Ambassador Martyr: Hazrat Sultan Ali Ibn Imam Muhammad Baqir (as)- سفیر شہید:حضرت سلطان علی ابن امام محمد باقر علیہ السلام

0
315

Ambassador Martyr: Hazrat Sultan Ali Ibn Imam Muhammad Baqir (as)

مولانا سید علی ھاشم عابدی
سن ۱۱۳ هہجری میں کاشان و فین کے مومنین نے حجت خدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ لکھا۔ ” مولا ہم آپ سے دور ہیں ہماری ہدایت کے لئے کوئی نہیں۔ آقا آپ اپنے کسی بیٹے کو ہمارے یہاں ہماری ہدایت کے لئے بھیج دیں” امام علیہ السلام نے قاصد سے کہا کہ تم کل تک رکو۔ میں اس سلسلہ میں خدا کی مرضی معلوم کرتا ہوں اگر مرضی معبود ہوئی تو اپنے نور نظر کو تمھارے ساتھ بھیج دوں گا۔ شب کو خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرما رہےہیں ” نور نظر (امام) محمد باقر (علیہ السلام) انکی درخواست رد نہ کرو بلکہ میرے نور نظر علی بن محمد کو انکے ساتھ بھیج دو تا کہ آخرت میں تم سے سوال نہ ہو۔” امام عالی مقام نے حکم رسول کے مطابق اپنے نور نظر کو قاصد کے ساتھ بھیجنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے سامان سفر کی آمادگی کا حکم دیا۔اور جب سفر کی تیاری مکمل ہو گئی تو حضرت سلطان علی بن امام محمد باقر علیھماالسلام کے لئے روانہ ہوئے اور جب آپ کاشان پہنچے تو تقریبا چھ ہزار مومنین نے آپ کا زبردست استقبال کیا۔ آپ جمعہ و جماعت کے علاوہ لوگوں کی ہدایت اور انکی مشکلات کو برطرف فرماتےتھے۔ کاشان و اطراف کے لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں آتے اور کسب فیض کرتے۔ آپ خط کے ذریعہ اپنی تمام سرگرمیوں، لوگوں کے پرجوش استقبال اور حالات سے اپنے والد و امام کو مطلع فرماتے تھے۔ ابھی آپ کو کاشان میں ایک ہی برس ہوا تھا کہ ۷ ذی الحجہ ۱۱۴ هہجری کو آپ کے والد حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شھادت ہو گئی۔
ظاہر ہے اس وقت تمام عالم اسلام پہ بنی امیہ کا غاصبانہ قبضہ و حکومت تھی۔ کاشان میں بنی امیہ کے مقرر حاکم نے آپ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے سوچاکہ اگر میں اسکی خبر شام نہ پہنچاوں تو ممکن ہے خلیفہ کو جب معلوم ہو تو وہ ہمیں معزول نہ کر دےاورکہیں قتل نہ کر دے لھذا گورنر نے خط لکھ کر تمام حالات سے خلیفہ اموی کو آگاہ کیا کہ سلطان علی (علیہ السلام )کی مقبولیت بڑھتی ہی جا رہی جو حکومت کے لئے خطرناک ہے۔اموی حاکم ہشام نے اماموں کو شھید کرنے والے جلاد صفت درندہ کردار ارقم کو لشکر کے ساتھ کاشان بھیجا۔ شام اور کاشان کی فوج نے رات میں حضرت سلطان علی علیہ السلام کا محاصرہ کیا۔ آپ کے خادم نے آپ کو مطلع کیا تو آ پ فورا شمشیر بکف باہر نکلے۔ آپ کے مختصر ساتھیوں نے استقامت کی اور راہ خدا میں جہاد کیا۔ جب آپ کے اصحاب شھید ہو گئے تو آپ نے شجاعت و جوانمردی سے راہ خدا میں جہاد فرمایا۔ بیان کیا جاتا ہے جنگ کرتے کرتے جب آپ پہاڑ کے دامن میں پہنچے تو پہاڑ کو مخاطب کر کے فرمایا ” مجھے پناہ دو میں فرزند رسول ہوں” یہ سننا تھا کہ پہاڑ کے درمیان فاصلہ ہوا اور آپ جنگ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ آپ زخمی ہو کر زین سے زمین پہ تشریف لائے ظالم آگے بڑھا اورآپ کے سر و تن میں جدائی کر کے شہید کر دیا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے مظلوم سفیر و فرزند حضرت سلطان علی علیہ السلام نے ۲۷ ؍ جمادی الثانی ۱۱۶ ہجری کو کاشان میں جام شہادت نوش فرمایا۔ شہادت سے قبل آپ نے اپنے ایک بھائی کے تحفظ ، خط کے ذریعہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو تمام حالات سے مطلع کرنے (کہ کیسے حالات بدلے اور جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی طرح آپ شھید کئے گئے) اور اپنے جنازے کو دفن کرنے کی وصیت فرمائی۔ آپ کو آپ کے مقتل سے کچھ فاصلہ پہ دفن کیا گیا جہاں آج الحمد للہ روضہ و بارگاہ ہے اور پوری دنیا سے عاشقان آل محمد علیھم السلام زیارت کے لئے آتے ہیں اور کرامات کا ظھور ہوتا ہے۔
مرحوم آیت اللہ العظمی سید شھاب الدین مرعشی نجفی رہ جب آپ کی زیارت کے لئے گئے تو نیچے سرداب میں تشریف لے گئے۔ انکا بیان ہے کہ سرداب میں سو سے زیادہ تر و تازہ جنازے موجود ہیں۔ شائد یہ جنازے ان اصحاب با وفا کے ہوں جنھوں نے آپ کی رکاب میں جام شھادت نوش فرمایا تھا اوراپنے پاکیزہ خون سے سرزمین اردھال کو شرف بخشا تھا۔ روایات کے مطابق مشھد اردہال قم مقدس کی طرح مومنین کے لئے باعث امن و امان ہے۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اپنی خواہر گرامی کریمہ اھلبیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے میزبان جناب موسی بن خزرج سے اردھال کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میری کچھ زمینیں وہاں ہیں تو امام علیہ السلام نے فرمایا “نعم الموضع الاردھار” اردھال بہترین مقام ہے۔
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here