9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
وجاہت عبدالستار
ملک میں کرفیو نافذ ہوکر پندرہ دن مکمل ہو چکے تھے ۔کورونا نامی معمولی جرثومے کے خوف نے پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لےرکھا تھا ۔ حکومتوں کے پاس اب تک اس کا کوئی مناسب علاج موجود نہیں تھا اسلئے حکومتیں صرف احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو اپنے گھروں میں قید رہنے کی سختی بنام تلقین کر رہی تھیں۔غذائی اجناس اور ضروریات زندگی کی خریداری کے لئے روزانہ صبح دو گھنٹے کرفیو میں راحت دی جاتی ۔ آج بھی کرفیو میں دو گھنٹے کی راحت ملی تو سب لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل پڑے اور ضروری اشیا کی خرید و فروخت میں مصروف ہوگئے ۔ کچھ بے فکرے ایسے بھی تھے جنہوں نے چالاکی سے تین چار مہینے کے اناج کی ذخیرہ اندوزی کر رکھی تھی۔اس لئے ان اوقات میں باہر آکر وہ گپے شپے لڑاتے رہتے ۔ ندیم نے جیسے ہی حاجی اسلم کو دیکھا مبارک باد دیتے ہوئے کہا ۔
‘ مبارک ہو حاجی صاحب ۔۔ رفیق بتا رہا تھا کہ فیس بک پہ آپ کی تصویر کو پانچ سو زیادہ لائک ملے ہیں ۔۔
‘ہائیں ۔۔! کون سی تصویر ۔۔؟
حاجی اسلم نے پان کی پچکاری مارتے ہوئے پوچھا ۔۔
شاید کسی مسکین کو اناج کی تھیلی پکڑا رہے تھے آپ ۔۔
ندیم نے جواباً کہا تو حاجی اسلم کی باچھیں کھل گئیں اور ان باچھوں سے پان کی پیک رِستے رِستے رہ گئی ۔
‘ اب کیا بتاوں ندیم بھائی … ‘ حاجی صاحب نے پان کو واپس اپنے دانتوں کے چنگل میں پھنساتے ہوئے کہا ۔
‘ بس اللہ کام لے رہا ہے جی ۔۔ لیکن یہ رفیق ہے نا ۔۔بڑا خار کھاتا ہے مجھ پر ۔۔
‘ اچھا ۔۔۔بھلا وہ کیوں ۔۔؟ ندیم نے سوال داغا ۔
‘ ارے اس کی تصویروں کو کوئی نہیں پوچھتا نا فیس بک پر ۔۔۔ حاجی صاحب نےسرگوشیوں کے انداز میں کہا ۔ اس لئے کم لائک والی فوٹو کے بارے میں بتایا ہوگا لیکن مجھے یقین ہے اس نے تمہیں چار ہزار لائک والی پوسٹ کے بارے میں بالکل نہیں بتایا ہوگا ۔۔
‘ چار ہزار ۔۔۔؟ ‘ ندیم نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا ۔۔ ارے واہ واہ حاجی صاحب ۔۔۔چار ہزار لائک معمولی بات نہیں ۔۔۔ واه ..!
