(احمد رضا)
سہارنپور: کرونا وائرس کی مہاماری کے دوران بھی ہمارا شہر گندگی اور غلاظت کا مرکز بناہواہے ماہ رمضان میں کہیں کوئی صفائی نہی ہے سڑکونپر کتوں کی بہتات کیساتھ ساتھ گندگی کے بھی امبار ہر محلہ میں صاف نظر آرہے ہیں سینیٹائزرس تو دور یہاں پینے کا شفاف پانی بھی عوام کو میسر نہی ہے جہاں اتر پردیش میں بھاجپا سرکار کے بر سر اقتدار آجانیکے بعد یعنی مئی ۲۰۱۷ سے سہارنپور کے بیشتر علاقہ بنیادی سہولیات سے محروم ہوکر رہگئے ہیں جگہ جگہ پانی جمع ہونے، پینے والے شفاف پانی کی دھیمی سپلائی، اسٹریٹ لائٹ کی قلت اور نالے ونالیوں میں جمع غلاظت سے عام آدمی اپنی بے بسی پر آنسو بہانیکو مجبور ہے وہیں اسمارٹ سٹی کی دوڑ میں شامل سہارنپور نگر نگم ہائوس ٹیکس، واٹر ٹیکس اور سیور ٹیکس میں ۲۰۱۷ سے ابھی تک تیب گنا بڑھوتری کاریکارڈ بنا چکاہے اسمارٹ سٹی کے نام پر ملنے والے روپیوں کی بندر بانٹ کا چرچہ چاروں طرف ہے اسلئے نیتا ، کونسلر اور افسران عوام کی پریشانیوں سے منھ ہٹائے ہوئے ہیں جبکہ آج بھی نگر نگم کے سیکڑوں علاقہ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں بھاجپائی سرکار کے ذمہ دار لیڈران ہر میٹنگ اور جلسہ میں تال ٹھوک کر کہتے ہیں کہ ہم نے شہر کو اسمارٹ سٹی بنا دیاہے اسی جملہ کو سنہرا جھول پہنانے کے چکر میں مقامی سرکاری مشینری صفائی ابھیان اور رنگ برنگی اسٹریٹ لائٹ لگانے میںپچاس کروڑ سے زائد کا صرفہ صرف اور صرف دکھاوے میں کر چکی ہے مگر ہمارا اسمارٹ سٹی سہیطور سے آج بھی پینے کے صاف شفاف پانی کی کمی ، آلودگی کی بہتات، چاروں جانب پھیلی گندگی کے امبار اور سڑکونپر لگنے والے جام اور ناجائز قبضوں سے دوچار ہے جگہ جگہ ٹریفک اور نائز قبضوں کی بھرمار بے شہر کے عوام کو خون کے آنسو بہانیکو مجبور کردیاہے شہر کی سڑکوں پر ہرروز چھہ سے سات سڑک حادثات روزانہ کاایک معمول بن چکے ہیں مہلوکین کے وارثین کی چینخ وپکار انتظامیہ کو سنائی نہی دیتی ہے پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ ہم اسمارٹ سٹی کے رہائشی ہیں؟
عام رائے یہ ہے کہ آپ ایماندار ہیں تو خبر کی سچائی جاننے کیلئے آج سے دس دن کے درمیاں کبھی بھی شہر سے چھہ چھہ کلومیٹر کے دائرے میں چاروں جانب پھیلے ہمارے اس اسمارٹ شہر کا اپنی کھلی آنکھوں سے معائنہ کر سکتے ہیں اور پھر بتا سکتے ہیں کہ شہر واقعی شہر ہے یاپھر آلودگی اور گندگی سے گھرا سو سال پرانا شہرسہارنپورگزشتہ ۲۰۱۷ جون سے لگاتار یہاں نگر نگم کو مسلسل کروڑوں