اب تک ستاون

0
107

[email protected] 

  1. 9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هی


کسان تحریک آج 38ویں دن میں داخل ہو گئی اور اب تک مختلف اسباب کی بنا پر ستاون کسانوں کی موت ہو چکی ہے۔آج کانگریس کی پرینکا گاندھی نے مرکز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’مہینے بھر سے اپنے جائز مطالبات کے لیے بیٹھے کسانوں کی باتیں نہ مان کر حکومت حد درجے کی بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔‘‘زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی جاری تحریک کے درمیان ہو رہی اموات کے پیش نظر کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے مرکز کی مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’سرد موسم میں دہلی بارڈر پر بیٹھے کسان بھائیوں کی موت کی خبریں پریشان کرنے والی ہیں۔ میڈیا خبروں کے مطابق ابھی تک 57 کسانوں کی جان جا چکی ہے اور سینکڑوں بیمار ہیں۔ مہینے بھر سے اپنے جائز مطالبات کے لیے بیٹھے کسانوں کی باتیں نہ مان کر حکومت حد درجے کی بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔‘‘
دراصل یکم جنوری کو دہلی بارڈر پر مظاہرہ کے دوران گلتان سنگھ کی موت ہو گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ سرد موسم کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہوئی تھی، پھر آج کشمیر سنگھ نامی کسان نے زرعی قوانین کے خلاف خودکشی جیسا قدم اٹھایا۔ اس طرح کے واقعات سے مودی حکومت کو چاروں طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پرینکا گاندھی نے بھی کئی بار کسانوں کے حق میں آواز بلند کی ہے اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سیاہ قوانین کو واپس کرنے سے متعلق کسانوں کا مطالبہ پورا کیا جائے۔
پرینکا گاندھی کے اس بیان سے قطع نظر خود کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ابھی تک کھل کر کسان تحریک کے بارے میں اپنا موقف ظاہر نہیں کیا ہے اگر وہ کسان تحریک کو جائز سمجھتے ہیں تو خود ان کے نمائندے اس تحریک میں شامل کیوں نہیں ہوتے اور اگر غلط سمجھتے ہین تو اس کے خلاف کھل کر بولنے میں قباحت کیوں محسوس کر رہے ہیں۔یہی ڈھجل مل رویہ ہندوستانی سیاست میں سب سے زیادہ نقصان دہ ہے جس کے خمیازہ کبھی مسلمانوں کو بگھتنا پڑتا ہے اور کبھی کسانوں کو۔حکومت ہند نے اب تک یہی ثابت کیا ہے کہ اس نے جو فیصلے کر لئے وہ خواہ کسی کے حق میں ہوں یا نہ ہوں ،عوام کتنے ہی اس کے مخالف کیوں نہ ہوں ،وہ اپنے کئے گئے فیصلوں میں کوئی ردو بدل یا غور وخوض کے لئے تیار نہیں ہے۔اس نے کہہ دیا سو کہہ دیا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی سخت سردی میں کسان مرد و عورت بچے سبھی میدان میں ہیں لیکن حکومت ان کی فریاد سننے کو تیار نہیں ہے۔اب تک ستاون کسانوں کی جانیں جا چکی ہیں لیکن حکومت کے رویے سے ایسا لگتاہے کہ اس کی نظر میں انسانی جانون کی کو ئی وقعت نہیں خواہ وہ کوئی بھی ہو۔میٹنگوں کا لالی پاپ جاری ہے اور اب ایک مرتبہ پھر چار جنوری کو میٹنگ کی خبر ہے جس کے لئے کسانوں نے الٹی میٹم دے دیا ہے کہ اس دن زرعی قوانین کی واپسی اگر نہیں ہوئی تو کسانوں کی تحریک مزید تیز تر ہو جائے گی۔اور اس کی شکل کیا ہوگی اس بارے میں اگر چہ ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔لیکن حکومت کی طرف سے بھی ایساکوئی اشارہ نہیں ملا ہے جس سے یہ امید ہو سکے کہ وہ اپنے قوانین کو واپس لینے کے لئے تیار ہے۔واضح رہے کہ اس وقت سبھی کی نظریں 4 جنوری کو کسان لیڈران اور حکومت کے درمیان ہونے والی میٹنگ پر مرکوز ہیں۔ کسان تنظیموں کے سربراہان نے واضح کر دیا ہے کہ اگر پیر کے روز زرعی قوانین کے واپسی اور ایم ایس پی پر کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں لیا گیا تو مظاہرہ میں مزید شدت پیدا کی جائے گی۔ اس درمیان مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا ہے کہ 4 جنوری کی میٹنگ کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے ۔وپہ نتائج کیا ہوں گے اس پر سبھی کی نظریں مرکوز ہیں۔

 

 

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here