اردو کی بقاء، تحفظ اور ترویج و اشاعت کے موضوع پر المعہد العالی امارت شرعیہ (بہار)کے کانفرنس ہال میں امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی کی صدارت میں اردو تحریک سے وابستہ اہم افراد، ملی، سماجی و سیاسی کارکنان، اردو کے اساتذہ، دانشوران ا ور نمائندہ شخصیات کا ایک اہم مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔جس میں اردو کودر پیش آئند ہ مسائل اور اس کے حل پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی گئی، مقررین نے قومی تعلیمی پالیسی کے حوالہ سے اردو کو پیش آنے والے اندیشوں اور خطرات کی طرف بھی نشان دہی کی گئی۔یہ بھی کہا گیا کہ اردو ہم سے آرزومندی دردمندی، فکر مندی کی طلبگار ہے، اردو چاہتی ہے کہ جو اہل زبان کی زبان پر ہے اس کے لئے وہ زبان کھولیں، جو ان کے خیالات، احساسات جذبات کوعام کرتی ہے، اور دوسروں کے کانوں میں رس اور مٹھاس گھولتی ہے، اسے طاقت پہنچائی جائے اردو کو دودھ پینے والے مجنوں سے واسطہ رہا ہے، اب اسے خون دینے والے مجنوں کی بھی ضرورت ہے۔
امیر شریعت ولی رحمانی نے اردو کیسے بچے گی، کس طرح پھلے پھولے گی اس کے لیے نسخہ اکسیر بتاتے ہوئے کہا کہ ہم اردو بولیں گے، لکھیں گے، اردو کو پھیلائیں گے، تو اردو آگے بڑھے گی، ترقی کرے گی، آنے والی نسل کو اردو پڑھائیں گے، انہیں تہذیب سے آراستہ کریں گے، تو سماج میں شائشتگی اور تمیز آئے گی، پروفیسر رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری نے غیر مسلم اردو مصنفین کے اجلاس میں یادگار جملہ کہا تھا، ”ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل اردو سیکھے، تاکہ انہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھنے اور بولنے کا سلیقہ آجائے“۔ زبانیں تو سب پیاری ہیں، اردو کا کمال یہ ہے کہ جہاں سے بھی گزرتی ہے، سلیقہ چھوڑ جاتی ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی کے حوالہ سے ولی رحمانی نے کہا کہ اس پوری تعلیمی پالیسی میں کہیں اردو کا ذکر نہیں ہے، جبکہ ابھی شمالی ہندوستان میں رابطہ کا ایک بڑا ذریعہ اردو ہے، جسے زبردستی ہندی کہا جاتا ہے، اب نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے ذریعہ ایسی کوششوں کو آگے بڑھایا جائے گا، اور اردو کے لئے راہیں بند کی جائیں گی۔ آپ نے شرکاء سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آپ حضرات اردو والے ہیں، اردو کے لئے جو ادارے اور شخصیتیں کام کرتی رہی ہیں، انہیں بھی یہاں جمع کرنے کی کوشش کی گئی، پورے بہار میں صدا لگا دی گئی، تاکہ اردو کا نیا کارواں تیار ہوسکے، نئے جوش اور نئے ارادہ کے ساتھ، امارت شرعیہ نے محسوس کیا کہ اردو کے محاذ پر سناٹا مہیب ہوتا جا رہا ہے، توایک جوابدہ ادارہ کی حیثیت سے اس کے نمائندے بہار کے اضلاع میں پہنچے، عوام و خواص کو جھنجھوڑا، انہیں ذمہ داری یاد دلائی اور پورے بہار میں حرکت پیدا کی، اب یہ عوامی طاقت آپ کے ساتھ ہے، اردو والے اس سے کام لیں۔
ولی رحمانی نے کہا کہ امارت شرعیہ تو فکر والوں، درد والوں کا کارواں ہے۔ اب آپ کمان سنبھالیں، جو تنظیمیں، انجمنیں ادارے ہیں، وہ احساس شکر کے ساتھ ادائے فرض کی نیت سے اپنی ذمہ داری نبھائیں اور مشترکہ کوششوں کی راہ اپنائیں، آپ چاہیں گے توامارت شرعیہ آپ کے ساتھ خادمانہ پیچھے پیچھے چلے گی۔ تمہیدی گفتگو کرتے ہوئے امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی نے کہا کہ یہ میٹنگ ایسے وقت میں امیر شریعت کے حکم پر بلائی گئی ہے، جو وقت اردو کے لیے کھڑے ہونے کا ہے، اور اس کے لیے فکر کرنے کا ہے، اس نشست پر پورے ملک کی نگاہ ہے، آپ کے فیصلوں کا لوگوں کو انتظار ہے، ہمیں امید ہے کہ یہ اجلاس پورے ملک میں اردو کی ترقی کے تعلق سے سنگ میل ثابت ہو گا۔ انشاء اللہ آپ کے فیصلوں سے اردو کا مستقبل روشن ہو گا۔
سچائی یہ ہے کہ اردو تحریک کے اندر زندگی پیدا کرنے کے لیے ایک طویل مدتی منصوبہ بنانے اور صبر و ضبط کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے، اس کام کے لیے ترجیحات متعین کرنا ہوں گی۔ اپنی عددی قوت کا ثبوت دینا ہوگا اور دیوانگی کے ساتھ کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہم اجلاس سمینار اور مذاکرے تو منعقد کر لیتے ہیں۔بری بڑی باتیں بھی کر اور کہہ لیتے ہیِ جو اخبارات کی سرخیاں بن جاتی ہیں لیکن زمینی سطح پر کرنے کو کام کوئی نہیں کرتا۔دیکھا گیا ہے کہ اردو تحریک چالنے والے اور اس کے لئے زور زور سے آواز بلند کرنے والے ہی اپنے گھر میں ارو تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں کرتے۔نہ ہی ان اسکولوں میں اردو پڑھائے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں ان کے بچے لمبی لمبی فیس دے کر عصری تعلیم حاصل کرتےہیں۔جب تک زمینی سطح پر اردو کے لئے لو گ کام نہیں کریں گے تب تک اردو کا بھلا ہونے والا نہیں ۔وہ بھلا ہو امدارس عربیہ کا جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہے اس لئے اردو زندہ ہے اور جب تک مدارس ہیں اردو زندہ رہے گی۔
Also read