پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی
اردو میں تنقید، تجزیہ اور تبصرہ تین ایسے الفاظ ہیں جن کے ڈانڈے ایک دوسرے سے بہت حد تک ملتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مفہوم کے اعتبار سے تینوں ایک دوسرے کے عکاس ہیں۔لفظیات کے اس جڑاؤ میں اردو والوں کی اپنی سہل پسندی ہے۔ ترسیلاتی اور حسیاتی پیکر کو ہم نے وابستہ کرلیا ہے اور منفرد اور ممیز ہونے کو صرف نظر کر دیا ہے۔ اضطراب اور احساسات کی یہ نفسیات ہی ہے کہ کتابوں اور رسالوں پر تبصرہ کرنے کا رواج عام ہے تاکہ خوشبو کا قطرہ قطرہ سامنے آسکے، لطافتوں کا عمیق دریا موجزن ہوسکے اور قابل قبول رویے کی غمازی تک رسائی ہوسکے۔ اس طرح ذات اور تخلیق کی خود شناسی تک پہنچنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔
فروری 1936 کے رسالہ ’’شاہکار‘‘ میں علامہ تاجور نجیب آبادی نے اصول تبصرہ بیان کیا تھا جسے یہاں دہرانا سود مند سمجھتا ہوں تاکہ ’’خوشگوار تعلق‘‘ کا فن واضح ہوسکے۔ کسی کتاب پر تبصرہ کرتے وقت حسب ذیل امور کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
۱۔کتاب کا ناشر کون ہے؟
۲۔کتاب کی قیمت حسب حیثیت ہے یا کم وبیش۔
۳۔کتاب کا نام اس کے موضوع کے مطابق ہے یا نہیں؟ قاری یا خریدار کو اس نام سے دھوکہ تو نہیں ہوسکتا؟
۴۔کتاب کی تقطیع اور ضخامت کتنی ہے اور اس کی طباعت و کتابت کیسی ہے؟
۵۔کتاب کا موضوع کیا ہے۔ اور وہ کن لوگوں کے لیے موزوں ہے؟
۶۔کتاب کی خصوصیت کیا ہے؟ بیان یا خیالات یا جذبات؟ یہ خصوصیات موضوع سے مطابقت رکھتی ہیں یا نہیں؟ مثلاً سفر نامے میں احوال وکوائف کو خصوصیت حاصل ہونی چاہیے۔ فلسفے میں خیالات کواور شاعری میں جذبات کو ۔اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ خصوصیت کتاب اعتدال سے تجاوز تو نہیں کر گئی ہے۔ مثلاً سفر نامے میں بیان کو اس قدر طویل تو نہیں کردیا گیا ہے کہ غور وفکر کی گنجائش بھی باقی نہ ہو؟ یا فلسفے کی کتاب میں اتنے ٹھوس خیالات تونہیں ہیں کہ ان میں بیانات وجذبات کا مطلق دخل نہ ہو۔
۷۔ بیان کے بارے میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جو تصویریں کھینچی گئی ہیں آیا وہ صحیح اور واضح ہیں؟ وہ تجربات کا نتیجہ ہیں یا خیالات کا؟ اگر طبع زاد ہیں تو ممکن ہیں یا ناممکن؟ کیا ان تصویروں کے لیے مصنف نے ناظرین کو پہلے سے تیار کردیا ہے؟ یعنی کتاب میں ایسی بات تو نہیں ہے جس کے لیے پڑھنے والا پہلے سے تیار نہ ہو؟ کیابیانات میں کچھ دلچسپی ہے؟ کیا ان میں کچھ رواج کی آمیزش ہے؟ اگر ہے تو موزوں ہے یا ناموزوں ؟ کیا بیانات میں باہم تناسب و تطابق ہے؟ کیا ان میں کوئی عمل ہے؟ اور ہے تو سمجھ میں آتا ہے یا نہیں؟
۸۔ خیالات کی نسبت یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ قدیم ہیں یا جدید۔ مصنف کی مرجح رائے کیا ہے؟ دوسری رائیں اس سے مطابقت کرتی ہیں یا نہیں! مصنف اپنے اصل خیال کے اظہار میں کہاں تک کامیاب ہوا ہے۔