کا بجٹ پسماندہ ، ملن اور مسلم علاقوں کی ترقی اور بہتری کے لئے دستیاب ہوتا رہاہے امسال بھی بہت سی گرانٹ نگم کو موصول ہوچکی ہیں مگر آج ۳۶ماہ بعد بھی یہاں کے دلت، پچھڑے و مسلم علاقہ پینے کے صاف شفاف پانی ، سیور لائن کی کمی ، نالوں نالیوں کی صفائی نہ ہونے، پکی سڑکوں کی معیاری تعمیر اورپانی کی عمدہ طور سے نکاسی نہی ہونے کی جیسی سخت ترین الجھنوںسے دوچارہیںپچھلی دہائیوں میں بھی مسلسل مرکزی سرکار سے جو بھی پیسہ شہری علاقوں کی ترقی کیلئے ابھی تک نگر نگم کو ملاہے اسکا کوئی حساب افسران کے پاس نہی ہے وہ رقم کن علاقوں کی بہتری کے لئے استعمال ہوئی ہے اسکا بھی کوئی حساب یا جواب کسی افسر کے پاس نہی ہے نگر نگم کو شہری علاقوں کی ترقی کیلئے ملنے والی کرڑوں کی رقم کہاں لگی ہے کس طرح سے کس کس کام کیلئے اتنی بڑی رقم استعمال ہوئی ہے یہ سبھی باتیں شہری نگر نگم کے کاغذات میں اگر اندراجتو ہیں مگر بڑے عجیب انداز سے درج ہیں اس ریکارڈ سے یہ کہیں بھی ظاہر نہی ہے کہ جس کام کے لئے یہ پیسہ آیاہے وہ کام کہاں کہاں اور کس شفافیت کیساتھ کرایاگیا ہے سچ تو یہ ہیکہ یہ سب رقم ایک پلان کے تحت بھاجپائی قیادت نے اپنے علاقوں میں اپنے اپنے مفاد میں ہی خرچ کی اور پچھڑیملن و مسلم بستیوں کو ہمیشہ نظر اندا ہی کیا اسی من مانی نے آج پسماندہ علاقوں کو مشکلات میں پھنسادیاہے ستر فیصد پچھڑے علاقہ پینے کے صاف شفاف پانی سے محروم ہیں جگہ جگہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں، نالے نالیوں کا پانی سڑکوں اور گھروں میں بہتا نظر آرہاہے پانی کی بہتر نکاسی کا بھی نظم نہی ہے وہیں مسلم علاقہ تو پینے کے پانی کی شفاش لائن اور سیور لائن سے بھی محروم رکھے گئے ہیں اسٹریٹ لائٹ کی بھی قلت سبھی کے سامنے ہے تیوہاروں کی آمد پر تو یہ انتظامیہ صفائی کیا کرائیگی یہاں تو صاف پینے کا پانی بھی بیشتر علاقوں میں آج بھی دستیاب ہی نہی ہے گلیوں اور سڑکوں پر عوام کے گھروں کے باہر چوڑے اور غلاظت کے ڈھیر لگے رہتے ہیں نگم کے ملازمیں اکثر نالوں کا چوڑا مساجد، مند، گردوارے اور مدارس کے باہر یا سامنے جمع کر دیتے ہیں جس وجہ سے عوام کو کافی دشواری اٹھانا پڑتی ہے اور یہ گندگی گھروں اور اہم مقامات کے باہر ایسے ہی کئی کئی دن تک گھروں اور دکانوں کے باہر جمع رہتی ہے اور بدبو سے مکینوںراہگیروں کا دماغ اس آفت سے کند ہوجاتاہے ایسی پوزیشن کبھی ہندو مسلم علاقوں میں دیکھنے کو نہی ملی کہ جیسا پچھلے تین سال سے دیکھنے میں آرہی ہے!
