9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
لاتفسدو فی الارض 13؎
آیت اللہ سیدحمید الحسن
قارئین ’اودھ نامہ‘ ہم مضمون کی ایک سو تین (103) قسط تک آچکے اور قرآن کریم نے انسان کو انسانیت کے کیا کیا سبق دیئے اس پر کوشش کی کہ لکھیں دو سال گذر گئے ابتدا میں خیال تھا بس ماہ رمضان ختم مضمون ختم لیکن ایسا نہ ہو سکا اور اب یہ تیسرا ماہ رمضان ہے۔ یہی عنوان ہے اور یہ قلم اور صفحات کاغذ ہیں۔ مضمون کے عنوان کے ذیل میں کبھی ’فقیری‘ کبھی تنہائی‘ کبھی ’سکوت‘ کبھی ’آواز‘ پر اور کبھی ’وراثت‘ پر لکھتے رہے اور اب ’زمین پر فساد نہ کرو‘ کی یہ تیرہویں گفتگو ہے۔ کوشش یہی رہی کہ قرآنی ہدایات، احکام رسالت، ہدایات اہل بیت اطہارؑ، اور وقت کے اہم حالات بھی مضمون کی تشکیل میں شریک رہیں۔ اکثر احادیث کیلئے حوالے نہیں لکھے لیکن یہ لکھ دینا ضروری ہے کہ ایک دینی طالب علم کی حیثیت سے دیانت کا تقاضہ یہی ہے کہ بغیر اصل دیکھے محض یادداشت پر کچھ نہ لکھا جائے اس لئے ہر قول معصوم ؑ اور حدیث رسولؐ میں اس ذمہ داری سے کبھی غفلت نہیں کی گئی البتہ طول مضمون کے مدنظر حوالے نقل نہیں کئے گئے۔ کبھی کتابی شکل انشاء اللہ ہوسکی تو اس کا خیال رہے گا۔
اس وقت یہ مضمون جب لکھا جارہا ہے تو یہ دعا ہے کہ بطفیل چہاردہ معصومین ؑ محترم وقار رضوی صاحب کی والدہ معظمہ کو شفا حاصل ہو۔ اور آیئے ماہ رمضان کی ان تاریخوں میں آج اس مضمون کی ابتدا میں ایک انوکھا واقعہ لکھیں۔ اور یہیں سے اسے سمجھیں کہ گذشتہ مضمون میں حضرت عیسیٰ کا ایک واقعہ نقل کیا تھا کہ انہوں نے ایک فریادی عورت کے بیمار بچے کو کیسے شفادی۔ ایسے واقعات پڑھ کر کوئی متعصب سے متعصب بھی یہ نہیں کہے گا ’یہ کیسے ممکن ہے؟‘ اس لئے کہ جسے یقین نہ ہو کیا وہ کسی بیمار کو شفا مل جانے کا مخالف ہوگا؟ نہیں وہ خوشی ضرور محسوس کرے گا کہ کسی ماں کو سکون اور اس کے بچے کو شفا مل گئی۔
یوں ہی مذہبی واقعات جب حیرت زدہ کردیں تو دل کی گہرائیوں میں اترکر دیکھیں وہاں کسی خوشی کے احساسات کا چراغاں ہے یا کسی مایوسی کے اندھیروں کی حکومت۔ خوشی ملے تو سمجھ لیجئے ہم میں انسانیت کا چراغ روشن ہے مایوسی ملے تو کوشش کریں کہ روحانی کیف تک ہم خود یا وہ روحانی ذائقے ہم تک پہنچ جائیں۔
واقعہ پڑھیں، سنائیں اور احساس کریں کہ مذہبی زندگی کا کوئی سبق مصلحتوں سے خالی نہیں ہوتا۔ مصلحت بھی جو انسانی زندگی کو فساد سے بچالے اور فسادی سے دور کردے۔