۹۔ جذبات کے بارے میں یہ جاننا چاہے کہ وہ فطری ہیں یا غیر فطری؟ جذبۂ خاص کیا ہے اور دوسرے جذبات اس کی مطابقت کرتے ہیں یا نہیں؟
۱۰۔ مصنف اپنے بیان میں خیالات وجذبات کے اظہار میں فریب تو نہیں دے رہا ہے۔ اس نے جو کچھ لکھا ہے اس پر اسے خود اعتماد و اعتبار ہے یا نہیں؟ اگر مصنف کا کوئی مقصد ہے تو کیا ہے؟
۱۱۔ تصنیف میں مصنف کی شخصیت کا کتنا اثر ہے ؟ وہ اپنی سرگزشت لکھتا ہے یا دنیا کی داستان؟ کتاب میں موجودہ سوسائٹی کا کتنا عکس ہے؟
۱۲۔ زبان اور طرز تحریر کے بارے میں یہ جاننا چاہیے کہ کیا مصنف نے مروجہ زبان استعمال کیا ہے؟ کیا زبان میں اس کا خاص رنگ موجود ہے؟ زبان میں قواعد زبان کی پابندی کی گئی ہے یا نہیں؟ زبان غیر واضح تو نہیں ہے کہ ایک جملہ کے دو معنی لیے جا سکیں؟ کیا الفاظ کی کثرت تو نہیں ہے؟ کیا خیالات و جذبات کا توازن درست ہے؟
۱۳۔کتاب کا جمہور پر کیا اثر پڑے گا؟ لوگ اسے سمجھ سکیں گے یا نہیں؟کیا اس سے علم وعقل میں کچھ اضافہ ہوگا؟ اس سے تعلیم و تعلم و دلچسپی دونوں چیزیں حاصل ہوتی ہیں یا ایک؟ یا ایک بھی نہیں؟ کتاب اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکی ہے یا نہیں؟ خود تبصرہ نگار پر اس کتاب کا کیا اثر پڑا ہے؟
مندرجہ بالا اصول کتابی ہیں۔ یہ وسیلے مبصر کو متوجہ نہیں کرتے بلکہ صرف اثباتی قدروں تک پہنچتے ہیں اور سکون آشنا بناتے ہیں۔
حقانی القاسمی اردو تنقید کا اہم نام ہے۔ ان کی تنقید کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ برہمی، خفگی اور ضعیف الاعتقادی سے کام نہیں لیتے بلکہ دیانتداری سے ذہنی صحت مندی کو تنقید میں بروئے کار لاتے ہیں۔
حقانی القاسمی صحافت سے جڑے رہے ہیں اس لیے بھی کتابوں پر تبصرے کرتے رہے ہیں۔ وہ موضوع کے نتائج پر پہنچ کر روشن پہلو کا انکشاف اپنے تبصرے میں کرتے ہیں۔ تخلیق کے بطون تک رسائی حاصل کرکے حقیقی قدر وقیمت کا تعین کرنا ان کی تبصرہ نگاری کی پہچان ہے۔ چونکہ وہ وسیع مطالعہ اور وسیع القلمی سے لبریز ہیں اسی لیے تبصرہ کو باز آفرینی کا وسیلہ بنا دیتے ہیں۔ تبصراتی جوہر کے لمس سے نکتہ ہائے نگاہ کو اظہار وفن بنانا انہیں خوب آتا ہے۔ وہ کتاب یا تخلیق کی سانس لیتی زندگی کی دھڑکنوں کو سن کر محسوس کرکے احتیاط وسلیقہ مندی سے لفظیات کا پیراہن بخشتے ہیں اور تبصرے کو صفحۂ قرطاس پر اتارنے کے لیے احساسات کی شدت اور مشاہدۂ نظر کو بروئے کار لاتے ہیں۔ نئے افق سے آشنائی کی ایک مثال پروفیسر ارتضی کریم کی کتاب ’’اردو فکشن کی تنقید‘‘ پر حقانی القاسمی کے تبصرہ سے یہ اقتباس ملاحظہ کریں:
