سالِ نوہمیں اپنااحتساب کرنے کی دعوت دیتا ہے

0
115

عبداللطیف ندوی
دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تیوہار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تیوہار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تیوہار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے؛ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تیوہار وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے۔
در اصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق 25/دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔
نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور31/دسمبر کی رات میں 12/ بجنے کا انتظار کیا جاتاہے اور 12/بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف’ ہیپی نیوئیر‘ کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و وغیرہ کانتظام کیاجاتاہے۔
آج ان عیسائیوں کی طر ح ہم بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور 31/ دسمبر کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں، ہم نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے۔ جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔ہمارا اپنا قمری اسلامی نظامِ تاریخ موجود ہے جو نبی کریم ؐ کی ہجرت سے مربوط ہے ،لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔
آج ہم نئے سال کی آمد پر جشن مناتے ہیں کیاہم کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر ہماری زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے ، زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے کم ہونے پر خوشی نہیں منائی جاتی۔ بلکہ افسوس کیا جاتاہے۔
نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے۔ کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں۔ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے۔ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا۔ اسی لیے نبی کریم ؐ کا ارشاد ہے کہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی ، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے۔
ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیںبلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔ساتھ ساتھ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایک اہم امر کی طرف بھی متوجہ کریں کہ ہمارا نیا سال جنوری سے نہیں۔بلکہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جو ہو چکا ہے اور ہم میں سے اکثروں کو اس کا علم بھی نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں اس لیے کہ ہماری تاریخ یہی ہے چونکہ ہر قوم اپنی تاریخ کو کسی خاص واقعے سے مقرر کرتی ہے اس لیے ہم نے نے اپنی تاریخ کو خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓکے دورِ خلافت میں حضرت علی المرتضی کے مشورے سے واقعہ ہجرت سے مقرر کیا۔ہمیں ہجری سن دوسرے مروجہ سنین سے بہت سی باتوں میں منفرد نظر آتا ہے ہجری سال کی ابتدا چاند سے کی گئی اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑاگیا تاکہ چاند کو دیکھ کر ہر علاقے کے لوگ خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں یا جنگلوں میں، شہروں میں بستے ہوں یا دیہاتوں میں۔ نیز دور دراز جزیروں میں رہنے والے حضرات بھی چاند دیکھ کر اپنے معاملات بہ آسانی طے کرسکیں اور انھیں کسی طرح کی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ نہ اس میں کسی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے اور نہ کسی مادی سبب کی احتیاج ہے۔
عیسوی سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز میں عموماً ہم مشاہدہ کریں گے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں نئے سال کا جشن بڑے ہی جوش و خروش اور دھوم دھام کے ساتھ منایا جائے گا ہمارے ملک ہندوستان میں بھی بہت سارے افراد بالخصوص نوجوان نئے سال کی آمد کے خوشی میں جشن منائیں گے، پٹاخے داغیں گے، آتش بازی کریں گے، گھروں میں قمقمے جلائیں گے، ایک دوسرے کو بڑی گرم جوشی کے ساتھ مبارکبادی پیش کریں گے، نام نہاد عاشق اپنی معشوقہ کو گریٹنک کارڈ کا ہدیہ دیں گے اور یوں اپنے روپئے پیسوں کو بے تحاشا رائیگاں کیا جائے گا۔
بہت سارے نوجوان اس رات موسیقی اور شراب و کباب کا استعمال کریں گے اور نشے میں دھت ہوکر دوسروں کی بہن بیٹیوں پر نگاہِ بد ڈالیں گے، اْن پر آوازیں کسیں گے، اْن سے چھیڑ چھاڑ کی ناروا کوشش کریں گے۔متعدد شہروں میں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے نام پر مشاعرے کیے جائیں گے، قوالی کی محفلیں منعقد کرکے باہم مقابلہ آرائی کی جائے گی۔ کالجزز اور یونیورسٹیز کے لڑکے اور لڑکیاں دسمبر کی شب کو ہوٹلوں اور شاہراہوں پر رنگ رلیاں کرتے ہوئے دیکھائی دیں گے۔
سوال یہ ہے کہ ہماری زندگی سے ایک سال کی اور کمی ہوجائے گی اور ہم موت سے مزید قریب ہوجائیں گے پھر یہ جشن کیسا؟ یہ خوش کیسی؟ ہمیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہم پٹاخے داغ کر دوسروں کو کس قدر نقصان پہنچاتے ہیں، بوڑھے اور دائمی مریضوں کے سکون کو کس طرح غارت کرتے ہیں، ساتھ ہی فضائی آلودگی میں اضافہ کرکے ماحول کو پراگندہ اور تعفن زدہ کرتے ہیں، جس سے نہ جانے کتنی قسم کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نئے سال کے نام پر یہ بیہودہ حرکتیں ہم انگریزوں کی اندھی تقلید میں کرتے ہیں۔ جنھوں نے ہمارے ملک کے عوام کو برسوں تک غلامی کی زندگی جینے پر مجبور کیا اور اْن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ اور یہاں سے جاتے جاتے اپنی تہذیب کا کچھ نہ کچھ اثر ہم پر ضرور مسلط کر گئے، جس کے گرداب میں آج اکثر مسلمان پھنسے ہوئے ہیں اور اس کا مشاہدہ ہم بارہا کرتے رہتے ہیں۔ سیاسی طور پر اگر چہ ہم ان کی غلامی سے آزاد ہوچکے ہیں مگر ذہنی و فکری طور پر آج بھی اْن کی غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں۔
ہماری تہذیب و ثقافت اور مختلف عبادتوں کے اوقات ہجری سال سے وابستہ ہیں۔ جس کی ابتدا و انتہا کا ہمیں علم ہی نہیں رہتا ہے، نئے ہجری سال سے ہماری اکثریت نابلد رہتی ہے اور اگر کچھ مہینوں سے وابستگی ہے بھی تو فقط چند بدعی امور کی انجام دہی اور کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب و شتم کرنے تک محدود ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو غیروں کی مشابہت سے بچائے اور آقائے نامدار جناب محمد رسولﷺکی سنت کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
7355097779

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here