‘ صرف لائک ہی نہیں۔۔ سات سو کمنٹ بھی تھے ۔ یہ بتاتے ہوئےحاجی صاحب کا سینہ چھپن انچ چوڑا ہو گیا اور چہرے سے مسرت چھلکنے نہیں بلکہ ٹپکنے لگی ۔
‘ ارے واہ ۔۔۔ بھلا ایسی کیا بات تھی اس پوسٹ میں ؟ ‘
‘ وہی ۔۔۔۔وہ پڑوسیوں والی حدیث نقل کی تھی میں نے ۔۔ حاجی صاحب نے اپنی ٹوپی اٹھا کر سر کھجایا اور کہا ۔ ‘ ارے وہی ۔۔جس میں نبی پاک ﷺ نے فرمایا نا ۔۔کہ تمہاری مدد کے سب سے زیادہ مستحق تمہارے پڑوسی ہیں ۔
‘ ارے واہ واہ حاجی صاحب ۔۔واہ ۔۔۔ ۔۔۔آپ تو وی آئی پی بن گئے محلے کے ۔۔چار ہزار لائک اور سات سو کمنٹ ۔۔واہ بھئی واہ ۔۔۔ایک بار پھر مبارک ۔۔
اسی اثنا میں سلیم رکشہ والا دوڑتا ہوا آیا اور تقریباً چیخ پڑا ۔۔
‘ ندیم بھائی ، ندیم بھائی۔۔حاجی صاحب ۔۔ وہ ۔۔وہ ۔۔۔ خواجہ چاچا ۔۔۔! ‘
‘ ارے کون خواجہ چاچا ۔۔ ؟ یہ اتنا کیوں ہانپ رہا ہے تو ؟ ۔ذرا ہانپنا تو بند کر پہلے ۔ ‘ ندیم نے سلیم کو جھاڑتے ہوئے کہا ۔
‘ وہ دیہاڑی پہ کام کرنے والے خواجہ چاچا تھے نا ۔۔۔ارے وہی جن کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔ سلیم اپنی سانسیں درست کرتے ہوئے یاد دلانے کے انداز میں بولا ۔۔ ‘ارے چھ مہینے پہلے ہی ان کی بیوی مر گئی تھی نا ۔
‘ ہاں تو کیا ہوا انہیں ؟ وه بھی مر گئے کیا ۔۔؟ ‘
حاجی صاحب نے پان کی پچکاری سے دیوار لال کرتے ہوئے اطمینان سے پوچھا ـ
‘ ہاں ۔مرگئے۔۔ سلیم رکشہ والے نے بجھے بجھے انداز میں کہا ۔
‘ صبح اپنے بستر پر مردہ حالت میں پائے گئے ہیں ۔ ‘
‘ انا للہ و انا الیہ راجعون ‘
دونوں کی زبان سے ایک ساتھ نکلا پھرندیم نے سلیم سے پوچھا ۔۔
کیا بیماری تھی انہیں ؟ کیا انہیں بھی کورونا ہو گیا تھا ۔۔؟
سلیم نے دونوں کو عجیب سی نگاہوں سے دیکھا اور کہا ۔۔
‘ کورونا ؟ … نہیں نہیں ندیم بھائی ۔۔! کورونا نہیں ۔
‘ اچھا ۔۔۔ ندیم کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ دوڑ گئی جیسے اس نے کورونا کو مار بھگایا ہو ، پھر اس نے اپنی بائیں آنکھ دبا کر تمسخرانہ انداز میں سلیم سے پوچھا ۔
‘ تو کیاایڈز ہو گیا تھا انہیں اس عمر میں۔۔۔؟ ‘
سلیم ایک لمحے کے لئے بھونچکا سا رہ گیا اور تعجب سے سماج کے ان وی آئی پی لوگوں کو دیکھنے لگا جن پر یہ مخصوص حالات بھی اثر انداز نہیں ہوئے تھے ۔۔ کچھ دیر کے لئے تو اسکی زبان گنگ ہو کر رہ گئی پھر اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا
‘ایڈز نہیں ندیم بھائی ۔۔ایڈز سے بڑی بیماری ہوگئ تھی اس بڈھے کو ۔۔ بھوک ۔۔۔بھوک کی بیماری چاٹ گئی اس بڈھے کو ۔۔ بھوک کی بیماری ۔۔
سلیم رکشے والا نمناک آنکھوں سے یہ الفاظ بدبداتا ہوا پلٹنے لگا تو حاجی اسلم بھائی نے آواز لگائی ۔۔
‘اوئے سلیم ۔۔ سچ میں اس بڈھے کے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا کیا ۔۔؟ ۔۔ اب کفن دفن کا انتظام تو ہم لوگوں کو ہی کرنا پڑے گا نا ۔۔۔ ‘
‘ ہاں ۔۔ ‘
‘اب یہ تو بتاتا جا یہ بڈھا رہتا کہاں تھا ۔۔
‘ وہ ۔۔۔ وہ تو آپ کے بالکل پڑوس ہی میں رہتا تھا حاجی صاحب ‘
سلیم نے چبھتی ہوئی نگاہوں سے حاجی صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا اور پژمردہ قدموں سے پلٹ پڑا ۔
ضضض
افسانہ بیماری پر تبصرے و تجزیے
افسانہ موجودہ حالات کا عکاس ہے. لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں پنپنے والی اخلاقی خرابیوں پر بھی جم کر طنز کیا گیا ہے. افسانے کا بیانیہ بہت سیدھا ہے جس میں پیچیدگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے. حاجی صاحب کے کردار نے افسانے کی مقصدیت میں اضافہ ہی کیا ہے ورنہ اگر کوئی دوسرا کردار ہوتا تو شاید وہ بات نہ آتی جو افسانہ نگار کے ذہن میں تھی. حاجی صاحب ہمارے معاشرے کے دین دار طبقے کی نمائندگی کرنے والا کردار ہے جو خودستائی کے شوق میں مبتلا ہے لیکن حقوق العباد کا صحیح تصور اس کردار کے ذہن میں واضح نہیں ہے.افسانے کا کلائمکس بھی اچھا ہے. واقعے کو افسانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے.