’’فکشن کا المیہ یہ ہے کہ نہ اس کی شعریات منظم و مربوط طور پر مرتب کی گئی ہے۔ نہ ہی ایسے اصول و ضوابط وضع کیے گیے ہیں جو شاعری کی تنقید سے مختلف ہوں اسی لیے عمومی تاثر یہ ہے کہ شاعری کی تنقید کے مقابلے میں فکشن کی تنقید کمزور ہے۔ فکشن کے باب میں یوں بھی ایسی معروضی تنقید کم ہے جس میں زبان کے تفاعل اورمتن کے ساختئے پر گفتگو ہو۔ زیادہ تر فکشن ناقدین بیانیے کی تعبیر اور تشریح میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور فکشن کے نظری قضایا اور عملی اطلاقات نظر سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں اردو فکشن کی تنقید کے حوالے سے ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس میں فکشن تنقید کے تمام تر تناظرات اور ارتقائی سفر کا جائزہ لیا گیاہو۔ پروفیسر ارتضی کریم کو یہ اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے اردو فکشن کی تنقید کو اپنا موضوع اور محور بنایا اور فکشن تنقید کے تعلق سے جتنا بھی سرمایہ اردو ادب میں موجود ہے۔ اس کا محاسبہ اور محاکمہ کرتے ہوئے کچھ ایسے نتائج بر آمد کیے جس سے یہ اندازہ ہوا کہ اردو میں افسانے کی تنقید کم ضرور لکھی گئی ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ افسانہ نگاروں کو یہ شکایت ہوکہ اس صنف کی طرف ناقدین کی توجہ کم رہی ہے۔ ارتضی کریم نے اپنی کتاب اردو فکشن کی تنقید میںاردو میں فکشن تنقید سے متعلق لکھی گئی کتابوں اور مقالوں کے مباحث کا بہت ہی عمدہ تجزیہ کیا ہے اور افسانوی ادب کی تنقید کے ارتقائی سفر کا مکمل منظر نامہ پیش کیا ہے۔‘‘
حقانی القاسمی نے اس تنقیدی کتاب کی اثر آفرینی، معنویت اور تہہ داری کو اجاگر کیا ہے۔ لیکن اپنے تبصرے میں انھوں نے ایک گرفت بھی کی ہے۔
’’یہ کتاب شاید بہت پہلے لکھی گئی تھی اس لیے اس میں وہ تمام مقالے اور کتابیں شامل نہیں ہیں جو دوہزار کے بعد فکشن تنقید کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہیں۔‘‘
یہاں حقانی القاسمی اور قارئین کی جانکاری کے لیے عرض ہے کہ ڈاکٹر ارتضی کریم کی یہ کتاب پہلی بار تخلیق کار پبلشرز دہلی سے 1996 میں شائع ہوئی تھی۔ پھر 1997ء میں پاکستان سے شائع ہوئی۔ اور 2016ء میں قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی نے شائع کی ہے۔ تبصرہ لکھتے وقت حقانی القاسمی کے پیش نظر قومی کونسل والا ایڈیشن رہا ہے۔
غالب کی شاعری پر اور ان کے خطوط پر بہت لکھا گیا ہے اور نئی جہتیں تلاش کی گئی ہیں۔لسانی مباحث کے حوالے سے بھی بحثیں ہوئی ہیں اور املا و علم عروض کے اشارات ونکات بھی تلاش کیے گئے ہیں ۔ ڈاکٹر مشیر احمد کی کتاب ’’خطوط غالب کے ادبی مباحث‘‘ شائع ہوئی تو اس میں مفرد اور مرکب الفاظ کے بارے میں قابل توجہ کام کی خوبیوں کو بیحد سراہا گیا کیونکہ ادب اور لسانیات کے تعلق سے غالب کے خیالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حقانی القاسمی خود بھی زبان پر دسترس رکھتے ہیں اس لیے نئی اظہاریت کے عناصر کو پیش نگاہ رکھ کر ڈاکٹر مشیر احمد کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’ تحلیل، تدوین اور تکوین تحقیق کے تلازمے ہیں اور یہی تلازمے تحقیق کو استناد عطا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مشیر احمد کی کتاب ’’خطوط غالب کے ادبی مباحث‘‘ میں تحقیق کے یہ عناصر نمایاں ہیں، اس لیے تحقیق کے نقطۂ نظر سے تو یہ کتاب اہم ہے ہی ویسے اس کی معنویت بھی مسلم ہے کہ پہلی بار نثر غالب کی منطق اورمنطقے پر ایک نئے زاویے سے تحقیق کی گئی ہے۔‘‘