تو بات اس طرح ہے کہ حضوؐر نے وضو فرمانے کیلئے اپنے پاہائے مبارک سے موزہ اتارا، جب وضو کے بعد اسے پہننا چاہا تو ایک سبز رنگ کا پرندہ اس موزہ کو لے اُڑا اور بلندی سے اس نے وہ موزہ پھینک دیا۔ دیکھا اس میں ایک سانپ تھا؟ اس سے باہر نکل گیا۔ روایت میں اس پرندہ کا نام تو نہیں لکھا بس اتنا کہ اس پرندہ کو ’سبز قبا‘ کہتے ہیں۔ اور یہ کہ حضرت نے اسی لئے اس کے مارنے کو منع کیا ہے۔ ہم نے ایک اور جگہ ’ہدہد‘ کے لئے دیکھا کہ امامؑ نے شکاری کو ہدہد کے مارنے سے منع فرمایا سابق کے کسی مضمون میں اس پر لکھ چکے ہیں۔ تو عین ممکن ہے یہاں بھی یہ پرندہ ہدہد ہی رہا ہو۔ یہ واقعہ اس لئے لکھا کہ اسی واقعہ کے فوراً بعد عالم جلیل شیخ عباس قمی نے لکھا جو ہم سب کے لئے معرفت کی راہیں روشن کرنے کے لئے کافی ہے۔
پڑوسی ملک کے ایک عالم کچھ اختلافی باتیں اس لئے بیان کرتے رہتے ہیں کہ اس سے ان کو کچھ طلب شہرت کی تشفی ہوجاتی ہوگی۔ لیکن فساد کہاں کہاں ہے اور اسے ردّ کرنا اور لوگوں کو اس سے بچانا بھی کیسے ممکن ہے اسے سمجھنا بھی بیحد ضروری ہے خاص طور پر ان کے لئے جو خود کو علماء کی صف میں شمار کرتے ہوں۔ مذہبی احکام میں ایک کی مثال دوسرے سے دینا بھی آسان نہیں ہوتا۔ کیا ہم آپ کہہ سکتے ہیںکہ نماز میںرکوع بہتر ہے یا اس میں ذکر؟ قیام بہتر ہے یا قعود؟ ظہر کی نماز بہتر ہے یا عصر کی؟ حج میں قربانی بہتر ہے یا سرمنڈوانا، منیٰ میں شیطانوں پر (جمرہ پر) پتھر مارنا بہتر ہے یا وقوف عرفات۔ تقابل جب کریں جب تقابل کے لائق اپنا ذہن بنا سکیں۔
تو آیئے۔ دیکھیں ایک عالم جلیل نے حضوؐر، وضو، موزہ، پرندہ، سانپ کا واقعہ لکھا تو آگے لکھا۔
’فقیر گوید‘ اللہ اکبر۔ شیخ عباس قمی جیسی ہستی جن کو ’ثقۃ المحدثین‘ کہا گیا جن کا روحانی وجود ہر عالم ہر عابد کے علم و عبادت میں اپنا فیض پہنچا رہا ہے وہ اسی شان کو پسند کرتے ہیں ’فقیر‘ دراہل بیت اطہار کے ایک فقیر۔ اور آیئے دیکھیں یہ فقیر در رسالت و اہل بیت رسالت ہمیں کون سی دولت عطا کررہے ہیں۔ انہوں نے لکھا (حضوؐر کے اس واقعہ کی) نظیر امیرالمومنین (علی ابن ابیطالب ؑ) کے لئے نقل کی گئی جو اس طرح ہے کہ ابوالفرح مداثی سے روایت ہے کہ سید حمیری گھوڑے پر سوار کوفہ کے ایک چرچ کے قریب رکے اور کہنے لگے (اس مجمع سے جو جمع ہوگیا تھا) تم میں سے ہر وہ شخص جو مولا علی ؑ کیلئے کوئی ایسی فضیلت نقل کرے کہ جسے میں نے نظم نہ کیا ہو یہ گھوڑا اور جو بھی میرے ہیں اور اس پر ہے سب اسے دے دوں گا۔ محدثین نے باتیں شروع کیں لیکن مجھے آپ کو کیا یہ خیال نہیں آیا کہ کیا دنیا میں کوئی اس کا دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے تمام فضائل علی نظم کردیئے؟ اگر اختلاف نہ ہو تو اتنا تو ضرور سمجھ میں آجائے گا کہ بہت سے مواقع پر مقصود فضائل علی میں اپنی قابلیت بتانا نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کو فضائل مولا علی ؑ تک لانا مقصود ہوتا ہے۔ وہ بیچارے کتنے یتیم العلم و یتیم العقل و یتیم الفکر و یتیم الحب و یتیم المعرفت ہیں جو اتنا بھی نہ سمجھ پائیں۔
چلئے آگے بڑھیں۔ حدیثیں بیان ہونے لگیں فضیلت (امیرالمومنین) میں جسے جو معلوم تھا وہ اسے نقل کرنے لگا۔ اور سید حمیری فوراً ہی اسی حدیث سے متعلق اپنے اشعار سنائے یہاں تک کہ ایک شخص نے کہا یہ ابوالزغل المرادی سے حدیث سنی اس نے کہا میں امیرالمومنین (علی ؑ) کی خدمت میں تھا اور انہوں نے وضو کے لے اپنے موزہ کو اتارا کہ ایک سانپ اس موزہ میں داخل ہوگیا جو حضرت نے پیروں سے اتاری تھی جب مولا نے اپنی موزہ معہ جوتی پہننا چاہی تو ایک کو ّا اچانک آیا اور موزہ کو اوپر لے گیا اور وہاں سے اس نے اس موزہ کو پھینکا وہ سانپ اس موزہ سے باہر نکل گیا۔ سید نے اسے سنا جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا سب کچھ اسے عطا کرتے ہوئے اس فضیلت کو اپنے اشعار میں نظم کیا اس میں کا ایک شعر اس طرح ہے۔
اَلا یا قومُ لِلعَجب العُجاب
لِخْفّ ابی الحسین و لِلحُباب
(ترجمہ) ’’اے لوگو عجیب اور اس میں بھی کیسا عجیب اس (نقل اور) موزہ کیلئے جو امام حسین ؑ کے پدر گرامی اور سانپ کیلئے ہے۔‘‘ یہاں بیحد لطیف سید حمیری کے شعر میں سانپ کے لئے حباب کی لفظ کا استعمال ہے۔ اس لئے کہ اسے حباب پڑھیں تو دوستی مراد ہوگی اسے حباب پڑھیں تو انتہا مراد ہوگی کوشش کی انتہا اور اسے حُباب پڑھیں تو دوستی بھی، محبت بھی اور سانپ بھی مراد لیں گے عربی میں اُم حُباب دنیا کو بھی کہا گیا۔
سید نے واقعہ کی افادیت ایک لفظ میں کس طرح سمیٹی کہ ایک لفظ حباب کی ’ح‘ پر زیر، زبر، پیش تینوں طرح معانی الگ الگ بھی ہوں پھر بھی مدح رہے۔
اور حقیقت واقعہ ایک سانپ اور مولا کی کفش مبارک اور موزہ سے منسلک واقعہ بیان بھی ہوجائے۔
ہم یہاں اتنا ہی کہیں گے حضرت سلیمان کے وقت سے کو ّے اور ہدہد میں تقابل رہا ہے۔ یہاں بھی ایک جگہ ہدہد نے اپنا فریضہ ادا کیا تو دوسری جگہ کو ّے نے اپنی ذمہ داری بتائی۔ مگر ہم انسانوں کو یہ سبق تو ملا کہ پرندے بھی خواہ کسی بھی رنگ و نسل کے ہوں اپنے آقا کی محبت رکھتے ہیں۔ اور ہم کو یہ سبق دیتے ہیں کہ انسان اپنے جیسے انسان کی حفاظت نہ کرسکے تو یہ نہ مذہب ہے نہ انسانی فطرت کے مطابق۔
