محمد ناظم القادری الجامعی دیناجپوری
زراعت کی حیثیت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی رہی ہے، جس طرح ریڑھ کی ہڈی کو جسم کی تمام ہڈیوں پر فوقیت حاصل ہے اسی طرح زراعت کے شعبہ کو دیگر شعبوں پر برتری حاصل ہے. تمام شعبوں کی ترقی کا دارومدار زراعت کے شعبہ پر ہے. زراعت کا پیشہ کوئی نیا پیشہ نہیں ہے بلکہ دنیا کا سب سے پہلا انسان ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام نے اس پیشہ کو اختیار فرماکر اس کو اہمیت کا حامل بنایا. ان کے علاوہ کئی ایک انبیائے کرام علیہم السلام نے کاشت کاری کا عمل اختیار فرمایا. کیوں کہ یہ ایسا پیشہ ہے اگر اس پیشہ کو احکام خداوندی کی بجاآوری کے ساتھ کیا جائے تو تقرب الہی کا ذریعہ بھی ہے. خلق خدا کی خدمت بھی اس حرفت میں مضمر ہے. کیوں کہ ایک کسان دن رات محنت مشقت کرکے دھوپ میں جل بھن کر جو فصل اگاتا ہے وہ خود اس سے کم فیضیاب ہوتا ہے البتہ معاشرہ زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے. یہی طبقہ انسان کو بھوک وپیاس کا سامان فراہم کرتا ہے. روٹی، چاول،اجناس اور پھل فروٹ کی شکل میں ہمہ وقت انسانیت کی حیات وبقاکی خاطر اپنے آپ کو تج دیتے ہیں. نہ انھیں سردی کی کوئی پرواہ ہوتی ہے نہ گرمی کا کوئی اندیشہ، نہ آندھی طوفان ان کی راہ کےروڑے ثابت ہوتے ہیں.
خود قران کریم نے زراعت کی اہمیت وافادیت کو بتلانے کے لیے متعدد جگہوں پہ زراعت اور اس کے پس منظر کو ذکرکے اس کی فضیلت میں چار چاند لگا دیا ہے. چناں چہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:”وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے تمہارا پینا ہے. اور اس سے درخت ہیں ،جن سے چراتے ہو، اس پانی سے تمہارے لیے کھیتی اگاتا ہےاورزیتون اور کھجور اور انگوراور ہر قسم کے پھل، بے شک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں کو”(النحل،۱۱)
دوسری جگہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:”تو ہم نے اس سے ہر اگنے والی چیز نکالی تو ہم نے اس سے نکالی سبزی جس میں دانے نکلتے ہیں ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے اور کھجور کے گابھے سے پاس پاس گچھےاور انگور کے باغ اور زیتون اور انار کسی بات میں ملتے اور کسی بات میں الگ اس کاپھل دیکھو، جب پھلے اور اس کا پکنا، بے شک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے”(الانعام، ۹۹)
ان آیات کریمہ میں باری تعالیٰ نے قسم قسم کے غلے، اجناس، پھل فروٹ وغیرہ کے رنگ برنگے مختلف انواع واقسام کا تذکرہ فرمایا ہے، یہ ساری غیر معمولی نعمتیں ایک کسان ہی کاشت کےمصائب وآلام کو جھیل کرزمین سے درآمد کرتا ہے جس سے مخلوق خدا وندی مستفید ہوتی ہے.
اس کی فضیلت کے تئیں احادیث کریمہ بھی وارد ہوئی ہیں. چناں چہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:”رزق کو زمین کی پنہائیوں میں تلاش کرو”(الجامع الصغیر للسیوطی)
اوروایک روایت میں یوں وارد ہے کہ کسان اپنے رب کے ساتھ تجارت کرتا ہے. زراعت وفلاحت کو اتنا پسندیدہ عمل گردانا گیا ہے کہ ہر درخت سے نکلنے والے پھل پر نیکی وثواب کا وعدہ کیا گیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے:”جو مسلمان بھی کاشتکاری کرتاہے،پودا لگاتا ہے، اس سے پرندے، انسان یا جانور کھاتے ہیں تو وہ اس کے حق میں صدقہ ہو تا ہے.
الغرض کسان اور کاشتکار سماج اور معاشرہ کا ایک اہم جز ہے. اس کی سماجی اور معاشی حیثیت معاشرہ میں اپنی جگہ مسلم ہے. یہ قابل قدر طبقہ ہے، ان کی محنت قابل رشک ہوتی ہے. لیکن موجودہ حکومت کی کسان کے حق میں کوتاہ بینیاں ملک ہندوستان میں رہنے والے ہر کس وناکس پر عیاں ہیں اورکسانوں اور مزدوروں کے حق ارباب اقتدار کا جو منفی رویہ ہے وہ بھی واضح ہے. ان کے حقوق پامال کرنے کی ناپاک سازشیں رچائی جا رہی ہیں، ان کے خلاف کالے قانون لائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے کسانوں کی ساری محنتیں اور مشقتیں رائگاں چلی جاتی ہیں، جس کے باعث کتنے کسان ایسے ہیں جنھیں خود کشی کرنے پڑتے ہیں. ۳۰نومبر ۲۰۱۸میں بی بی سی کے رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے تین لاکھ کسانوں نے قرض کے باعث خود کشی کرلی. اور ۲۰۱۹میں (این سی آر بی) دس ہزار سے زائد کسانوں نے خود کشی کی اور آج کی تاریخ میں بھی کسان مصائب وآلام کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں، لیکن ارباب اقتدار کو کسانوں، مزدوروں کی یہ غیر معمولی تباہی وبربادی کی کوئی فکر لاحق نہیں ہے بلکہ ارباب اقتدار کسانوں کے محسوسات، جذبات خواہشات اورتجربات کے شیشہ پر تیشہ چلانے کا موقع ڈھونڈ رہے ہیں. حالانکہ ملک کی ترقی کا راز کسانوں، مزدوروں کی مفادات کے تحفظ میں پنہاں ہے، اس ملک کی حیرت انگریز فلاح وبہبود کے لیے فلاحت وزراعت کی قدر از حد ضروری ہے. کیوں کہ کسانوں کی محنت کو رائگاں کرنا ملک کو تنزلی کے گڑھے میں ڈالنا ہے. اس دیس کی رونق کسانوں کی جد وجہد پر منحصر ہے. ملک کی صنعتی ارتقا کا دارومدار بھی زرعی ارتقا پر ہے، کیوں کہ صنعتی شعبہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے یہی شعبہ خام مال فراہم کرتا ہے. یہی وہ شعبہ ہے جس کے ذریعہ کوئی بھی ملک زرمبادلہ حاصل کرتا ہے. اگر کسی ملک کے زراعت کا شعبہ کمزور ہوتو وہ ملک کثیر رقم کے عوض دوسرے ملکوں سے اناج حاصل کرتے ہیں.جس سے اس ملک کی معیشت پر دباؤ پڑتا ہے. لہذا صاحب اقتدار کو کسانوں کی سرگرمیوں کا احترام کرکے ان کی مانگ کو پوری کرنا ضروری ہے۔