- 9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
محمد ظفر
استاذی محترم انور ؔ جلالپوری صاحب کے بارے میں میں نے سب سے پہلے اس وقت جانا جب وہ شاد ؔ فیض آبادی کی سلائی کی دوکان ( واقع اردو بازار جلالپور ) پر بیٹھے اپنے ساتھی شاعروں جیسے صمد ؔ جلالپوری ، فاخر ؔ جلالپوری ، حافظ ؔ جلالپوری وغیرہ کے ساتھ عملی مباحث میں مصروف ہوئے ۔ یہ میرا زمانہ طفلی تھا اور اس وقت میں پرائمری کا طالب علم تھا ۔ زمانہ ۱۹۷۰ ء آس پاس کا رہا ہوگا ۔ لباس اور وضع قطع سے انور صاحب مجھ کو مذہبی عالم لگتے تھے ۔ آواز کا سحر ان کو قدرت کی جانب سے ودیعت ہوا تھا ، لہٰذا میں کبھی کبھی شاد ؔ صاحب کی دوکان کے پاس کھڑے ہو کر ان کی گفتگو سنا کرتا تھا ۔ جوں کہ ان کی بات چیت نہایت معیاری ہوتی تھی ، لہٰذا میرے لئے اس کو سمجھ پانا تو نہایت مشکل تھا ۔ لیکن ان کی آواز کی رس گھولنے والی کیفیت میرے کانوں میں اترتی جاتی تھی جس سے بے انتہا محظوظ ہوتا تھا ۔
۱۹۷۲ء میں میں نے نریندر دیو انٹر کالج میں درجہ ششم میں داخلہ لیا اور چند مہینوں بعد ہی انور ؔ صاحب کا تقرر اسی کالج میں بحیثیت انگریزی لکچرر کے ہو گیا ۔ اب میرے دل میں خواہش بیدار ہوئی کہ ان سے انگریزی کا درس لوں اور ان کے علم و فضل سے استفادہ کروں ۔ یہ موقع مجھے ۱۹۷۷ء میں حاصل ہوا جب میں درجہ یازدہم میں پہنچا اور وہ ہمارے انگریزی کے استاذ مقرر ہوئے ۔ پہلے ہی دن انور صاحب نے انگریزی میں اتنی جامع اور دلکش تقریر کی کہ میں ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ حالانکہ کچھ طلبہ نے ان کا انگریزی کا لکچر سن کر انگریزی مضمون بھی چھوڑ دیا کیوں کہ شاید ان کے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ ان کی اپنی انگریزی کی استعداد انور صاحب کی رواں اور تیز گام انگریزی کا ساتھ نہیں دے پائے گی ۔ انور صاحب کا طرز تدریس دیگر اساتذہ سے الگ اور جداگانہ تھا ۔ نصاب میں داخل اسباق سے ہٹ کر کبھی کبھی وہ فلسفۂ حیات پر گفتگو کرنے لگتے ، کبھی کبھی سائنس کا کوئی نکتہ زیر بحث لے آتے اور کبھی کبھی تو ریاضی کے اصولوں کو لٹریچر کے پیرایہ میں بیان کر کے وہ طلبہ کو زندگی کے گوناں گوں اور متنوع پہلوؤں سے روشناس کرا دیتے تھے ۔ ایک بار لکچر کے دوران انہوں نے بتایا کہ قدرت نے انسان کو جن مختلف اوصاف سے متصف کیا ہے ، ان میں حافظہ کا وصف نہایت اہم ہے ، لیکن اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل نسیان کا وصف ہے جس کے بغیر انسان زندگی کے راستے پر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا کیوں کہ ہم ماضی کے واقعات و حادثات کو بھول کر ہی حال کے توسط سے مستقبل میں قدم رکھتے ہیں ۔ ان کی اس بات سے میرے خود کے ذہن پر ماضی کی چند اذیت ناک یادوں کا جو نقش مرتسم ہو گیا تھا وہ رفتہ رفتہ محو ہو گیا ۔