اور ہمیںیہاں اپنے عصر کے عظیم شاعر حضرت علامہ ناطق نوگانوی کے مجموعہ ’زمزمہ کن فیکون‘ میں سے ایک نظم نقل کرنا مناسب لگتا ہے یہ مجموعہ کبھی ہمیںنوگانویں میں عزیزم جناب انجینئر سید زین العباد ناطقؔ صاحب دام عزہ نے عطا کیا تھا۔ علامہ سید جواد اصغر ناطق نوگانوی کی اس عربی نظم کا اسی قافیہ میںجو کلام ہے اس میں نصیحت ہے۔ علماء کو، دینی طلباء کو، اس عربی نظم میں 21 اشعار میں سے یہ شعر ؎
اذالیس الصلاح فیک طرا
فلاتلقیٰ نعیاک ابا التراب
اگر مجھ میں کچھ بھی اچھائی (صلاح، خلاف فساد) نہیں ہے تو وہاں (محشر میں) تجھے زیارت (مولا علی) حضرت ابوتراب (بھی) نصیب نہ ہوگی۔
علم کی شاہراہ بہت طولانی ہے۔ اس پر چلنے والے مسافر لاتعداد ہیں لیکن منزل سب کی آخرت ہے۔ اور آخرت میں انہیں کیلئے سکون، کامیابی اور نجات ہے جن کا مقصود حقیقی اس دنیا میں بھی دوسروں کے لئے راحت و عزت و سکون فراہم کرنا ہو۔
آج دنیا کہاں ہے؟ کیا صرف چار ماہ پہلے ہم تصور کرسکتے تھے کہ جنوری 2020 ء کے نئے سال کے جشن منانے والے اپریل 2020 ء میںکہاں ہوں گے۔ 25 دسمبر 2019 ء سے ہر مذہب کے ماننے والوں نے اپنے اپنے مذہبی اعتبارات سے بڑی خوشیاں منالیں۔ بڑے اہم پروگرام کرلئے۔ اور اسی مدت میں ہزاروں ہوائی جہاز، اسٹیمر، لاکھوں موٹر، ٹرک، گاڑیاں، ریل گاڑیاں، زمین سے فضا تک، سمندروں کی وسعتوں تک ایک انسان کو دوسرے انسانوں تک پہنچاتے رہے۔ اور اب؟ انسان نے خود اپنے وجود پر ایک خاموشی کا لبادہ ڈال لیا کبھی امریکہ میں ایک شہر میں ایئرپورٹ کے نزدیک ایک مکان میں بیٹھے ہوئے ہم دیکھ رہے تھے ہر منٹ میں ایک ہوائی جہاز فضا میںنظر آتا، یہ آرہا ہے، یہ جارہا ہے۔ اندازہ کریں کہ تمام اسی ملک میں چوبیس گھنٹوں میں کتنے ہوائی جہاز فضائوں میں گھن گرج کے ساتھ کتنے مسافروں کو لئے اُڑ رہے تھے۔ اور آج؟ تمام دنیا میں سناٹا ہے۔ انسان نے سمجھ لیا اس وقت سب سے بہتر ایک ہی بات ہے۔ سب بند کردو، خود کو بھی اپنے اپنے گھروں میںبند کرلو۔
تمام دنیا کی اس ہیبت ناک خاموشی میں ایک سوال سب کے سامنے رکھیں گے۔
ہمارے ہوائی جہازوں کو ہم نے اُڑانا بند دیا۔
ہمارے اسٹیمر: ہماری ریل گاڑیاں، ہمارے موٹر، کار ہم نے سب بند کردیئے۔
ہم نے خود اپنا بھی باہر نکلنا بند کردیا۔