خان حسنین عاقب
ضض
افسانہ۔کچھ دیرپا تاثر قائم نہ رکھ سکا۔مکالمے بھی یوں ہی سے لگے۔اختتام ۔حدیث پر ہی اجاگر ہوگیا تھا ۔افسانہ نگار کی الفاظ پر گرفت واجبی سی لگی۔۔اس طرح کے متعدد افسانے آجکل سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔اچھوتا پن یا انفرادیت مفقود !!ایک عام سا منی افسانہ !
ڈاکٹر ارشاد خان
ضض
کہانی اچھی ہے۔ حالات حاضرہ پر منحصر ہے۔ لیکن تکنیکی لحاظ سے کہانی کتنی کامیاب ہے یہ تو یہاں موجود ہمارے اساتذہ ہی بتائیں گے۔
محمد علیم اسماعیل
ضضؕ
افسانے میں ملک کے موجودہ صورتحال ۔۔۔۔ ۔کرونا، لاک ڈاون اورمدد کے نام پر لوگوں کی ریاکاری کو موضوع بنایا گیا ہے۔۔جہاں لوگ مدد کے نام پر مفلس ضرورت مندوں کو پانچ کلو چاول بھی دیں تو تصویر کھنچواکر شوشل میڈیا پر تشہیر کرنا اپنا حق سمجھ رہے ہیں۔اسی موضوع کوافسانے میں سادہ بیاینہ میں پیش کردیا گیا ہے،لیکن ابتدا میں ہی حاجی صاحب اورندیم کی باتوں سے قاری کو انجام کا انداذہ ہوجاتا ہے جو اس افسانے کے اختتام کو کمزور بنارہا ہے۔وہیں خواجہ چچا کے مرنے کی خبر اور حاجی صاحب کی بے حسی ۔۔۔پڑوسی کے حقوق پر حدیث کے ذکر سے ۔۔قاری پر یہ بات بھی پہلے سے ہی عیاں ہوجاتی ہے کہ مرنے والا اور کوئ نہیں حاجی صاحب کا پڑوسی ہی تھا۔مجموعی طور پر یہ ایک اچھی اصلاحی کہانی ہے جس میں نام نہاد حاجی جیسے ریاکاروں پر گہرا طنز بھی ہے۔۔لیکن انجام متاثر کن نہیں ہے۔ابتدا سے ہی اختتام کا بخوبی اندازہ ہوجاتاہے۔افسانہ نگار خودہی اس اصلاحی کہانی کو نظر ثانی کرتے ہوئے بہتر افسانوی رنگ دے سکتے ہیں ۔۔
ڈاکٹر عائشہ فرحین
ضض
پورا افسانہ صرف دو۔۔۔ چیزوں کے گرد گھومتا ہے۔ 1… سوشل میڈیا کا غلط استعمال (نیکی کر فیس بک پر ڈال)2… وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جس کو پڑوسی بھوکا ہو اور وہ خود پیٹ بھر کر کھائے۔۔۔۔
سیداسماعیل گوہر
ضض
غربت وافلاس ہمارے ملک کی سب سے مہلک بیماری ہے ۔ بے حسی کی چادر اوڑھے لوگ جو بے ضمیر بھی ہیں اپنی نیکیوں کی تشہیر کرکے معاشرے میں اپنے رتبے کو بلند کرنا چاہتے ہیں ۔ انہیں کسی سے ہمدردی نہیں بس یہ موقع کا فائدہ اٹھانا جانتے ہیں ۔ حاجی صاحب اور ندیم کے کردار ہمار ے آس پاس موجود ہیں ۔ افسانوی باریکیوں سے آراستہ نہ سہی مگر افسانہ ایک کڑوے سچ سے روبرو کرواتا ہے ۔ محترم وجاہت عبد الستار صاحب مبارکباد پیش کرتی ہوں
رخسانہ نازنین
ضض