حقانی القاسمی اپنے تبصرے میں جس دانشورانہ عمل سے دستخط ثبت کرتے ہیں اس سے معلومات میں اضافہ ہوتاہے ۔ معین احسن جذبی کی کتاب ’’حالی کا سیاسی شعور‘‘ تنقیدی ڈسکورس کا حصہ ہے جسے حالی کے حوالے سے جذبی نے دریافت کیا ہے ہ حالی اپنے عہدکے مسائل سے آگاہ تھے ان کے تعلیمی تصورات کی نوعیت جداگانہ ہے اور وہ جس منزل کی نشاندہی کرتے ہیں اس کے امتیازات الگ ہیں، اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے حقانی القاسمی نے سیاسی، مذہبی اور سماجی کشمکش اور حالی پر جذبی کے نظریے کی ایک طرح سے وضاحت کی ہے:
’’ سر سید اور حالی کے سیاسی افکار میں نقطۂ افتراق کی تلاش ہی معین احسن جذبی کی اس کتاب کا اختصاص ہے، یہ اس حالی کی دریافت ہے جس کا سیاسی، سماجی، تعلیمی اور صنعتی شعور بہت بالیدہ تھا۔جس نے مشینی صنعت اور آزاد تجارت کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ ’’جس ملک یا قوم کا دارومدار ملازمت پر ہوتاہے وہ مرفہ الحال نہیںہوسکتی۔ ان کی قدرتی قوتیں ہمیشہ پژمردہ رہتی ہیں اور رفتہ رفتہ بالکل فنا ہوجاتی ہیں، لیکن جہاں صنعتوں اور حرفتوں کا دروازہ کھل جاتاہے وہاں یہ سمجھنا چاہیے کہ قومی زندگی کی بنیاد پڑ گئی ہے۔‘‘ اگر یہ کتاب نہ لکھی جاتی تو ہماری نسل حالی کی آدھی ادھوری شخصیت سے ہی آگاہ ہوجاتی ، معین احسن جذبی کا یہ کارنامہ قابل فخر ہے کہ انھوں نے ادبی معاشرے کو مکمل حالی سے متعارف کرانے کی کوشش کی اور ان کے کلام سے ان کی تخلیقی شخصیت کے علاوہ سیاسی شخصیت کا سراغ لگانے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ کتاب صرف حالی کی سیاسی بصیرت کی مکمل شہادت ہی نہیں بلکہ معین احسن جذبی جیسے ترقی پسند شاعر کی گہری بصیرت کا بھی ثبوت ہے۔‘‘
انسانی اقدار، اخلاقی معیار، سادگی، سلاست، روانی، سوز وگداز، جدت، ندرت، شگفتگی اور سائستگی جیسے الفاظ فیض احمد فیض کی شاعری کے لیے مختص ہیں، ان کی سوچ کا کینوس بڑا ہے اسی لیے پہلودار ہے اور گہرائی وگیرائی لیے ہوئے ہے۔ مرغوب علی نے کتاب ’’فیض احمد فیض احوال وا فکار‘‘ مرتب کی جس میں تعین قدر کا ایک الگ معیار ہے۔ اس کتاب میں قرۃ العین حیدر، اختر جمال، خدیجہ بیگم، اندر کمار گجرال، ایلس فیض، جعفر علی خاں اثر، رشید حسن خاں، حمید نسیم، ظ۔ انصاری، راہی معصوم رضا، باقر مہدی، آغا سہیل، مسعود حسن خاں، شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، کلیم الدین احمد، احتشام حسین، شوکت سبزواری، سلیم اختر، ساقی فاروقی، اختر شاہجہانپوری، احمد ندیم قاسمی، طاہر مسعود، مشفق خواجہ، سرفراز اقبال اور انیس امروہوی کی تحریریں بالترتیب شامل ہیں، اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے حقانی القاسمی نے سبھی مضامین پر مختصراً روشنی ڈالی ہے اور فیض کے یہاں خوبی اور خامی کے نکات سے آشنا کرایا ہے۔ اس کتاب میں دونوں پہلو کی نشاندہی کرنے والے مضامین شامل ہیں۔ حقانی القاسمی نے اپنی مبصرانہ صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے لکھا ہے:
