قانون کے غلط استعمال سے ملک کا ہی نقصان ہوگا
عبدالعزیز
غالب نے کتنی سچی اور پیاری بات کہی ہے ؎ ’لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا- ہر روز دکھا تا ہوں میں اک داغ نہاں اور‘… میر تقی میرؔ کا یہ شعر جو مبنی برحقیقت ہے ؎ ’بلبل کو موا پایا کل پھولوں کی دکاں پر- اس مرغ کے بھی جی میں کیا شوق چمن کا تھا‘۔ علامہ اقبالؒ نے آج کے ہندستان کی منظر کشی کی ہے: ’رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو- کہ عبرت خیز ہے ترا فسانہ سب فسانوں میں… وطن کی فکر کر نا داں مصیبت آنے والی ہے- تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں… نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو- تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں‘۔
آج جو لوگ اقتدار کی کرسی پر فائز ہیں وہ اپنوں اور غیروں سب کو آزاد ی رائے اور اظہار رائے سے محروم کرتے جارہے ہیں پورے ملک کو قید خانے میں تبدیل کر رہے ہیں۔ اپنی پارٹی کو بھی ہائیجک کرچکے ہیں، دو تین کے علاوہ سب کے منہ بند ہو چکے ہیں جن کے منہ کھلے ہیں وہ خوشامد ی یا حاشیہ بردار ہیں۔ ایسے لوگ بگاڑ کو اپنی ذات سے اور بڑھاوا دیتے ہیں۔ حکمرانوں کے مزاج کو خراب کرتے رہتے ہیں۔ ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کرنے میں معاون اور مدد گار ہوتے ہیں۔ بدمزاج اور آمر حکمرانوں کیلئے راحت اندوری نے کتنی حقیقت پسندانہ بات کہی تھی ۔’جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے- کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے‘۔ ’سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں- کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے‘۔ راحت اندوری کے مذکورہ اشعار کو محترمہ موئیترا نے ظالم حکمرانوں کے سامنے پڑھے تھے مگر ان پر ذرا بھی اثر نہیں ہوا۔وہی بے ڈھنگی چال اور آمرانہ طرز عمل قائم رہا بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔ گزشتہ سال دہلی میں دو بڑے سنگین واقعات ہوئے۔ جیمز بانڈ نے کہا تھا “once is happenstance, twice is coincidence, third time it’s enemy action.” (جب پہلی بار ہوتا ہے تو اسے اتفاقیہ کہتے ہیں۔ دوسری بار ہوتا ہے تو مطابقت کی بات کہی جاتی ہے لیکن تیسری بار دشمن کے عمل سے تعبیر کیا جاتا ہے)۔ کچھ لوگ حکومت کے اور بہت سے لوگ حکومت سے باہر اسے دشمن کے کرتوت سے تعبیر کر رہے ہیں جوکسا ن ساٹھ،ستر دنوں تک پرامن طریقے سے احتجاج میں بیٹھے رہے لاکھوں ترنگے جھنڈے ہاتھوں میں لیکر دہلی پہنچے وہ بھلا کیسے ترنگے جھنڈے کی توہین کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ؟کیسے اپنے اندولن کو داغدار کر سکتے ہیں؟ یہ تو کسانوں کے دشمنوں نے ہی سرانجام دیا ہے وہ قبول بھی کر رہا ہے کہ یہ کام اس نے کیا اس کا شاہ اور شہنشاہ سے گہرا تعلق ہے یہ بات بھی طشت از بام ہوچکی ہے۔ حکومت اس معاملے میں بالکل بے نقاب ہوگئی ہے۔