کیا ہمارے سوا، اس ہماری دنیا میں یہی سب اور جگہ بھی نظر آیا؟
کیا سمندروں میں مچھلیوں نے تیرنا بند کردیا؟
کیا پہاڑوں سے چشموں، دریائوں نے اترنا بند کردیا؟
کیا فضائوں میں پرندوں نے اُڑنا بند کیا؟
کیا صبح کی سورج کی پہلی کرن کے ساتھ پرندوں نے چہچہانا بند کردیا؟
کیا جنگلوں میں، صحرائوں میں، پہاڑوں میں جانوروں نے اپنی زندگی کے انداز بدل دیئے؟
کیا کھیتوں میں، باغات میں، سبزہ زاروں میں ہماری زندگی کے لئے ضروری سبزیوں نے، گیہوں نے، پھلوں نے وجود میں آنا ختم کردیا؟
کیا آغوش مادر میں نومولود بچوں نے اپنی مائوں سے اپنے مطالبات بند کردیئے۔
کیا انسان نے ایک جرثومہ کے علاوہ باقی امراض میں مبتلا ہونے سے خود کو بچا لیا؟
جی نہیں۔ بس ہم انسان اکیلے یہی ہم انسان ہیں جو چند ماہ میں کچھ سے کچھ ہوچکے ہیں۔ باقی تمام دنیا ویسی ہی ہے جیسی تھی۔ کیا یہاں ہم غور و فکر کیلئے کچھ تھوڑاسا وقت نکال سکتے ہیں؟
کہ کل، سیکٹروں برس پہلے، ہزاروں سال پہلے ہم سب بھی ایسے ہی تھے ایک جیسے، ایک طرح، یہ ہم نے خود کو تبدیل کرنا شروع کردیا۔ ہم کالے گورے سفید سرخ زرد ہوکر بھی انسان ہی تھے جو اس سرزمین پر جہاں بھی تھا وہ کسی غیبی طاقت کے سامنے ایک ہی جیسا تھا۔ ہم نے گذشتہ مضمون میںایک مثال دی تھی کہ کسی بھی مذہبء کے کیسے ہی مبلغ یا ماننے والے کیوں نہ ہو شیر سب کو ایک ہی نظر سے دیکھے گا ہماری ریاضی داں بھائی جناب سمیع الحسن تقوی صاحب نے اضافہ کیا کہ کناڈین، امریکی، چینی، ہندی، افریقی سے بھی جب شیر سامنے آجائے گا تو سب کو صرف انسان ہی سمجھے گا۔
یہ سب اس لئے پھر سے یاد دلانا ہے کہ انسان بیحد خوش نصیب ہے اگر اسے ہدایت کرنے والے گائڈنس دینے والے تعلیم دینے والے خود کو بس ایک انسان سمجھیں اور سامنے والے کو بھی انسان مانیں اور بیحد بدنصیب ہے وہ انسان جسے اس کی قیادت اس کی رہبری تقسیم کی طرف لے جائے۔ گھروں کی تقسیم، خاندانوں کی تقسیم، قبیلوں کی تقسیم، قوموں کی تقسیم۔
ابھی ہمارے ملک میں، ایک حصے میں دو سادھوئوں کو بیدردی سے ان کے ایک اور ساتھی کے ساتھ قتل کردیا گیا۔ یہاں ایک وحشی بھیڑ تھی جس کو ذرابھی احساس نہیں ہوا کہ وہ کسے مار رہے ہیں؟ نہتے، سن دراز، جنگ کے طریقوں سے ناآشنا، ہم نے نیٹ پر جب اس منظر کو دیکھا تو لگا وہ سب ہمیں مار رہے ہیں۔ اور پھر ملک کے دوسرے حصہ میں دو اور مذہبی سادہ مزاج سادھو پھر قتل کردیئے گئے۔ یہاں بھیڑ نہیں مجمع نہیں لیکن قتل جنہیں کیا گیا تو کیوں؟