’’تنقید میں بونوں کو بانس پر چڑھانے کی روش عام ہوچکی ہے۔ اسی لیے تنقید کی میزان میں محاسن اور معائب دونوں کو پرکھنا چاہیے اور یہی تعین قدر کا صحیح معیار ہے۔مرغوب علی نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’’فیض احمد فیض، احوال و فکار‘‘ میں ایسی تحریریں جمع کی ہیں جن سے فیض کی مکمل تخلیقی شخصیت سامنے آسکے۔ اسی لیے انھوں نے بعض وہ تحریر یں بھی شامل کی ہیں جو فیض کے حق میں نہیں جاتیں مگر اس سے فیض احمد فیض کی ایک جہت روشن ہوتی ہے۔ فیض کو اردو شاعری میں جو محبوبیت ملی ہے وہ بہت کم شخصیتوں کو نصیب ہوتی ہے۔‘‘
اردو فکشن میں عصمت چغتائی بے باک، جنسی اور نفسیاتی حقیقت نگار، عورتوں کو وجودیاتی تشخص کا عرفان عطا کرنے والی اور نسائی معاشرے کو نئی فوٹوگرافی سے دیکھنے والی قلمکار کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ انھوں نے جہالت اور نا خواندگی، بے جا رسم، معاشی پسماندگی، جنسی نا آسودگی، جہیز، ذات پات، تحریک آزادی، تقسیم ہند اور فسادات کو اپنے افسانوں اور ناولوں کا حصہ بنایا ہے جن میں خصائل اور خصائص کو ملحوظ رکھا ہے۔ ڈاکٹر توحید خاں کی کتاب ’’عصمت چغتائی: فکر وفن‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے حقانی القاسمی نے اس کتاب کے چاروں ابواب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ایک توانا آواز کے آفاقی پیغام کی ترجمانی کا مطالعہ پیش کیا ہے:
’’ڈاکٹر توحید خاں نے ان چاروں ابواب میں اپنی مطالعاتی وسعت، تفہیمی قوت اور گہری علمیت کا بھرپور ثبوت دیا ہے۔ انھوں نے عصمت چغتائی کے افسانے کی روح میں اتر کران مسائل اور موضوعات کو تلاش کیا ہے جو ان کے افسانے میں پنہاں تھے۔ یہ مسائل سماج کے ہیں اور ظاہر ہے کہ عصمت چغتائی نے سماجی رسومات اور رویوں سے بغاوت کی تھی اور سماج کی عمومی فکر سے انحراف بھی کیا تھا، اس لیے مسائل اور موضوعات کے حوالے سے عصمت چغتائی کا مطالعہ واقعتاً ایک اہم باب کی بازیافت اور ایک نئے زاویے کی جستجو ہے۔ ڈاکٹر توحید خاں اپنے اس مطالعے میں اس اعتبار سے کامیاب ہیں کہ انھوں نے ‘‘ سماج کے اہم مسائل کو عصمت چغتائی کے فکری تناظر میں دیکھا اور ان مسائل کی تخلیقی تعبیر یں تلاش کیں ۔‘‘
حقانی القاسمی نے سینکڑوں تبصرے کیے ہیں اور نئی پرانی شخصیتوں اور اصناف پر لکھی کتابوں کو استناد و اعتبار بخشا ہے۔ انھوں نے آفاقی پہلو پر نظر رکھی ہے۔ حقائق کی تلاش کی ہے، منطقی استدلال کے دائرے کو وسیع کیا ہے اور تبصراتی سرمایے میں وسیع پیمانے پر اضافہ کیا ہے۔ اردو کے دقیقہ سنج مترجم، محقق، ناقد اور لغت نویس ڈاکٹر عصمت جاوید کے انتقال کے بعد ان کی بکھری ہوئی تخلیقات کو ان کی بیگم منور جہاں اور محمد اسلم غازی نے ’’باقیات عصمت جاوید ‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے جس پر حقانی القاسمی نے فکر انگیز اور معنی خیز تبصرہ کیا ہے۔ ’’باقیات عصمت جاوید‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے حقانی القاسمی رقمطراز ہیں:
