9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ڈاکٹر سلیم خان
سومترا کے معنیٰ اچھا دوست کے ہوتے ہیں ۔ اس اچھے دوست نے بی جے پی کی بری سنگت میں پڑ کر اپنی پارلیمانی رکنیت بچانے کے لیے بیوی سجاتا مونڈل کو طلاق کا قانونی نوٹس روانہ کردیا۔ سومترا کی نظر میں سجاتا کی ترنمول کانگریس میں شمولیت مہا پاپ ہے ۔ سجاتا کو شکایت ہے کہ وہ آج بھی اپنے شوہر سومترا سے محبت کرتی ہںق اور ان کے نام کا سندور لگاتی ہںن۔ان کی محبت کی شادی تھی جو ایک دن میں ختم نہیں ہوسکتی ۔ وہ تو خیر ’لو میرج ‘ تھا ’لو جہاد‘ نہیں تھا ورنہ بعید نہیں کہ یوگی جیسا کوئی سرپھرا سجاتا مونڈل کو اس الزام میں جیل بھیج دیتا ۔ بی جے پی کے نزدیک پارٹی چھوڑنا دھرم پریورتن سے سنگین گناہ ہے اور وہ اس کا ارتکاب کرنے والی عورت کو بھی جیل بھیجا سکتا ہے ،کیونکہ یوگی ہے تو ممکن ہے۔ سجاتا کا الزام ہے کہ وہی بی جے پی جس نے تین طلاق کو ختم کردیا تھا ان کے شوہر سومترا خان پر دباو ڈال رہی ہےکہ وہ اپنی دھرم پتنی کو فوراً طلاق دے دیں۔ اس طرح خواتین سے ہمدردی کا بھگوا پاکھنڈ بے نقاب ہوگیا ہے ۔ منافقت کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ پوشیدہ نہیں رہ پاتی ،جلد یا بہ دیر کھل کر سامنے آہی جاتی ہے۔ سومترا دراصل بس نام کے خان ہیں اگر اصلی ہوتے تو ذرائع ابلاغ میں ان کی پریس کانفرنس پر ہنگامہ ہوگیا ہوتا ۔ مغربی بنگال مںب بی جے پی کی یوتھ ونگ کے سربراہ نے اپنی بو ی سجاتا منڈل خان کے ترنمول کانگریس پارٹی مںب شمولتد کے چند گھنٹوں بعد ایک پریس کانفرنس مںی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کردیا۔ انھوں نے کہا کہ ’مںا آپ کو پوری آزادی دیتا ہوں۔ مرجی آپ سے اپلد ہے کہ آپ مر۔ے خاندانی نام ’خان‘ کو اپنے نام سے ہٹا لںا‘۔ ویسے جب شوہر ہی کام کا نہ ہو تو نام کس کام کا؟ سومترا نے بھری محفل میں روتے ہوئے اپنی اہلہر کے فصلےگ کو ایک بہت بڑی غلطی قرار دیا ۔ اس طرح کی حماقت کوئی نقلی خان ہی کرسکتا ہے۔ سومترا نےسجاتا کو مشکل وقتوں مںم اپنی حمایت کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ : ’اس موقع پر مںر نے آپ سے جو وعدہ کاک تھا اسے پورا کا ۔ اپنی تنخواہ کا 50 فصدہ ہر مہنےج آپ کے کھاتے مںے منتقل کاو تاکہ آپ کو کسی سے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اب آپ نے ان لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے جنھوں نے آپ کو ماضی مں نقصان پہنچایا تھا۔‘ کیا کوئی غیرتمند خان صحافیوں کے سامنے اس طرح کی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی گھریلو باتیں بتاسکتا ہے؟ اپنی اہلیہ کو گھر خرچ کیا دیا کہ کوئی احسان کیا ؟ سومترا خان مسلمان نہ سہی حزب اختلاف کی کسی جماعت سے متعلق ہوتا تب بھی بی جے پی کا پالتو میڈیا اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا لیکن وہ بیچارہ بھاجپائی نکل گیا ۔ سومترا دراصل نیکر دھاری بھاجپائی نہیں ہے۔ اس نے اگر بچپن میں آر ایس ایس کی شاکھاکے اندر لاٹھی چلانا سیکھی ہوتی اور وہیں سنگھ کی مہیلا واہنی میں سجاتا سے پریم وواہ کیا ہوتا تو اس کی ناراضگی جائز ہو تی ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بنکورہ ضلع کے درلبھ پور گاوں میں دھننجئےخان اور آشارانی کے گھر میں پیدا ہوا۔اسکا تعلق سنری ذات سے ہے۔ 31سال کی نوعمری میں کٹوپور حلقۂ انتخاب سے کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر رکن اسمبلی بنا ۔ دو سال کے بعد اس نے کانگریس کو چھوڑ کر ٹی ایم سی میں شمولیت اخیتار کی۔ اس کا الزام یہ تھا کہ کانگریس بنکورہ ضلع کو نظر انداز کررہی ہے ممکن ہے خود کو اہمیت نہ ملنے کے سبب بے چین رہا ہو وزیر بن جانے کی خواہش نے یہ اقدام کرایا ہو۔ کون جانے؟ 2014 کے انتخاب میں اسے ٹی ایم سی نے ایوانِ بالا کے ٹکٹ سے نواز دیا اور وہ کامیاب ہوگیا۔ یہ وہی ٹی ایم سی ہے جس میں جانے کے سبب اس نے اپنی زوجہ کو طلاق دی ہے ۔ 2019کے پارلیمانی انتخاب سے پہلے سومترا نے پھر سے پینترا بدلا اور بی جے پی کا رخ کیا ۔ اس وقت مکل رائے کو بی جے پی والے ناردا چٹ فنڈ معاملے میں سی بی آئی جانچ کے ذریعہ بلیک میل کررہے تھے ۔ مکل رائے نے اپنی جان بچانے کی خاطر زعفرانی گنگا میں سومترا کے ساتھ ڈبکی لگائی ۔ بی جے پی کے پاس آدمیوں کی کمی تھی ۔ اس نے نووارد سومترا خان کو ٹکٹ دے دیا اور وہ کامیاب ہوکر ایوان پارلیمان کا رکن بن گیا ۔ اس طرح ۹ سال کے اندر ازخود ۳ پارٹیاں بدلنے والے نے اپنی بیوی کو پارٹی بدلنے کے سبب طلاق دے دی ۔ سومترا کے بی جے پی میں جاتے ہی ترنمول نے انہیں ملازمت دلانے کی خاطر جھوٹی امید دلا کر رقم اینٹھنے کے الزام میں گرفتار کرلیا اور ہائی کورٹ نے ان پر اپنے حلقۂ انتخاب میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی۔ سومترا نے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی تو اس نے ہائی کورٹ کا فیصلہ تو نہیں تبدیل کیا لیکن پرچۂ نامزدگی داخل کرنے کے لیے داخلے کی اجازت دے دی۔ انتخابی مہم کی تشہیر میں حصہ لیے بغیر سومترا نے 78,047 ووٹ کے فرق سے زبردست کامیابی درج کرائی ۔ سومترا اور سجاتا کے درمیان رشتوں میں غالباً وہیں سے دراڑ پڑی۔ مبصرین کا خیال ہے سومترا نے وہ انتخاب سجاتا کی کڑی محنت کے سبب جیتا تھا۔ یہ محض گمان کی بات نہیں بلکہ سومترا نے اپنی پریس کانفرنس میں اس کا اعتراف کیا کہ :’’ ان کی اہلہج نے پچھلے انتخابات کے دوران انتخابی مہم مں مدد کی تھی لکنا ان کی جتت ان کی پارٹی کے حمایت کے بنا ناممکن ہوتی‘‘۔سومترا خان کے اس بیان سے پتہ چلتا ہے وہ نہ صرف ابن الوقت بلکہ احسان فراموش بھی ہیں ، جس بیوی نے ان کو انتخاب میں کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے جی جان کی بازی لگا دی اسی کو انہوں نے دھوکہ دے دیا ۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب کے دوران سجاتا کو خود اور ترنمول کو ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کا احساس ہوگیا ۔ سجاتا کو شاید اس بات کی امید نہ ہو کہ انہیں اپنے علاقہ سے بی جے پی کا اسمبلی کا ٹکٹ ملے گا اس لیے انہوں نے ٹی ایم سی کا رخ کیا ۔ ٹی ایم سی کے لیے سومترا کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے اس سے اچھا موقع اور کیا ہوسکتا تھا ۔ سومترا نے نامہ نگاروں سے کہا کہ ’ہر گھر مں لڑائی ہوتی ہے لکنا آپ نے اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لےخ فیلت پر ساٹست کو فوقتم دی ہے۔ آپ خود پھنس گئی ہںت اور یہ آپ کی بہت بڑی غلطی ہے‘۔جہاں تک عزائم کی تکمیل کے لیے پارٹی بدلنے کا سوال ہے یہ سبق تو اسی نے اپنی اہلیہ کو پڑھایا اور اب وہ خود اپنے جال میں پھنس گیا۔ ایسے میں سجاتا کا یہ سوال واجبی معلوم ہوتا ہے کہ :’ ’آج مں نے یہ فصلہ کار ہے لکنت اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ مستقبل مںن سومترا خاں خود مر ی پارٹی مںط شامل نہںل ہوں گے؟‘‘۔ سومترا سے زیادہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سجاتا نے انڈین ایکسپریس کے نامہ نگار سے کہا کہ خاندان اور سایست پر ایک ہی پلٹ فارم پر بات نہںس ہو سکتی ہے لہذا گھریلو باتوں کو نہ چھیڑیں۔سومترا اور سجاتا کی سیاست تو گویا سسرال اور میکے کی ایسی مہابھارت بن گیا ہے جس میں کبھی بیوی روٹھ کر میکے چلی جاتی ہے یا تو کبھی گھر دامادکو سسرال سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ سجاتا مونڈل خان کا موقف یہ ہے کہ ’’ازدواجی اور سایسی زندگی الگ الگ ہوتی ہے‘‘۔ انہوں نے سوال کیا کہ :’’ اگر مرنی سا سی زندگی کی وجہ سے مجھے طلاق دے دیا جائے تو اس سے زیادہ افسوس کی بات کا ہوسکتی ہے؟ وہ لوگ کہاں ہںگ جو خواتن کی عزت اور وقار کی بات کرتے ہںے؟؟ سجاتا نے اپنے طلاق دئےد جانے کے اعلان پرتنقدی کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک طرف بی جے پی مسلم خواتنگ کی ہمدرد ی کا دعویٰ کرتی ہے اور تنک طلاق پر پابندی کا کریڈٹ لینے ہے، مگر دوسری طرف بی جے پی رکن پارلمنٹک صرف اس وجہ سے مجھے طلاق دینے کا مڈ یا میں اعلان کرتا ہے کہ مںا نے ترنمول کانگریس مںل شامل ہونے کا فصلہو کاک ہے۔‘‘ اس معاملے سنگھ پریوار سمیت پورے ذرائع ابلاغ کو سانپ سونگھ گیا ہے اور سارے مگر مچھ کے آنسو خشک ہوچکے ہیں ۔ کسی میں جرأت نہیں ہے کہ اس پر تبصرہ کرے ایسے میں ہندو خواتین یہ ضرور سوچتی ہوں گی کہ آخر ان بھگوا داریوں کو ان سے ہمدردی کیوں نہیں ہے ؟ ان کا کیا قصور ہے جبکہ انہوں نے’بہت ہوا ناری پر اتیاچار، اب کی بارمودی سرکار‘ پر لبیک کہہ کر بی جے پی کو ووٹ بھی دیا تھا اور جہاں تک سجاتا کا سوال ہے اس نے تو بی جے پی کے ٹکٹ انتخاب لڑنے والے اپنے شوہر کا پرچار بھی کیا تھا ۔٭
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری )