سرما ؛مومن کے لیے موسم بہار

0
368

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
ان دنوں موسم سرما اپنے شباب پر ہے،ملک کے طول و عرض میں سردی کی سخت لہر سے ہرکوئی مضطرب و بے چین ہے، ٹھنڈی اور یخ بستہ ہواوؤں سے محفوظ رہنے کے لیے لوگ مختلف اسباب ووسائل اختیار کررہے ہیں اورہر کوئی اپنی اپنی حیثیت و وسعت کے مطابق گرمی حاصل کرنے کے لیے انتظامات کرتا نظر آرہاہے۔اِس کائناتِ رنگ و بو میں اللہ ربّ العزت کی تخلیق کے بے شمار مظاہر میں سے موسموں کا تغیر و اختلاف بھی قدرت کی عظیم نشانی ہے۔اللہ تعالی نے تعریف و تعارف کی مصلحت سے جہاں انسانی مزاج و طبیعت،رنگ ونسل اور خاندان و قبیلے میں اختلاف رکھا ہے،وہیں سال کے موسموں میں بھی تنوع اور رنگارنگی ودیعت فرمائی ہے۔مفسر قرآن حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ” یُقَلِّبُ اللَّہُ اللَّیْلَ وَ النَّھَار” کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ پاک دن و رات میں تصرف کرتا ہے چناچہ اس کو لمبا کرتا اور اس کو چھوٹا کرتا ہے،یہاں تک کہ دونوں برابر ہوجاتے ہیں،پھر جو لمبا تھا وہ چھوٹا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور جو چھوٹا تھا وہ لمبا ہونے لگتا ہے،اور اللہ ہی اپنے حکم،اپنی طاقت، غلبہ اور علم سے ان میں تبدیلی لاتا ہے،بلا شبہ اس میں اللہ تعالی کی عظمت کی دلیل ہے ”(تفسیر ابن کثیر)
قرآن مجید سمیت دیگر آسمانی کتابوں میں گرد وپیش کے واقعات، تغیر پذیر حالات اور حوادث زمانہ سے سبق حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے، جگہ جگہ انسان کو مختلف اسالیب میں تفکر و تدبر کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ آسمان و زمین کی پیدائش،شب و روز کی گردش اور موسموں کے تغیر نیز خود اپنی تخلیق و آفرینش پر غور کرے؛ تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اُس پر آشکار ہوسکیں۔قرآنِ مجید نے بندۂ مومن کی بنیادی صفات و شرائط کے ضمن میں جو اَوصاف ذِکر کئے ہیں اُن میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکر (Cosmology) کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔قرآ نِ حکیم نے آئیڈیل مسلمان کے اَوصاف بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا: بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کھڑے اوربیٹھے اور اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں۔ (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہوکر پکار اُٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔(آل عمران، 3: 190، 191)بہ حیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم زندگی کے شب وروز اور ماہ و سال کی تبدیلی سے عبرت حاصل کریں ،اور یہ جان لیں کہ وہ اللہ کتنا طاقت و قدرت والا ہے جو دن و رات میں تبدیلی کرتا ہے اور موسموں کو ادلتا بدلتا ہے ۔نیزہم اس بات پربھی غور کریں کہ اگردنیا میں ہمیشہ ایک ہی موسم اور ایک ہی درجۂ حرارت و برودت رہے توہرطرف انتشار برپاہوجائے ، بد مزگی اوربے رنگی پیدا ہو جائے ، وقت گزرنے کا احساس ختم ہو جائے اور رنج کی کیفیت کبھی راحت میں بدلنے نہ پائے ۔غور کیاجائے تو سال کے ان بدلتے موسموں میں بندہ مؤمن کے لئے اس کے ایمان و اعمال،رہن سہن،چال ڈھال اور تبدیلی و انقلاب سے متعلق سبق آموزی کے ایسے مظاہرموجود ہیں؛جن میں غور و خوض کرکے وہ دنیا اور آخرت سنوار سکتاہے ،البتہ اکثر لوگ ان چیزوں سے ناواقفیت کی بناء پر بغیرعبرت و موعظت کے ہرموسم یوں ہی سرسری گزاردیتے ہیں ۔
امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا: جاڑا مؤمن کے لیے بہار کا موسم ہے ۔ امام بیہقی وغیرہ نے اس روایت میں یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ اس موسم کی راتیں لمبی ہوتی ہیں تو مؤمن ان میں قیام کرتا ہے اور دن چھوٹے ہوتے ہیں تو مؤمن ان میں روزہ رکھ لیتا ہے ۔(مسند احمد و بیہقی)سردیاں مؤمن کے لیے موسم بہار اس وجہ سے ہیں کہ مؤمن اس موسم میں عبادتوں کے باغات میں خوب میوے کھاتا ہے ،ریاضت کے میدانوں کی سیر کرتا ہے ؛جیسا کہ مویشی موسم بہار کی چراگاہ میں چرتے ہیں تو وہ موٹے ہو جاتے ہیں اور اپنے جسموں کی اصلاح کرلیتے ہیں اسی طرح مؤمن کے دین کی بھی سردیوں میں ایسی طاعت بجا لانے سے اصلاح ہوجاتی ہے ؛جس کی حق تعالیٰ شانہ نے اسے توفیق دی ہے ۔ مؤمن موسم سرما میں بغیر تکلیف و مشقت کے روزہ رکھ لیتا ہے اسے بھوک اور پیاس نہیں ستاتی کہ دن چھوٹے چھوٹے اور ٹھنڈے ہوتے ہیں اس طرح اسے روزے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔حضرت عبید بن عمیرؒ کے بارے میں مروی ہے کہ جب سردیوں کا موسم آتا تو کہتے ، اے قرآن والو! تمہاری راتیں قرآن پاک کی تلاوت کے لیے طویل ہوگئیں۔ پس تم قرآن میں وقت گزارو اور روزے رکھنے کے لیے دن چھوٹے ہوگئے تو تم روزہ رکھو۔
ماہرین موسمیات سردی اور گرمی کی شدت کے جو ظاہری وجوہ بتلاتے ہیں ،وہ سب اپنی جگہ مسلم ہیں؛مگراحادیث کے مطابق سرما میں شدت کی سردی اور گرما میں شدت کی گرمی جہنم کی سانس کی وجہ سے ہے ؛جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’ جہنم نے اپنے رب کے پاس شکایت کی،چناچہ کہا: اے میرے رب میرے ایک حصہ نے دوسرا حصہ کھایا، تو اللہ نے اس کو دو سانسوں کی اجازت دی ، ایک سانس سرما میں اور دوسری سانس گرما میں ، چناچہ یہی وہ شدت کی گرمی ہے ،اور وہ شدت کی سردی؛جسے تم محسوس کرتے ہو ‘‘(صحیح البخاری)یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی جنتیوں کو شدت سردی اور شدت گرمی سے محفوظ رکھے گا۔(سورہ دہر)
موسم سرما میں عبادت کا لطف :
روزہ:ترمذی شریف کی روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا کہ جاڑے میں روزے رکھنا غنیمت باردہ حاصل کرنا ہے۔غنیمتِ باردہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ غنیمت جو بغیر کسی جھگڑے اورتھکن و تعب کے حاصل ہو جائے ۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں کہ: موسم سرما مبارک ہوکہ اس میں برکت نازل ہوتی ہے ، قیام کے لیے رات طویل ہوتی ہے روزہ رکھنے کے لیے دن چھوٹا ہوتا ہے اور حضرت حسن بصریؒ نے بھی فرمایا، مؤمن کا بہترین زمانہ سردیوں کا زمانہ ہے ، رات طویل ہوتی ہے کہ اس میں قیام کرتا ہے اور دن چھوٹے ہوتے ہیں کہ اس میں روزہ رکھ لیتا ہے ۔
قیام اللیل:سردیوں کی راتوں میں قیام کرنا نفوس پر دو وجہوں سے بھاری ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ نفس کو جاڑے کی شدت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہونے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔ داؤود بن رشید کہتے ہیں کہ میرے ایک بھائی شدت کی سردی میں ایک رات نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے ان پر دو بوسیدہ کپڑے تھے ، جب انہیں سردی نے ستایا تو رونے لگے ۔ ایک پکارنے والے نے ان سے کہا، ہم نے تجھ کو نماز پڑھنے کے لیے کھڑا کیا اور دوسروں کو سلائے رکھا پھر بھی تو ہمارے سامنے رو رہا ہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ جاڑے کی شدت میں پورا وضو کرنے میں نفس کو تکلیف محسوس ہوتی ہے اور سردی کی شدت میں کامل وضو کرنا اعمال میں افضل عمل ہے ۔
وضو:صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا، کیا میں تمہیں ایسی چیزوں کی خبر نہ دوں کہ جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ خطائوں کو مٹادے اور درجات بلند کردے ۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، ضرور یارسول اللہ!۔ آپﷺنے فرمایا، نفس کی تکلیف کے وقت وضو کو پورا کرنا اور مسجد کی طرف کثرت سے چلنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں رہنا۔ یہی رباط ہے یہی رباط ہے ۔
حضرت معاذ بن جبلؓ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺنے پروردگار تعالیٰ کی خواب میں زیارت کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے محمد! ملأ اعلیٰ کس چیز کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں؟ آپ نے جواب دیا، درجات اور کفارات کے بارے میں۔ فرمایا، کفارات یعنی جن سے گناہ معاف ہوں وہ ناپسندیدگی کے وقت وضو کو پورا کرنا، قدموں کا جمعہ کی نماز کے لیے اور ایک روایت میں ہے جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے مسجد کی طرف چلنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں رہنا۔ جس نے یہ کام کیے وہ خیر کے ساتھ زندگی گزارے گا اور خیر کے ساتھ مرے گا اور اپنے گناہوں سے پاک ہو جائے گا جبکہ لوگ محوِ خواب ہوں گے ۔ (ترمذی و احمد)
جاڑے سے روک تھام کے ذرائع اختیار کرنا:
موسم سرما میں سردی سے بچنے کے اقدامات کئے جانے چاہئے ؛تاکہ سردی کے مضر اثرات سے بچا جائے ،چناچہ اللہ تعالی نے سردی سے بچنے کے لئے ہمیں اسباب عطا کئے ہیں اور گرمی کے ان اسباب کو صیغہ امتنان سے ذکر فرماتے ہوئے کہاہے : ’’اور اسی نے چوپائے پیدا کئے ، جن میں تمہارے لئے گرمی کے لباس(اسباب) ہیں اور بھی بہت سے منافع ہیں ‘‘۔(النحل : 5)، اور فرمایا ’’ اور اللہ نے ہی تمہارے لئے تمہارے گھروں میں سکونت کی جگہ بنادی ہے اور ان (چوپایوں) کی اون،روئی اور بالوں سے اس نے بہت سے سامان اور ایک وقت مقررہ تک کے لئے فائدے کی چیزیں بنائیں ‘‘(النحل : 80) ۔
مذکورہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ گرمی دینے والے اسباب اللہ کی نعمت ہیں؛جنہیں بغیر کسی تردد کے استعمال کرنا چاہئے ،اور ان کے استعمال کے وقت اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے ، چناچہ عمر رضی اللہ عنہ نے حکومتی سطح پر اپنی رعایا کو یہ حکم بھیجا کہ : ’’ موسم سرما آچکا ہے ، لہذا تم اون( کے کپڑے)، موزے ، وغیرہ پہن کر اس کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ، کیونکہ یہ سردی دشمن ہے ،جو جلدی داخل ہوجاتی ہے ،جبکہ دیر سے نکلتی ہے ‘‘ حافظ ابن رجب نے کہا کہ: یہ عمر رضی اللہ عنہ کا اپنی رعایا کے ساتھ مکمل خیرخواہی ، حسن نگرانی ، شفقت اور اہتمام کا بین ثبوت ہے ۔( لطائف المعارف ،از ابن رجب : ص:330)
نادار و مفلس لوگوں کے کام آنا:
اسلام وہ کامل ومکمل مذہب جو انسانیت کی تعلیم دیتاہے ،اسلام کے بغیر انسانیت نوازی کا کوئی تصور نہیں کیاجاسکتا؛یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں جہاں اپنی ذات سے متعلق حقوق بیان کیے گئے وہیں دوسروں کے حوالے سے عائد ہونے والے فرائض کی نشان دہی بھی کی گئی ؛لہذا موسم سرما کی مناسبت سے ہم ان فاقہ کشوں، محتاجوں ،فقیروں اور مسکینوں کو ہرگز نہ بھولیں جوکس مپرسی کی وجہ سے سردی کی خنک راتوں میں ٹھٹر کر رہ جاتے ہیں اور گرمی حاصل کرنے کا کوئی سامان نہیں پاتے ۔
موسم سرما میں ہمارے بھائی کئی طرح کی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں، بیماریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ،محنت ومزدوری، تجارت و کاروبار وغیرہ جیسے معاشی اسباب کا سلسلہ بھی کسی قدر سست پڑجاتا ہے؛جس کی وجہ سے محتاجوں اور حاجت مندوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے؛اس لیے ہمیں بہ قدر استطاعت غریبوں،محتاجوں،بیواؤں،مسکینوں،یتیموں اور ناداروں کی مددکر کے اپنی آخرت کا سامان کرنا چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ انسان دوستی کا ثبوت بھی پیش کرنا چاہئے۔سرکاردوعالمﷺنے ارشادفرمایا:اللہ تعالی بندے کی مدد میں لگا رہتاہے ؛جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مددمیں رہتاہے ۔(مسلم)
دعوت فکر و عمل:
درج بالا سطور میں نہایت اختصار کے ساتھ ان چیزوں کا ذکر کیا گیا؛ جن کی اہمیت کا ہم موسم سرمامیں اندازہ لگا سکتے ہیں؛لیکن یاد رکھیں !یہ چند دن کی سختیاں ہم سے جھیلی نہیں جاتیں اور اس کے لئے ہم سہولتوں کا انتظام کرنے لگتے ہیں،اور بہ قدر وسعت کرنا بھی چاہیے ؛مگرعاقبت نااندیش ہے وہ شخص،جو دنیا میں رہ کر اپنی زندگی مرضیٔ خدا اور تعلیماتِ شریعت کے خلاف گزارتاہے، وہ آخرت میں سزا کا مستحق قرار پائے گا جہاں کی سختیاں ابدالآبادہوں گی ،ہمارا کمزوربدن اور ناتواں جسم دنیا کی معمولی سردی اور ہلکی سی خنکی برادشت نہیں کرسکتاتو پھر آخرت کی ہولناکیوں کا کیا مقابلہ کرپائے گا ۔اسی لئے ہمیں چاہیے کہ ہم زندگی کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالیں،نیزدن و رات کی تبدیلیوں اور ماہ وسال کی گردشوں سے سبق لینے کی کوشش کریں ؎
انقلابات جہاں واعظ رب ہیں سن لو
ہر تغیر سے صدا آتی ہے فافہم فافہم

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here