یہ سب بتاتا ہے کہ ہم مذہبی تفریق مذہبی نفرت مذہبی عناد کا شکار نہیں ہیں بلکہ ہم انسانی وقار، انسانی عظمت، انسانی شرافتوں سے محرومی کا شکار ہیں۔ مذہب کے سادہ مزاج نمائندے بس یہی تو سمجھاتے ہیں کہ اچھے انسان بنو۔ اس کے خلاف لے جانے والے وہی ہیں جو کبھی جانتے ہی نہیں کہ مذہب کیا ہے؟ ہزاروں سال سے یہی سب ہورہا ہے۔ اور یہ انسان یہ سب دیکھ رہا ہے۔ زلزلے، آندھیاں، طوفان، سیلاب، سنامی، آپسی جنگیں، خونریزی، تباہی، بربادی، امراض، قدرتی آفات، کیا اس کا امکان ہے کہ سب مل کر یہ کوشش کریں کہ مذہب جس جنت کی خبر دیتا ہے۔ ہم اسی دنیا کو جنت بنالیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ جنت تو نمرود نے بھی بنائی تھی شداد نے بھی۔ جنت خوبصورت عمارتوں کا نام نہیں ہے۔ جنت انسانی دلوں کے اطمینان کا نام ہے۔ اور یہ جنت نہ صرف حاکم بنا سکتے ہیں نہ صرف مذہبی نمائندے۔ جنت۔ اطمینان قلب کی جنت، جنت سکون نفس کی جنت بن سکتی ہے اگر حاکم اور عالم ایک ہوکر کوشش کریں۔
اور شاید اس وقت یہ دنیا ایک ایسے موڑ پر آگئی ہے کہ سب ہی کو دوا کے ساتھ ساتھ دعا بھی یاد آرہی ہے۔
ہم یہاں حضور اکرؐم پیغمبر اسلام کی ایک حدیث نقل کریں: فرمایا:
اللھم بعلمک الغیب و قدربک علی الخلق
اَحسینی ماعلمت الحیاۃَ خیراً لی
وتوقنی اذاعلمت الوفاۃَ خیراً لی
ترجمہ: اے میرے اللہ وہ غیب اور وہ تیری (بے پناہ) قدرت کا جو تجھے تمام مخلوق پر ہے واسطہ دے کر (سوال کرتا ہوں) جب تک میری زندگی تیرے علم میں میرے لئے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب تیرے علم میں (میری) موت میرے لئے بہتر ہو تو مجھے موت دے دے۔
ہم نے سابق کے اسی سلسلہ مضامین میں ’یحیی ویمیت‘ کے ذریعہ کہ وہی زندگی دیتا ہے وہی موت دیتا ہے بہت کچھ لکھا۔ یہاں بھی اسی حدیث سے یہی ہدایت ہے کہ کسی کے لئے اس کی زندگی اور موت وہی بہتر ہے جو مالک اور خالق کی رضا کے مطابق ہو۔
حضوؐر کے صحابی حضرت ابوذر کا نام کون مسلمان ہے جو نہیں جانتا ان کا ایک قول ہم یہاں نقل کریں جو دنیا کے ہر اس انسان کے لئے پسندیدہ ہوگا جو انسانیت میں یقین رکھے گا۔
ان کا قول ہے: احب الموت و۔ احب الفقرو۔ احب البلاء۔ میں موت کو پسند کرتا ہوں (مجھے موت سے محبت ہے)۔ میں فقیری کو پسند کرتا ہوں (مجھے فقیری سے محبت ہے)۔ میںمصیبت کو پسند کرتا ہوں (مجھے مصیبتوں سے بلا سے محبت ہے) کسی نے یہ ابوذر کے فقرے نقل کرکے پوچھا ایسا کیسے؟
