظمت کے مظاهر، ذات مقدس پروردگار کے کلمات و حکمت کے معادن اور اس کی تجلّیات کے منبع و مرکز اور خاص انوار هیں، اسی بنیاد پر یہ حضرات ایک غیر معمولی معنوی قدرت کے حامل تھے اور لوگوں میں خاص مقام و مرتبہ اور رعب و دبدبہ رکھتے هیں:
“طَأْطَأَ كُلُّ شَرِيفٍ لِشَرَفِكُمْ وَ بَخَعَ كُل‏ مُتَكَبِّرٍ لِطَاعَتِكُمْ وَ خَضَعَ كُلُّ جَبَّارٍ لِفَضْلِكُمْ وَ ذَلَّ كُلُّ شَيْ‏ءٍ لَكُمْ” هر شریف و بزرگ نے آپ کی شرافت و عظمت کے سامنے سرخم کردیا هے اور هر متکبّر و مغرور نے آپ کی اطاعت کی هے اور هر جابر و ظالم نے آپ کے فضل و کرم کے مقابلے میں سر جھکادیا هے اور ساری چیزیں آپ کے سامنے ذلیل و خوار هوگئی هیں ۔
زید بن موسی۔ نے کئی بار (عمربن فرخ) کا کان بھرا اور اس سے درخواست کیا کہ اسے اس کے بھتیجے (امام علی نقی علیہ السلام) پر ترجیح دے، اسی کے ساتھ یہ بھی کہتا تھا، وه جوان هیں اور میں ان کے والد کا چچا هوں۔ عمر نے اس کی بات امام علی نقی (ع) سے بیان کردی، امام (ع) نے فرمایا:
تم ایک بار یہ کام کرو، کل مجھے ان سے پہلے بزم میں بٹھا دو، اس کے بعد دیکھو کیا هوتا هے ۔
دوسرے دن عمر بن فرخ نے امام علی نقی (ع) کو بلایا اور حضرت کو بزم میں صدر مقام پر بٹھایا، اس کے بعد زید کو آنے کی اجازت دی۔ زید، امام کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا ۔
جب پنجشنبہ کا دن آیا تو پہلے زید کو داخل هونے کی اجازت دی اور صدر مجلس میں بٹھایا، اس کے بعد امام سے اندر آنے کی درخواست کی، امام (ع) اندر داخل هوئے جس وقت زید کی نظر امام (ع) پر پڑی اور امام کی هیبت و جلالت کو ان کے رخسار پر دیکھا تو اپنی جگہ سے کھڑا هوگیا، امام کو اپنی جگہ پر بٹھایا اور خود امام کے سامنے بیٹھا ۔
۵- مشکلوں اور گرفتاریوں کا سدّ باب:
تاریخ نے کافی تعداد میں لوگوں نے نام درج کئے هیں جنهوں نے مشکلوں اور پریشانیوں میں دسویں امام (ع) کے پاس رجوع کیا هے اور آپ کے محضر مبارک سے ان کی خوشیاں دوباره پلٹ آئی هیں، هم اختصار کے پیش نظر ایک نمونہ کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے هیں ۔
محمد بن طلحہ نقل کرتا هے: امام علی نقی (ع) ایک دن کسی اهم کام کی وجہ سے سامره سے ایک دیہات کی طرف جارهے تھے ۔ اسی دوران ایک عرب نے امام (ع) کے بارے میں معلوم کیا تو اس کو بتایا گیا کہ امام (ع) فلان دیہات کی طرف روانہ هوئے هیں، وه عرب اس قریہ کی طرف چلنے لگا۔ جب وه حضرت کے محضر مبارک میں پہونچا تو اس نے کہا: میں کوفہ کا رهنے والا هوں اور آپ کے جد بزرگوار امیرالمؤمنین (ع) کی ولایت کے متمسّکین میں سے هوں، لیکن بڑے بھاری قرض نے میری کمر توڑ دی هے، وه اس قدر بھاری هے کہ میں اسے تحمّل کرنے کی تاب نهیں رکھتا هوں۔ اور آپ کے علاوه میں کسی کو نهیں پہچانتا کہ وه میری ضرورت کو پورا کرسکے۔ امام (ع) نے پوچھا: تمهارا قرض کتنا هے ؟ اس نے عرض کیا: تقریباً دس هزار درهم ۔
امام(ع) نے اسے تسلّی دی اور فرمایا: تم ناراض نہ هو تمهاری مشکلیں حل هوجائیں گی۔ میں جو حکم تمهیں دوں اس پر عمل کرو اور اس کے انجام دینے میں تکلّف نہ کرنا۔ یہ میرا نوشتہ اپنے پاس رکھو۔ جب تم سامره میں آؤ تو اس ورقہ میں لکھے هوئے مبلغ کا مجھ سے مطالبہ کرو، هرچند لوگوں کے مجمع میں هو اور اس کام میں ذرّه برابر کوتاهی سے کام نهیں لینا۔
امام کے سامره واپس هونے پر وه مرد عرب، حضرت کے محضر مبارک میں آیا جبکہ خلیفہ کے جاسوس، ایجنٹ اور کچھ لوگ وهاں بیٹھے هوئے تھے، اس آدمی نے امام کا لکھا هوا خط انهیں دکھا کر اپنے قرض کا مطالبہ اور اصرار کرنے لگا ۔
امام(ع) نے بڑی نرمی و مهربانی سے اس کی تاخیر کی معذرت خواهی کی اور اس سے مهلت کی درخواست کی تاکہ مناسب وقت پر اسے ادا کریں، اس نے کہا مجھے ابھی چاهئے ۔ یہ ماجرا متوکل تک پہونچا ۔ اس نے دستور دیا کہ تیس هزار دینار امام کو دیئے جائیں۔ امام نے ان تمام دیناروں کو لے کر اس مرد عرب کے حوالہ کردیا، اس نے دیناروں کو لے کر کہا: خداوند عالم بہتر جانتا هے کہ اپنی رسالت کو کس خاندان میں قررا دے۔