عمدہ زبان و بیان ـــ ،بہترین فلیش فکشن ـــ،پڑوسیوں کے حقوق کو موضوع بنایا گیا ہے ـــ،لاک ڈاون میں بھوک اور شوشل میڈیا پر شخصیت کے معیار کی کسوٹی پر گہری چوٹ کرتی ہوئی تحریر ـــفیس بک کی بحث کے ذریعے اسلم حاجی کی شخصیت کو ہنرمندی سے پیش کیا گیا ہے ـــشروع سے آخر تک سب کچھ مناسب ہے ـــبس ــــ تحریر میں ڈرامائیت در آئی ہے ـــمسلسل مکالموں کی وجہ سے ایسا محسوس ہوا یا پھر مکالموں کا انداز ہی ڈرامائی ہے ـــ؟ ؟؟ندیم اور سلیم رکشے والے کا کردار زیادہ ڈرامائی معلوم ہوتا ہے ـــــفلیش فکشن کا منفی پہلو یہ ہے کہ قاری چونکتا ضرور ہے لیکن کوئی خاص کیفیت پیدا نہیں ہوتی ــــجو کچھ ہے ـــ موجودہ حالات کے تناظر میں مختصر میں عمدگی سے پیش کی گئی کہانی ہےمصنف کے لیے نیک خواہشات ــــــــ
شہروز خاور ــــــــ
ضض
افسانے کی شروعات اچھی ہے لیکن کلائمکس تک پہنچتے پہنچتے افسانہ بہت پھیکا پڑجاتا ہے۔ کیونکہ درمیان میں ہی ساری کہانی کھل جاتی ہے اور آخر میں جو تجسس قاری کو مطلوب ہوتا ہے اس کا بالکلیہ فقدان ہے۔ اصلاحی اور مقصدی ادب میں ادیب کو بہت سنبھل سنبھل کر اور پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوتا ہے کہ مقصد اور جذبہء اصلاح افسانے (یا کسی بھی تخلیق) کی زیریں سطحوں پر رہے اور وہ ادبی تخلیق مجرد پند و نصیحت نہ معلوم ہو۔بہرطور افسانے کے لیے مبارک باد
دانش اثری
ضض
افسانہ بیماری. وجاہت نے بڑی محنت سے لکھا ہے اور یہ افسانہ آج کے حالات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے. افسانے پر مصنف کی پکڑ مضبوط ہے افسانہ پڑھنے کے بعد تاثر دیرپا قائ رہتا ہے. سادہ بیانیہ میں پیش کیا گیا ہے.افسانے کا موضوع لاک ڈاؤن میں مدد کے نام پر لوگوں کی ریا کاری اور مکاری ہے. یہ ایک اصلاحی افسانہ ہے گہرے طنز میں ڈوبے جملے متاثر کرتے ہیں.افسانے کااختتام اچھا ہے.مصنف کو ڈھیر ساری مبارکباد۔
اکبر عابد
ضض
ایک اچھا افسانچہ ہے۔ اچھا اس لئے کہ تخلیق کار ہلکے پھلکے انداز میں اپنا پیام دینے میں کامیاب ہوا ہے۔ اگر اس میں حاجی صاحب اور حدیث کا ذکر نہ ہوتا تو کہانی کا طنزیہ پہلو کچھ زیادہ متاثر نہ کرتا۔ اسی چیز نے کہانی کو قابل غور بنایا ہے۔ ایسی تشویشناک صورتحال میں ہر کام رضائی اللہی کی خاطر کرنا چاہئے نہ کہ پبلیسٹی کی خاطر۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ نیت میں نیک عمل کرنے کی جو پوشیدہ غرض تھی وہ تو پبلیسٹی ہونے کے بعد مل گئی اب اسے دینی کام کے سر کیوں تھوپا جائے۔ ناصحانہ قسم کی اچھی کہانی ہے۔
ڈاکٹر ریاض
ضض
