ڈاکٹر سلیم خان
بی جے پی پربہار کے بعد اب بنگال کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔وہاں پر صوبائی انتخاب جیتنے کی خاطر وزیر اعظم نریندر مودی نے گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور کا چولہ اوڑھ رکھا ہے اور وزیر داخلہ امیت شاہ نیتا جی سبھاش چندر بوس بنے ہوئے ہیں ۔ اتفاق سے وہ دونوں تاریخی ہستیاں ہندوتوا اور سنگھ کی نظریاتی دشمن تھیں لیکن ’ غرض پڑنے پر گدھے کو باپ بنانے ‘ کی کہاوت کے مطابق بی جے پی ماضی کو بھلا کر مستقبل روشن کرنے کی سعی کررہی ہے۔ انتخابی فائدے کے پیش نظر مودی اور شاہ مختلف بہانوں سے مغربی بنگال پہنچ جاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی نیا فتنہ کھڑا کرکے لوٹ آتے ہیں لیکن اس بار ان کے ستارے گردش میں ہیں ۔ پچھلے دنوں امیت شاہ نے بنگال کا دورہ کیا تو شانتی نکیتن کی جانب نکل گئے حالانکہ وہاں مودی جی کو جانا چاہیے تھا ۔ مغربی بنگال کے بھکتوں نے دعوتنامہ پر اوپر امیت شاہ کی اور نیچے رابندر ناتھ ٹیگور شائع کردی۔ ویسے بی جے پی کے لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے اس لیے کہ ان کے نزدیک مودی اور شاہ ہی ہر ہر مہادیو ہیں لیکن ترنمول کانگریس نے اسے ٹیگور اور بنگال کی توہین قرار دے کر ہنگامہ کھڑا کردیا ۔ اس طرح کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ کی مصداق شاہ جی اپنا نقصان کرکے لوٹ آئے۔
چھوٹے میاں کے بعد 23جنوری 2021 کوبڑے میاں نیتا جی سبھاش چندر بوس کے 125 ویں یوم پیدائش کی تقریب میں شرکت کی غرض سے کولکاتہ پہنچے ۔وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور گورنر جگدیپ دھنکھر نے بھی وکٹوریہ میموریل کے اندر مذکورہ پروگرام میں شرکت کی۔ اس سے قبل وزیر اعظم نے شہر کے نیتا جی بھون میں انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے نیتاجی کے لیے مختص مستقل میوزیم کا افتتاح کرنے کے بعد یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ممتا بنرجی ویسے بھی بی جے پی سے ناراض چل رہی ہیں کیونکہ ہر ہفتہ ان کا ایک نہ ایک ٹی ایم سی رہنما بی جے پی میں شامل ہوجاتا ہےلیکن 23 جنوری کو ایک ایسا واقعہ رونما ہوگیا جس نے انہیں بی جے پی کے خلاف ماحول بنانے کا نادر موقع عنایت کردیا اور ایک شاطر سیاستداں کی طرح انہوں نے اس کا بھرپور استعمال کیا۔
وزیر اعظم کی موجودگی میں سبھاش چندر بوس والی تقریب کے دوران جب ممتا بنرجی کو اسٹیج پر خطاب کی دعوت دی گئی تو سامعین میں سے کچھ لوگوں نے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔ اس حرکت سے ممتا بنرجی انتہائی ناراض ہوئیں اور اسے اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے تقریر کرنے سے انکار کر نے سے قبل کہا کہ یہ کوئی سیاسی جلسہ نہیں ہے،بلکہ سرکاری پروگرام ہے جو نیتاجی کی جینتی کے موقع پر منعقد کیا گیا ہےاس لیے سرکاری تقریب کے وقار کا خیال کیا جانا چاہیے۔ممتا بنرجی نے کہا کہ یہ نعرے مجھے چڑھانے کےلئے لگائے گئے ہیں مگر حقیقت میں یہاں نتیاجی کی توہین کی جارہی ہے ۔ انہوں نے وہاں موجود پی ایم مودی پر غصہ اتار تے ہوئےبلاجھجک کہا کہ ’’کسی کو بلا کر اس طرح بے عزت کرنا اچھی بات نہیں۔‘‘ ہندوستان کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم کو اس پیروکاروں کے سبب اس طرح کی ہزیمت سہنے کا موقع کبھی نہیں آیا ہوگا ۔