امام علی نقی (ع) سے درباری فقهاء کا سامنا:
اس کے باوجود کہ خلفائے بنی عباس کی سازش یہ رهی هے کہ لوگوں کو درباری فقهاء کی طرف متوجہ کریں اور ان کے فتؤوں کو قانونی حیثیت دیں، لیکن جس زمانے میں امام علی نقی (ع) سامره میں قیام پذیر تھے، کئی بار درباری فقهاء کے درمیان فتوے میں اختلاف هوا اور مجبور هوکر مشکل کے حل کے لئے امام (ع) کے پاس رجوع کرتے اور حضرت (ع) علم امامت اور واضح استدلال کے ذریعہ اس طرح مسئلہ کی حقیقت کو شگافتہ کرکے بیان کرتے جس سے درباری فقهاء کی تحسین و آفرین کی صدائیں بلند هوجاتی تھیں۔
الف: ایک دن ایک عیسائی کو متوکّل کے دربار میں لایا گیا جس نے مسلمان عورت سے زنا کیا تھا، متوکل نے چاها کہ اس پر شرعی حد جاری کی جائے۔ اس وقت عیسائی مسلمان هوگیا۔ یحییٰ بن اکثم جو قاضی القضاة تھا اس نے کہا: اس کے اسلام لانے کی وجہ سے اسلام نے اس کے کفر اور عملِ (زنا) کو مٹا دیا هے اس پر حد نهیں جاری هونی چاهیئے، دوسرے درباری فقهاء نے کچھ اور فتویٰ دیا۔ فتؤوں اور آراء میں اختلاف کی وجہ سے متوکل مجبور هوا کہ اس مسئلہ کو امام علی نقی (ع) سے پوچھے ۔ مسئلہ کو امام کی خدمت پیش کیاگیا۔ امام (ع) نے جواب دیا: “اسے اس قدر کوڑے لگائے جائیں تاکہ وه مرجائے” ۔
امام (ع) کے اس فتویٰ پر یحییٰ بن اکثم اور دوسرے فقهاء نے بڑی شدّت سے اختلاف کیا اور ان لوگوں نے کہا: یہ فتوا کسی آیت اور روایت میں موجود نهیں هے اور متوکل سے درخواست کی کہ امام کے پاس خط لکھ کر اس فتوے کی دلیل پوچھے، متوکل نے اس موضوع کو امام (ع) کی خدمت میں لکھا، امام (ع) نے اس کے جواب میں بسم الله کے بعد لکھا: }فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنا قالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَ كَفَرْنا بِما كُنَّا بِهِ مُشْرِكينَ، فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إيمانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنا سُنَّتَ اللَّهِ الَّتي‏ قَدْ خَلَتْ في‏ عِبادِهِ وَ خَسِرَ هُنالِكَ الْكافِرُونَ{۔[19]، پھر جب انہوں نے همارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ هم خدائے یکتا پر ایمان لائے هیں اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کررهے هیں، تو عذاب کے دیکھنے کے بعد کوئی ایمان کام آنے والا نہیں تھا کہ یہ اللہ کا مستقل طریقہ هے جو اس کے بندوں کے بارے میں گزر چکا هے اور اسی وقت کافر خسارہ میں مبتلا هوجاتے هیں۔
متوکّل نے امام(ع) کے مدلّل جواب کو قبول کرتے هوئے حکم دیا کہ زانی پر امام (ع) کے فتوے کے مطابق حد جاری کی جائے ۔
ب: ایک بار متوکّل بیمار هوا اور نذر مانی کی اگر اسے شفاء مل گئی تو (کثیر) تعداد میں دینار (سونے کا سکہ) خدا کی راه میں صدقہ دے گا، جب وه اچھا هوگیا تو فقهاء کو جمع کیا اور پوچھا میں کتنی مقدار میں صدقہ دوں کہ اسے (کثیر) شمار کیا جائے؟ فقهاء نے اس سلسلہ میں الگ الگ فتوے دیئے، تو متوکّل نے مجبور هوکر مسئلہ کو امام (ع) کی خدمت پیش کیا، امام (ع) نے جواب دیا کہ83/ دینار صدقہ دو، فقهاء نے اس فتوے پر تعجّب کیا اور متوکّل سے کہا: ان سے سوال کرو کہ یہ فتویٰ کس دلیل کی بناپر دیا هے، متوکل نے امام (ع) کی خدمت میں موضوع کو بیان کیا، حضرت نے فرمایا: خداوند عالم نے قرآن میں ارشاد فرمایا هے: }لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ في‏ مَواطِنَ كَثيرَةٍ{ ، بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی هے ۔
همارے خاندان کے تمام افراد نے روایت کی هے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانے کی سبھی جنگیں اور سریہ ملا کر 83/ هیں ۔
http://www.ardebili.com/
ض۔ض۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here