تمام مذاہب میں اجتماعیت اور میل ملاپ انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، مگر نئے کورونا وائرس کی وبا نے تمام مذاہب کی اس اساس ہی کو ہلا کر رکھ دیا ہے، کیوں موجودہ صورت حال میں ماضی کی طرز کے اجتماعات غیرمحفوظ ہیں۔
تنزانیہ کے صدر نے دعویٰ کیا کہ کورونا وائرس یسوع مسیح کے جسم میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اسرائیلی وزیر صحت نے ممکنہ کرفیو کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘مسیح آئے گا اور ہمیں بچا لے گا‘، ادھر مسلمانوں کی تبلیغی جماعت کے اجتماعات منعقد ہوئے، مگر اب ان پر دنیا بھر میں اس بیماری کے پھیلاؤ کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔
گو کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اہم مذہبی رہنماؤں نے حکومتوں کی جانب سے وبا کے انسداد کے لیے اجتماعات محدود کیے جانے کے اقدامات کی حمایت کی ہے، مگر کچھ مذہبی اقلیتیں ایسی بھی ہے، جو ان اقدامات کے خلاف ہیں۔ اس وقت بعض افراد کا موقف ہے کہ موجودہ صورت حال میں اجتماعی عبادت کی ضرورت نہیں اور یہ عبادت تنہا ہو سکتی ہے، مگر کچھ افراد اس سے اختلاف کرتے ہوئے مذہب کو سائنس سے بلند درجہ دیتے ہیں اور ان کے مطابق ‘ایمان اور یقین‘ بیماری کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
وبا گو کے قومی سرحدیں یا رنگ و نسل دیکھے بغیر پھیلتی ہے اور اس وبا کے آغاز میں بہت کم ممالک نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے انسداد کے لیے سخت اقدامات یا لاک ڈاؤن کیے۔ تاہم وبا کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار چوں کہ اجتماعات نے ادا کیا، اس لیے ماہرین کی جانب سے مسلسل مطالبات سامنے آتے چلے گئے کہ انسانی نقل و حرکت محدود کی جائے۔