اس کے بعد سے یہ تنازع بڑھتا چلا گیا ۔وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ہگلی میںاس معاملے کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک ریلی میں کہا کہ ’’اگر آپکسی کو گھر میں مدعو کرتے ہیں توکیا اس کی بے عزتی کریں گے؟ میں نیتا جی کی تقریب میں گئی تھی وہاں کچھ شورش پسند لوگ اگر انارکی پر مبنی بندوق دکھائیں گے، تو میں بھی صندوق دکھاؤں گی۔ وہ لوگ اگر ’نیتا جی، نیتاجی‘ کے نعرے لگاتے تو الگ بات تھی‘‘۔ جئے شری رام کے نعرے کی جانب اشارہ کرکے وہ بولیں’’اس سے پہلے بھی عظیم ہستیوں کو لے کر کئی غلطیاں کی گئی ہیں‘‘۔ بی جے پی کارکنوں کے نعرے ’جے شری رام‘ کے جواب میں ممتا بنرجی نے’ہرے کرشن ہرے رام، وداع ہو بی جے پی-وام‘ کا نعرہ بلند کردیا ۔ گویا کہ ایک طرف تو انھوں نے ’رام‘ کے ساتھ ساتھ ’کرشن‘ کا نام لے کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ہندو مذہب کے خلاف نہیں بلکہ بی جے پی کی مذہبی سیاست کے خلاف ہیں، اور دوسری طرف نئے نعرے میں بی جے پی اور بایاں محاذ کی وداعی کی منشا بھی ظاہر کر دیا گیا۔
نئے نعرے میں بایاں محاذ پر تنقید کے باوجود اس نے اور حلیف کانگریس نے بھی بی جے پی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ممتا بنرجی کی ناراضی جائز ہے ۔ہر نعرےکا ایک موقع محل ہوتا ہے ۔جے شری رام کے نعرے لگاکر نیتاجی کی توہین اور بنگالی کلچر کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کی اس غلطی کا اعتراف آر ایس ایس نے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کرکے کردیا ۔ بنگال آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری جشنو باسو کا کہنا ہے کہ اس طرح کی نعرےبازی سے نہ تو نیتاجی کااحترام ہوا ہے اور نہ ہی ’’بھگوان رام ‘‘ کا اس لیے بی جے پی کونعرہ بازی کرنے والوں کی شناخت کرنی چاہیے۔بی جے پی کو لازمی طور پر معلوم کرنا چاہئے کہ اس میں کون لوگ ملوث تھے ۔یا پھر یہ کوئی سازش تونہیں تھی ۔آر ایس ایس نے واضح کاک کہ وہ نیتاجی کی جینتی کے موقع پر اس طرح کے نعرہ بازی کی حمایت نہیں کرتا۔ یہ پروگرام چونکہ نتیاجی کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے منعقد کیا گیا تھا اس لیے وہاں جئے شری رام کا نعرہ لگانے سے آر ایس ایس خوش نہیں ہے ۔
آر ایس ایس کو یہ صفائی پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ ترنمول کانگریس نےجارحانہ انداز سے اپنے بیانہے کو تقویت دی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر نیتاجی کے مجسمے کے پاس دھرنا دے کربی جے پی کی اس حرکت کو بنگالی تہذیب و ثقافت کے لیے تباہ کن ثابت کردیا ۔یہ بات اس قدر آگے بڑھ گئی ہے کہ اب تو بی جے پی کے رہنما بھی اس پر افسوس ظاہر کرنے لگے ہیں ۔ ان کے مطابق اس نعرے بازی سے ترنمول کانگریس کو فائدہ ہوا ہے ۔اب یہ بہانہ بنا کر وہ دامن چھڑا رہے ہیں کہ جئے شری رام کا نعرہ لگا نے والے لیڈر کا تعلق بنگال سے نہیں ہے لیکن انہوں نے یہ تسلیم کیا گوکہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر وزیر اعظم مودی کا یہ پروگرام ترتیب دیا گیا تھامگر اس نعرے بازی نے بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نادانستہ طور پر ترنمول کانگریس کابھلا کردیا۔
بی جے پی نے بہت عرصہ تک جئے شری کے نعرے سےعوام کے جذبات بھڑکا کر اس پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کا کام کیا لیکن اس بار یہ داوں الٹا پڑ گیا ۔ ممتا بنرجیاس معاملے کوجس شاطرانہ مہارت کے ساتھ بی جے پی اور اپنے دیگر مخالفین کے خلاف استعمال کیا وہ انہیں کا حصہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پہلی بار اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا ہے۔ مغربی بنگال میں وزیر اعظم کا یہ پہلا انتخابی دورہ تھا جس میں گویا سر منڈھاتے ہی جئے شری رام کے اولے پڑے ۔ اب آئندہ وہ ذرا احتیاط کے ساتھ ممتا بنرجی سے روبرو ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنی بے عزتی کی آڑ میں وزیر اعظم کو بھری محفل میں رسوا کیا ہے ۔ ممتا بنرجی فی الحال بی جے پی کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہورہی ہیں کہ جب اس کو چبانے کی کوشش کی جاتی ہے فسطائیوں کے دوچار دانت ان کے ہاتھوں میں آجاتے ہیں ۔ خیر دیکھنا یہ ہے کہ اس انتخابی جنگ میں کس کے دانت ٹوٹتے ہیں اور کس کا سر پھوٹتا ہے۔
٭٭٭