یہاں مجھے ۱۹۷۹ء کا ایک واقعہ یاد آتا ہے جو انورؔ صاحب کی بے پناہ خطابی صلاحیتوں کا غماز ہے ۔ سردیوں کے ایام تھے اور کالج میں پینل معائنہ جاری تھا ۔ پینل فیض آباد کے ڈی ۔ آئی ۔ او ۔ ایس ۔ اور مختلف شعبۂ ہائے تعلیم کے ماہرین پر مشتمل تھا ۔ پہلی ہی نظر میں لوگوں کو اندازہ ہو گیا کہ ڈی ۔ آئی ۔ او ۔ ایس ۔ صاحب نہایت بد مزاج و بد دماغ شخص ہیں ۔ ان کو ہر چیز میں خامیاں ہی خامیاں نظر آتی تھیں ۔ لہٰذا ان کو خوش کر پانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا ۔ معائنہ کے شروع کے دو دن طلبہ و اساتذہ پر کافی گراں گذرے ۔ تیسرے دن مہمانوں کیلئے الوداعیہ کے طور پر ایک تہذیبی پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس کی نظامت کی ذمہ داری انورؔ صاحب نے خود اپنے ذمہ لی ۔ جیسے ہی وہ مائیکرو فون پر آئے شہد و شکر کادریا ان کی زبان سے رواں ہو گیا جس کی طراوٹ سے تمام حاضرین محفل سیراب ہو گئے ڈی ۔ آئی ۔ او ۔ ایس ـ صاحب تو ان سے اتنا متأثر ہوئے کہ وہ ان کی تعظیم میں کھڑے ہو گئے ۔ ان کی تقلید میں دیگر حاضرین محفل نے بھی اپنی اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر ان کو خراج تحسین پیش کیا ۔ مہمانوں اور معائنہ کاروں نے یہاں تک کہا کہ ان لوگوں نے اپنی زندگی میں انورؔ صاحب جیسا مقرر و ناظم نہ دیکھا تھا اور نہ ہی سنا تھا ۔انور صاحب نے فن نظامت کو ایک نیا انداز و نیا منہاج عطا کیا ۔ ان سے پہلے ناظمین مشاعرہ چند بندھے لکھے الفاظ کا استعمال کر کے شعراء کو دعوت سخن دیا کرتے تھے ۔ کچھ ناظمین تو اتنی ادنیٰ زبان کا استعمال کرتے تھے کہ وہ اکثر سامعین کیلئے بعید از فہم ہو جاتی تھی ۔ بسا اوقات ناظمین کا مائیکروفون پر آنا بھی سامعین کو ناگوار گذرتا تھا ۔ کیوں کہ ان کے انداز میں نہ تو کوئی کشش ہوتی تھی اور نہ ہی لطافت ۔ لیکن انور صاحب نے اپنی سہل اور عام فہم زبان نیز اپنے سحر انگیز انداز بیان سے مقبول خاص و عام بنا دیا ۔ اب لوگ شعراء سے زیادہ ناظم کے گرویدہ و شیدائی ہوگئے ۔ اور وہ زمانہ بھی آیا کہ جب بحیثیت ناظم انور صاحب کی موجودگی ہی مشاعروں کی کامیابی کی ضامن بن گئی ۔ بعد میں کئی لوگوں نے ان کے انداز کی نقل کرنا چاہی لیکن کسی سے بھی یہ بار اٹھایا نہ گیا ۔ واقعتاً انور صاحب فن نظامت کے اس نئے طرز کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی ۔
انور صاحب کو اپنے کلام کی جادوئی اپیل کا احساس تھا ، ان کے کلام میں وہ اثر تھا جو انسان کو ابنائے زمانہ کی فلاح و بہبود کی خاطر کوشش و سعی کرنے پر آمادہ کرتا ہے ۔ ان کا فن اس درجہ ترقی یافتہ اور اثر آفریں تھا کہ گویا ان کے الفاظ انسانوں کی طرح قوت کلام رکھتے ہوں جس سے سنگ نازاش بھی گوہر نایاب میں بدل جایا کرتا ہے ۔
میں ہر بیجان حرف و لفظ کو گویا بناتا ہوں
کہ اپنے فن سے پتھر کو بھی آئینہ بناتا ہوں
ان کو معلوم تھا کہ ان کی شاعری تاریکی کو روشنی اور جہالت کو علم سے دینے کی پوری طاقت رکھتی ہے اور اس کے اندر وہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اس زمین پر بنی نوع انسان کی زندگی کو بہتر اور زیادہ با معنی بنائے ۔
عطا ہوئی ہے مجھے دن کے ساتھ شب بھی مگر
چراغ شب میں جلا دیتا ہے منبر میرا
انور صاحب نے اپنی شاعری کے ذریعہ انسان کے غموں کا مداوا تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ وہ ایک عملی شاعرتھے اورتصورات کی دنیا سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔ لہٰذا اسی دنیا کے مسائل کو انہوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور ان کے حل کی تدبیریں پیش کیں ۔ حیات و کائنات کے یہی مسائل ان کے ادبی سفر میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہے ۔