ظالمانہ قوانین بنائے جارہے ہیں جنہیں عدالت بھی روک لگانے سے قاصر ہے۔ انہی کے بل بوتے پر شہریوں پر رعایا سمجھ کر حکومت ہورہی ہے جو حق وانصاف کے تقاضے کے بالکل خلاف ہے پولس، سی بی آئی، ای ڈی، آئی ٹی،این آئی اے جیسی ایجنسیاں کو حکومت اپنی لاٹھی ڈنڈے کے طور پر بے تحاشا استعمال کررہی ہے عدالت چیک کرسکتی ہے مگر اس کا حال بھی نا گفتہ بہ۔ جو لوگ تنقید اور تبصرے کر رہے ہیں ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جارہے ہیں چاہے وہ سیاست داں ہوں یا صحا فی ہو۔ ششی تھرور، راجدیپ سر ڈیسائی، مرینال پانڈے، جعفر آغا جیسے صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر دوچار دن پہلے ہوا گزشتہ روز مندیپ پونیا اور مہندر سنگھ کو محض اس اس لیے گرفتار کیا گیا کہ ان لوگوں اپنے ویڈیوز میں دکھا یا کہ کس طرح بی جے پی اور آرایس ایس کے غنڈے بدمعاش پولیس کی مدد سے اندولن کرنے والے کسانوں پر پتھراؤ کر رہے ہیں اور نعرے بازیوں کے ساتھ ان کو دہشت گرد اور غدار ملک بتا رہے ہیں۔ پولیس ایسے لوگوں کی مدد کر رہی ہے جو قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالب علموں پر حملہ ہو یا گشتہ مارچ کے مہینے میں مسلمانوں پر حملہ ہو، اب کسان لیڈر جو پر امن طریقے سے احتجاج کر رہے ہیں ان کے خلاف ایف آئی آر کئے گئے ہیں۔ کریمنل قوانین کے بے تحاشا استعمال سے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے ایسا لگتا ہے کہ کسانوں کے اندولن کو کچل دینے اور ختم کر انے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اس کے لیے جہاں کسان احتجاج میں بیٹھے ہیں ان پر پولیس کی نگرانی میں حملے ہورہے ہیں جو انتہائی قابل مذمت ہے۔
مسٹر منوج جوشی نے جو ایک معروف صحافی ہیں 30جنوری کو ’ٹائمس آف انڈیا‘ کے ادارتی کالم میں لکھا ہے کہ ’’جے این یو سے لال قلعہ تک جس طرح قانون کی اَن دیکھی ہورہی ہے اس سے قانون پر لوگوں کا بھروسہ اٹھتا جارہا ہے‘‘۔ وہ آگے رقمطراز ہیں :
“The Delhi events reveal another more alarming problem: The perception that the legal system is biased against minority communities. In human affairs, we know that perceptions are often more important than the reality. To turn the old phrase around, not only must justice be done, but people must feel that it is being done. Currently many, especially in the Muslim community, feel the law is being used to target them. This could soon spread to other minorities as well. With mainstream media often ignoring such issues, a lot of the amplification of grievances is happening in social media.
Indian laws are as good or as bad as any in the world. The problem is not the laws, but their implementation and enforcement. Responsibility for the proper use of law and due process is spread out between the government, police and judicial system. These demand an attention not only to the letter of the law, but also its spirit.