بہار، یوپی، بنگال، مشرقی و مغربی یوپی کے سیکڑوں افراد یہاں محفوظ ہیں! ڈاکٹر عبدالمالک
سہارنپور (احمد رضا)مقدس ماہ رمضان المبارک نماز ،روزہ ، تلاوت کلام اللہ جیسی عظیم عبادات کا خصوصی مہینہ ہے عبادات کی انہی وجوہات کے ساتھ ساتھ یہ ماہ مبارک خیرخواہی، غم خواری اور صلہ رحمی جیسی عظیم عبادات کرنے کا بھی کل عالم کو شاندار سبق دیتا ہے اللہ کی عمدہ اطاعت اور اللہ کے رسولﷺ کے حکم پر اسی خیرخواہی والے عمل کامرتبہ ایسے وقت میں اور بھی بڑھ جاتا ہے، جب انسان اپنے گھرسے کہیں دور ایسی آفت و مصیبت میں پھنس جائے جہاں کوئی اکو پرسہ دینے والا نہ ہو!آج کل جو کوروناوائرس نے وبائی مرض کی شکل اختیار کر رکھی ہے اللہ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے انہی حالات سے دوچارمختلف صوبوں کے افراد جن میں اتراکھنڈ، بہار، یوپی، بنگال، مشرقی و مغربی یوپی وضلع سہارنپور کی ایک بڑی تعداد حلقہ بہٹ کے ساڈھولی قدیم کے پبلک انٹرکالج میں انتظامیہ کی زیر نگرانی تقریباً ۱؍ماہ سے قیام پذیر ہیں، اسی درمیان مقدس مہینہ کی آمد ہوئی تو آل انڈیا ملی کونسل ضلع سہارنپور کے خادم مولاناڈاکٹر عبدالمالک مغیثی نے روز اول سے اپنا انسانی، دینی و ملی فریضہ سمجھتے ہوئے کالج میں مقیم کورنٹین حضرات کے درپیش مسائل کے لئے ضلع انتظامیہ ، پولس محکمہ و محکمہ صحت سے برابر رابطہ بنایاہواہے الحمدللہ اسی حکمت و مصلحت کے اسلوب کی وجہ سے ان حضرات کے مسائل حل بھی ہورہے ہیں!
رمضان کی آمد سے قبل جامعہ رحمت گھگرولی اس فکر میں کوشاں تھا کہ روزہ داروں کا سحروافطار کا انتظام اچھے طریقہ پر ہوجائے، بہٹ کے S.D.M.دیپتی دیو و C.O.وجے پال صاحبان نے خادم انسانیت عبدالمالک مغیثی کے ساتھ کورن ٹائن سینٹر جاکر معائنہ کیا۔ مقیم حضرات کی ضرورت کو بفضل اللہ بندہ نے جان کر ان کو پورا کرنے کا یقین دلایا او ر فوری ان حضرات کے لئے قرآن کریم، مطالعہ کے لئے کتابیں و دوسری ضروریات کی چیزیں مہیاکرائیں جس پر ان حضرات کو تسلی و تشفی ہوئی!جو اصل مسئلہ پریشانی کا باعث بناہواتھا وہ روزہ داروں کی سحری وغیرہ کا انتظام تھا، بفضل اللہ یہ خدمت ادارہ کے مقدر میں آئی، صرف اس نیت کے ساتھ کہ اللہ ہم گناہ گاروں کے گناہوں کا کچھ بوجھ اس برکتوں والے مہینہ میں کم کردے اور عاقبت سنوارنے کی سعادت عنایت فرمادے،آمین اس خدمت پر افسران نے اطمینان کا اظہار کیا!سہارنپورمیں کورن ٹائن سینٹروں میں سے ساڈھولی قدیم میں خدمت گار عملہ اور قیام پذیر حضرات جن میں حلقہ بہٹ کے ذمہ دار غیر مسلم لیبرودارالعلوم دیوبند کے طلباء بھی ہیں یہاں باہمی تعاون کی وجہ سے خوشگوار ماحول بنارہا سبھی کی بہتر دیکھ بھال کیجارہی ہے حالات ساز گار ہونیپر سبھی کو واپس انکے گھروں کو بھیجنے کا بھی انتظام کرایا جائیگا کل ملاکر اس سینٹر میں حالات بہت بہتر ہیں کسی کوبھی کھانہ وغیرہ کی کوئی پریشانی نہی ہے سبھی ملکراپنے باہر سے آئے شہریوں کو پورا پورا خیال رکھ رہے ہیں! انہی ناخشگوار حالات میںالحمدللہ کئیں روز پہلے اسی تال میل کی وجہ سے لوکل و میرٹھ کے تقریباً 35؍احباب اپنے گھروں تک بعافیت پہنچ چکے ہیں، اور مزید 8؍طلباء دارالعلوم دیوبند بھی اس ساڈھولی قدیم سینٹر سے پرسوں بروزجمعہ کے مبارک دن اپنے اہل خانہ سے جاملے دعاء کریں کہ یہ کوششیں جاری وساری رہیں تاکہ باقی افراد بھی اپنے گھروں کو باعافیت پہنچ سکیں!