میرا ہر شعر مصیبت کی ہے زندہ تصویر
اپنے اشعار میں قصہ نہیں لکھا ہم نے
ایسا کہا جاتا ہے کہ عالمی محبت اوراخوت جس کا مصیبت کی دنیاسے کوئی تعلق نہیں لیکن انور صاحب کا خیال اس کے ٹھیک برعکس تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ آفاقی محبت کی یہ پاکیزہ منزل بہر طور حاصل کی جا سکتی ہے بشرطیکہ ہماری محبت مسمی اور ریاکاری سے بالکل پاک ہو ۔ دنیا میں سچی محبت سے بڑھ کر کوئی طاقت نہیں ہے اور اس طاقت کے ذریعہ تمام تر منفی انسانی رویوں کو مسخر کیا جا سکتا ہے ۔
تم پیار کی سوغات لئے گھر سے تو نکلو
رستے میں تمہیں کوئی بھی دشمن نہ ملے گا
محترم انور جلالپوری صاحب نیکچھ عالمی ادبی فنکاروں کا ترجمہ بھی اردو میں کیا ہے ۔ انہوں نے آر ۔ این ۔ ٹیگور کی گیتانجلی کا ترجمہ صاف شفاف اور پاکیزہ اردو میں کیا ہے جو اردو داں طبقہ کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے ۔ عمر خیام کی چند رباعیات کا ترجمہ بھی ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے ۔ رباعیات خیام کا ترجمہ واقعی ایک مشکل کام تھا ۔ اوّل تو اس لئے کہ یہ ایک ایسی زبان میں لکھی گئی ہیں جو فی نغمہ نہایت شیریں اور دلکش ہے اور اس معاملہ میں اردو کا اس زبان ( فارسی ) سے کوئی علاقہ نہیں ہے ۔ اور دوم اس لئے کہ ترجمے کیلئے مترجم کو مکیم خیام کے افکارو خیالات سے ذہنی ہم آہنگی پیدا کر کے انھیں کے لاثانی انداز میں ان کو بیان کرنا تھا ۔ لیکن انور صاحب نے رباعیات خیام کا ترجمہ ٹھیک اسی اندا میں کیا ہے جیسے ایڈورڈ فٹز جرالڈ نیانگریزی میں کیا ہے ۔ انھوں نے بڑی حد تک رباعیات کی روح کو اردو میں منتقل کر دیا ہے اورساتھ ہی اس کی شیرینی اور دلکشی کو قائم رکھا ہے ۔
شری مد بھگود گیتا کا اردو ترجمہ انور صاحب کا ادبی شاہکار ہے ۔ یہ بیش بہا تحفہ جو وہ آئندہ نسلوں کو دے گئے ہیں اپنی مثال آپ ہے ۔ بھگود گیتا کا اردو میں ترجمہ کر کے انھوں نے ہندوستان کی دو بڑی قوموں کے درمیان محبت و اخوت کاپل باندھنے کی کوشش کی ہے ۔ انور صاحب مذہبی رواداری کے علمبردار اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کا عملی نمونہ تھے ۔ اس معاملے میں ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا ۔ ان کی شخصیت کی یہی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر وہ سچے دل اور غیرمعمولی حوصلے اور جذبے کے ساتھ گیتا کا ترجمہ کر سکے ۔
آکر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ استاذی محترم انورؔ جلالپوری صاحب نہ صرف ایک شاعرتھے بلکہ وہ ایک مفکر و سماجی مصلح بھی تھے ۔ ان کی ادبی و سماجی خدمات کیلئے صدر جمہوریہ ہند انھیں پدم شری اور حکومت اترپردیش نے یش بھارتی ایوارڈ سے نوازا ۔ لیکن میری ادنیٰ رائے میں یہ اعزاز ان کے قد و مرتبہ سے کہیں کم تر ہیں ۔ در اصل ان کے مداحوں و عقیدتمندوں سے جو پایاں محبت ان کو ملی ہے وہی ان کا اصل اعزاز ہے ۔ ذیل میں خواجہ حافظ شیرازی کاایک شعر نقل کر رہا ہوں جوانور صٓحب کی شخصیت کا کسی قدر احاطہ کیاجاسکتا ہے ۔
ما قصّہ ٔ سکندرو دارا نخواندہ ایم
از ما بجز مکاتیب مہرو وفا پرس
اسسٹنٹ منیجر،نیو انڈیا اسیورنس ، فیض آباد
٭٭٭