’’اس کتاب میں مختلف نوعیت کے مضامین شامل ہیں، بیشتر تحریر یں ایسی ہیں جن سے قاری کو ایک نئے زاویہ نظر سے آگہی ہوتی ہے۔ اور ان کی معلومات کا دائرہ بھی وسیع ہوتاہے۔ جو چند مضامین علمی اور ادبی اذہان کے لیے فکرانگیز اور معنی خیز ہوسکتے ہیں ان میں فن لغت نویسی، مسئلہ ارتقا، و ہوروف کا نظریۂ لسانیات اور تصورکائنات، زبانوں کی نوعیتی گروہ بندی، مراٹھی شاعری، پوواڑے اور لاؤنیاں، قرۃ العین حیدر سرزمین ایران کی قلوپطرہ اہم ہیں، ان کے علاوہ بھی اصناف سخن کے تعین کا مسئلہ، فن تاریخ گوئی، حروف علت کا سقوط، املا نامہ، معیاری زبان کا تعین، اردو ادب میں رومانی تحریک، رباعی کے اوزان، طریقہ مہمل، ملک محمد جائسی کی پدماوت، اقبال اور مناظر قدرت، اقبال کا شعری اسلوب اہم مضامین ہیں۔‘ ‘
عصمت جاوید بین علومی مطالعات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے مضامین میں مطالعاتی ارتکاز اور گہری علمیت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ مسئلہ ارتقا پر ان کے ایک مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے حقانی القاسمی لکھتے ہیں:
’’مسئلہ ارتقا پر مضمون بہت تحقیقی اور استدرا کی نوعیت کا ہے جس میں انھوں نے بہت سی غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے دلائل سے واضح کیا ہے کہ ’’تصور ارتقا کا باوا آدم ڈارون نہیں تھا۔‘‘
انھوں نے لکھا ہے کہ نظریۂ ارتقا کا سراغ ہمیں قبل مسیح بھی ملتا ہے۔ اگر تاریخ فلسفہ میں اس نظریہ کی کھوج لگائی جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ افلاطون اور ارسطو سے بہت قبل چند یونانی فلسفی یہ نظریہ اپنی ابتدائی شکل میں پیش کرچکے تھے۔ اسبارن کی تصنیف ’’یونانیوں سے ڈارون تک‘‘ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتاہے کہ الیگزنڈر نے پہلی بار بتایا کہ ابتدا میں ہمارا کرہ دیگر اجرام کی طرح سیال تھا۔ پھر عمل تبخیر کے باعث خشکی نمودار ہوئی۔ انھوں نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ ’’جاحظ پہلا شخص ہے جس نے اپنی مایہ ناز تصنیف‘‘’’ کتاب الحیوان‘‘ میں پرندوں کے نقل مکانی کے باعث پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا، اس کے بعد گیارہویں صدی میں ابن مسکویہ نے پہلی بار اسے ایک مستقل نظریہ کی صورت میں اپنی کتاب ’الفوزان الاصغر‘میں پیش کیا۔
حقانی القاسمی کے تبصرے مختلف جہتوں سے آگاہی پہنچاتے ہیں۔ گہری علمیت کا ثبوت دیتے ہیں۔ زبان کے معنیاتی پہلو سے نیا رشتہ جوڑ کر معانی کو نئی سمت دیتے ہیں اور بیان کے اسرار سے مفہوم کو اعتماد بخشتے ہیں، ان کے تبصرے تفصیلی ہوتے ہیں جن میں انفرادیت کے واضح نقوش ملتے ہیں۔
¡¡