The rule of law in a democracy rests on the voluntary compliance of citizens. If a section of people begins to think that the law, or its application, fails to give them justice, things begin to fall apart and people begin to use extra-legal methods. Dissent goes underground, where it is preyed upon by extremists. The net loser is the country at large.” (The Times of India- 30.01.2021)
منوج جوشی نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور لال قلعہ کے حالیہ واقعات کا ذکر اپنے مضمون میں کیا ہے۔ کسی وجہ سے شاہین باغ کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ حالانکہ شاہین باغ کے احتجاجیوں کو ان کی جگہ سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کی گئی اور ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے اور بعد میں احتجاجیوں کو سبق سکھانے کیلئے خونریز فسادات برپا کئے گئے۔ جس کے نتیجے میں پچاس سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ جن میں چالیس مسلمان تھے۔ اور کروڑوں اربوں کی املاک تباہ و برباد ہوئیں۔ منوج جوشی لکھتے ہیں کہ دہلی کے واقعات سے سنگین صورت حال کا پتہ چلتا ہے۔ یہ خیال صحیح ہے کہ قانونی نظام مسلمانوں کیلئے جانبدارانہ ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمان انصاف سے محروم ہیں۔ کسانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اسے دیکھ کر بھی بہت کچھ کہا جارہا ہے لیکن مسلم فرقہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ قانون کے ذریعے اسے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہی چیز دوسری اقلیتوں میں بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ سکھ فرقے کی طرف منوج جوشی کا اشارہ ہے۔ انھوں نے مصلحتاً سکھ فرقے کا ذکر نہیں کیا ہے، اقلیتوں کا کیا ہے۔ سکھ فرقے کے اندر بہادری اور شجاعت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ وہ اپنی توہین اور ذلت ہر گز برداشت نہیں کرتے۔ گولڈن ٹیمپل کے واقعات سے فرقہ پرستوں کو سبق لینا چاہئے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسان اندولن کی روح یا ریڑھ سکھ فرقہ ہے۔ شاید احتجاج کو ختم کرنے کیلئے سکھوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور قانون کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ پہلے غازی پور بارڈر پر کیا گیا۔ سنگھو بارڈر پر جو کچھ کیا گیا اسے خطرناک کھیل ہی کہا جاسکتا ہے۔ ایک سکھ کو ننگا کیا گیا اور اس کی پگڑی اچھالی گئی اور اس کے بال پکڑ کر گھسیٹے گئے۔ یہ چیز سکھوں کو مشتعل کرسکتی ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا میں یہ سب دکھایا جارہا ہے۔ جس نے تفصیل سے دکھایا اس کا نام مندیپ پونیا ہے۔ مندیپ پونیا نے دکھایا کہ کس طرح بی جے پی کے چھوٹے بڑے لوگ اس خطرناک کھیل میں ملوث ہیں۔ یہ سب کچھ پولس کی موجودگی اور نگرانی میں ہوا۔ یہ بھی ویڈیو میں دکھاگیا ہے۔ ضروری ہے کہ حالات بگڑنے نہ پائیں۔ پولس اور بی جے پی کے لوگ سکھ فرقے سے معافی مانگیں اور سکھوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی سخت مذمت کریں، تاکہ سکھوں کے برانگیختہ جذبات سرد ہوسکیں۔
منوج جوشی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’مین اسٹریم‘ میڈیا ایسے واقعات کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا میں بڑے پیمانے پر یہ سب کچھ دکھایا جاتا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہندستانی قانون دنیا کے دوسرے قوانین کی طرح اچھے بھی ہیں اور خراب بھی ہیں مگر یہ مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ نفاذ کا ہے۔ قوانین کے صحیح استعمال کیلئے حکومت، پولس اور عدلیہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ قانون کی روح اور اس کے الفاظ دونوں کے استعمال سے اگر رو گردانی ہوتی ہے تو اس سے حق و انصاف کا خون ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جمہوریت میں قانون کی حکمرانی ملک کے شہری رضاکارانہ طور پر کرتے ہیں۔ اگر عوام کا ایک حصہ قانون اور اس کے استعمال کے بارے میں یہ سوچنا شروع کردے کہ قانون اور اس کا نفاذ حق و انصاف دینے سے ناکام ہے تو اس سے بڑی مشکلات پیدا ہوسکتی ہے اور لوگ قانون سے ہٹ کر کام کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ منحرف گروپ زیر زمین جاسکتا ہے اور ان کی انتہا پسندی بڑھ سکتی ہے۔ پورے طور پر اس میں ملک کا نقصان ہوگا‘‘۔ منوج جوشی نے کھل کر حالات پر روشنی ڈالی ہے اور ایک بڑے قومی اخبار میں ان کی یہ کھری کھری باتیں شائع ہوئی ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ ان باتوں سے حکومت کے کان بھی کھڑے ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ ان میں ملک اور انسانیت کی محبت کی ذرا بھی رمق باقی ہے۔
Mob:9831439068