طویل عرصے سے ہر ایک زبان پر ایک بات عام ہے کہ اپنا بھی ایک میڈیا ہائوس ہونا چاہئے آج کل کچھ زیادہ ہی اس کا شور غل ہے خاص طور پر سوشل میڈیا پر۔ لیکن اپنے میڈیا ہائوس چاہنے والے خود بھی نہیں جانتے کہ وہ اپنا کیسا میڈیا ہائوس چاہتے ہیں؟ کیا ایسا، جو آپ کے حقوق کی لڑائی لڑسکے، حکومت سے ٹکرا سکے، آپ کی آواز بنے، قوم کو بیدار کرے، متحد کرے، ایک صف میں کھڑا کرے؟ تعلیم یافتہ کرنے کے اسباب پیدا کرے؟ ظالم کے خلاف ہو مظلوم کی آواز بنے، کسی کارپوریٹ، سیاسی پارٹی اور مذہبی تنظیموں سے مستثنیٰ ہو تو ایسے تو بہت سے اخبار ہیں، چینل ہیں، نیوز پورٹل ہیں جو آپ کے لئے حکومتوں سے آپ کی لڑائی لڑرہے ہیں، آپ کی بات کررہے ہیں، آپ کی آواز اُٹھا رہے ہیں، قوم کو بیدار بھی کررہے ہیں اور قوم کو متحد بھی کررہے ہیں لیکن آپ دانشور، منصف، آزاد خیال، غیرمتعصب اور سیکولرزم افراد کی صف میں اپنے کو دکھاتے تو ضرور ہیں لیکن ہیں نہیں کیونکہ آپ نے تعصب کی ایسی عینک لگا رکھی ہے جس میں آپ کو ابھی بھی سُنی، شیعہ، بریلوی اور وہابی ہی نظر آتے ہیں مسلمان کوئی، نہیں نظر آتا اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ کبھی اپنا میڈیا ہائوس بنانے کی بات نہ کرتے بلکہ جو بھی آپ کے اپنے میڈیا ہائوس کی ضروریات کو پوری کرتا آپ اس کو اپنا لیتے۔
اگر اپنے سے مراد مسلمان ہیں یا مسلمانوں کے اس فرقے سے ہیں تو گذشتہ 70 برسوں سے سبھی فرقے کے لوگوں نے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں آپ کی نمائندگی کی لیکن کتنوں نے آپ کے لئے اپنی پارٹی یا اپنی حکومت کے خلاف جاکر آپ کا ساتھ دیا؟ گذشتہ اسمبلی میں 64 ایم ایل اے تھے اور جب مظفرنگر میں مسلمانوں کے گھر جل رہے تھے تو سب کے سب سیفئی میں راس لیلا دیکھ رہے تھے آج بھی 27 ایم پی پارلیمنٹ میں ہیں لیکن کیا کوئی اپنی پارٹی کے خلاف یا ساتھ میں آپ کے ساتھ شاہین باغ سے لے کر دہلی میں ہر روز ہورہی گرفتاری میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوا۔
اس لئے اپنا اپنا نہ کیجئے جو اپنوں کا ساتھ دے، اپنائیت کی بات کریں بس اُنہیں اپنا لیجئے ورنہ مولانا آزاد سے زیادہ تو کوئی اپنا نہیں ہوسکتا اور ان کا اخبار ’الہلال‘ سے زیادہ کون اپنا اخبار ہوسکتا ہے آپ نے تو اسے بھی اپنا نہیں بنایا اور وہ ماضی کی داستان بن گیا، اس لئے للہ ماضی سے سبق لیں اور کسی نئے اپنے کی تلاش چھوڑکر موجود کسی اپنے کو اپنا بنالیں اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور آپ کے اپنے میڈیا ہائوس کی تعبیر بھی۔
٭٭٭