وجاہت عبدالستار کی منی کہانی کسی ایک سماج کی کہانی نہی ہئے بلکہ ہر جگہ اس طرح کے کردار مل جائیں گے جو باعمل کم ڈگڈگی باز زیادہ ہوتے ہیں یہ دور حاضر کا المیہ ہئے آج سارے فلاحی کام جہلا کے حصے مین غلط طریقوں سے کمائ گئی دولت کے عوض شہرت خریدنا آسان ہوگیا ہئے وجاہت نے اسکو بیماری کانام دیا ہئے صحیح کیا یہ بیماری تو بہت پرانا کرونا ہئےمجھے بہت معذرت کے ساتھ یہ شکایت ہئے کہ لوگ صرف شکل پر تبصرے کرتے ہیں اسکے باطن میں چھپے ہوئ کہانی یا جزبات یا مقصد کو نہیں دیکھتےمیں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں وجاہت کی شروعات میں گرفت مضبوط ہئے مگر جون جوں وہ اگے برھتے ہیں کہانی کمزور پڑتی جاتی ہئے اختتامیہ بہت کمزور ہوگیا اگر وہاں ندیم ہی سے یا جو انکاحریف تھا اس سے صرف ایک جملہ کہلوا دیتے اپ کو نہی پتہ وہ اپکا پڑوسی تھا کوئ حدیث نہی کوء وضاحت کی ضرورت نہی تھی بہرحال حاجی صاحب کا جو حلیہ بیان کیا اور وہ ندیم وہ بالکل صحیح ہئے آجکل سوسائٹی میں اس طرح کے کردار وافر مقدار میں ہیں یہ کہانی بہت متاثرکن ہو سکتی تھی اگر وجاہت اس کو بار بار پڑھ کر اس نظر سے نہی کہ وہ لکھ رہے ہیں بلکہ اس نظر سے وہ قاری ہین تو شائید اس کے نوک پلک سنوار لیتے ہمیشہ ایک اصول جس پر میرے والد نے مجھے کاربند کیا کبھی سبجیکٹ بن کر مت لکھو آبجیکٹ بن کر لکھوپھر بھی وجاہت اپنے مقصد میں کامیاب ہیں میں انکی کامیابی کاخواہاں ہوں اور مبارکباد پیش کرتا ہوں
محمد سراج عظیم
ضض
وجاہت عبدالستار صاحب نے بہت عام بیماری کو خاص پیراہن عطاء کرنے کی اچھی کوشش کی ہے لیکن افسانہ بیچ میں ہی مکمل ہوجاتا ہے.کلائمکس کے بعد اینٹی کلائمکس کی ضرورت کچھ خاص نہیں تھی.انداز بیان اور منظر کشی اچھی ہے آج کے خود نمائی والے دور میں حاجی نما پا…..کو بہترین طریقے سے آئینہ دکھانے پر مصنف کو مبارکباد
عبدالرحمن اختر
ضض
زیر نظر “منی کہانی۔۔۔بیماری” ریا کاری کا بہترین پیغام لئے ہوئے ہے۔جہاں قول اور فعل میں تضاد پایا جاتا ہے ۔مقصد محض اپنی شہرت حاصل کرنا ہے۔ کہانی میں بیماری کونسی ہے۔ ریاکاری شہرت کی۔۔یا کرو نا کے خوف کی،سوشل میڈیا کی۔۔۔ یا بھوک کی بیماری۔۔۔کہانی شروع ہو تے ہی جو بات سامنے آتی ہے بات سمجھ نہیں آئی کہ کرونا نامی “معمولی جر ثومے” کیسے ؟؟؟ جس کے لئے آج تک بھی سب لاک ڈاون میں ہیں۔۔ جس کے خوف نے پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔۔۔ حکومتوں کے پاس اب تک کوئی علاج نہیں ۔۔۔ تو پھر یہ معمولی کیسے ہوئے؟؟اس میں دو پیغام طنر کی شکل میں ہیں لائک والی فوٹو۔۔۔جس میں ۔۔ شاید کسی مسکن کو اناج کی تھیلی پکڑ آرہے تھے اپ۔۔ دوسری پڑوسی والی حدیث ۔۔۔معاشرہ میں اخلاق اور اعمال ۔۔۔ اخلاق کا درس دینے والے حاجی صاحب عمل سے دور ہیں۔مولویوں پر گہرا طنز ہے۔بیان تو سب دیتے ہیں ۔۔مگر خود عمل سے بے بہرہ ہیں ۔۔ سوشل میڈیا پر شہرت پانے والے لوگ۔۔۔ پڑوسی ہوتے ہوئے بھی بے خبر بے حسی کی انتہا ہے۔ کہ ان کا پڑوسی بھوک سے مر گیا۔ چھ مہینے پہلے بیوی مرگئی تھی کی خبر سے اور نام خواجہ چاچا۔ بولنے پر بھی حاجی صاحب کو کیسے پتہ نہیں چلا کہ یہ ان کا پڑوسی ہی تھا۔۔؟؟ کیا حاجی صاحب محلہ میں نئے آئے تھے ۔؟؟پڑوسی کی حدیث ہی سارا خلاصہ بیان کر رہی ہے۔کہ آگے پڑوسی سے یہ بے خبر ہیں ۔۔ ندیم او سلیم کی گفتگو بے معنی ہے۔دراصل منی کہانی میں جب بیانیہ خود بیان بن کر وضاحتی اشارہ دینے لگے تو بات اپنا اثر کھو دیتی ہے ۔یہ اپنی افسانوی رنگ سے اتر کر نصیحت اموز سبق بن جاتی ہے۔۔ منی کہانی کی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ دھیرے سے آگے بڑھے اور آکر ایسے موڑ پر رک جائے کہ قاری چونک جائے۔۔اس کا اختتام استفہامیہ ہو ۔۔معاشرہ اور قاری پر سوالیہ نشان ۔۔ یا قاری اس میں چھپے مفہوم کو سمجھ کر چونک جائے۔۔دیر پا اثر قائم رہے ۔۔وگرنہ یہ یا تو معاشرہ کا معمولی واقعہ بن جائے گی یا کوئی درس یا پھر ایک مضحکہ خیر ۔۔لطیفہ۔۔اس میں فن کمال سے قاری کو باندھا جاتا ہے۔تجسس چونکانے والا موثر انداز میں مبہم ہو تو کامیاب افسانچہ یا منی کہانی بنتی ہے۔ اب یہ کہاں تک افسانچہ بن پائی۔۔ غور طلب ہے۔۔ اخلاقی درس لئے ہوے یہ منی کہانی کے تخلیق کار کو مبارک باد
ضض
سب سے پہلی بات تو یہ کہ کہانی کا عنوان ’بیماری‘بڑا ہی ذومعنی ہے ۔دورِ حاضر کا انسان طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہے ۔ اِس کہانی میں تین بیماریوں کاذکر ہے ۔ایک تو اصل بیماری یا جان لیوا وبا کورونا ہے، دوسری ظاہری نام و نمود نیز خود نمائی اور تیسری بھوک!کہانی کار نے ایک مخصوص طبقے کی ذہنیت کی عکاّسی کرتے ہوئے سیدھے سادے انداز میں ایک قابلِ یقین کہانی بیان کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔وجاہت عبدالستّار اگر نظرِ ثانی کرلیتے تو کہانی کی ظاہری و باطنی صحت چُست دُرست ہوسکتی تھی۔ مختصر کہانی کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ کم سے کم لفظوں نیزمکالموں سےمنظر کشی اور کردار نگاری کی جاتی ہے۔ اِس مِنی کہانی میں بھی غیر ضروری تفصیلات سے بچ کراِسے مزید مختصر کیا جا سکتا تھا تاکہ کہانی اپنے انجام تک جلد پہنچے اور کہانی کار کے بتانے سے پہلے قاری کہانی نہ سمجھ لے!قاری کو حیرت زدہ کردینے یا چونکانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا تھاکہ کہانی ابھی جہاں ختم ہوئی ہے وہاں سے دو جملے مزید آگے بڑھ جاتی اور حاجی صاحب مرحوم پڑوسی کے گھر پہنچ کر نام و نمود والا تماشہ دوہراتے!!
انور مِرزا