جواب ملا۔ حضرت ابوذر کی مراد کیا ہے؟ الموت فی طاعۃ اللہ احب الی من الحیات فی معصبۃ اللہ۔ وہ موت جو اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے آجائے وہ مجھے اس زندگی سے زیادہ پسندیدہ ہے جو اللہ کی نافرمانی میں آئے۔ اسی طرح وہ فقیری جو اللہ کی اطاعت میں ہو بہتر ہے اس دولت سے جو اللہ کی نافرمانی کی طرف لے جائے۔ اور وہ بلاء وہ مرض، وہ بیماری زیادہ بہتر ہے اس صحت سے جو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ ہو۔
ہم آپ دیکھیں: حضوؐر، مولا علی ؑ، اہل بیت اطہارؑ، ابوذر جیسے اصحاب رسالت سب کی تعلیم کا انداز کیا ہے؟
اللہ کی اطاعت
انسان پر شفقت، دشمن جان کے دشمن کو بھی اتنا وقت دے دیا جائے کہ وہ کسی کے قتل یا اپنی ہی ہلاکت سے خود کو بچالے۔ قرآنی تعلیمات مین ہم سب کو ایسے ہی متعدد مواقع سے آگاہ کیا گیا۔ ماہ رمضان کے ان بابرکت دنوں میں، دعائوں میں، ہمیں عزیزم سلیم رضا صاحب سلمہ کا ایک فقرہ یاد آگیا جو انہوں نے فون پر گذشتہ شب کہا کہ ’لاک ڈائون‘ کا ایک اور بھی بڑا فائدہ یہ ہوا کہ گھروں میں جو قرآن کریم مدتوں سے جزدان میں بند رکھے تھے کھل گئے۔
تو اسی مناسبت سے قرآنی ہدایات بھی آج نہ جانے کتنے ذہنوں تک پہنچنے لگے اور اس میں سب سے اہم بات جو دنیا کے ہر مسلمان تک پہنچ جانا ضروری ہے کہ ’کورونا سے صرف ہم کو اپنے یا اپنوں ہی کو بچانا نہیں ہے بلکہ سب کو بچانا ہے۔ دعا اور دوا دونوں طرح اور دوا جب اس کی ابھی تک کچھ بھی نہیں تو احتیاط سب کچھ ہے اور احتیاط یہی کہ ایک دوسرے سے دور رہیں۔ مگر اپنے رب سے اپنی قربت بڑھاتے رہیں۔
اسلامی تبلیغ کا سب سے بہتر انداز یہی ہے کہ سب کی سلامتی کی فکر ہو اور اس احساس سلامتی میں ان سے آگاہ رہنا بیحد ضروری ہے جو یا اس سلامتی سے ناواقف ہیں یا جان بوجھ کر اس کی مخالفت کریں۔
ہم آج کی بات قرآن کریم کی 27 ویں سورئہ النمل کی 48 ویں آیت پر ختم کرتے ہیں۔ یہ آیت اپنے ماقبل و مابعد (شروع اور بعد) تک اللہ کے نبی حضرت صالح اور ہزاروں سال پہلے کی قوم ثمود کے واقعات کو بیان کرتی ہے۔
اتنا لکھ دیں کہ حضرت صالح (اللہ کے نبی) نے پہاڑ کے غار میں اپنی عبادت کے لئے ایک غار کو اپنی مسجد قرار دیا تھا وہیں رات دن عبادت کرتے ان کے دشمنوں میں سے 9 آدمی آپس میں مشورہ کرکے چلے کہ ان کو وہیں قتل کردیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور حکم الٰہی پر فرشتوں نے ان پر پتھر پھینک کر خود انہیں کو ختم کردیا۔ اس کے لئے ہم قرآنی سورئہ الذریات (51) میں اور بھی دیکھ سکتے ہیں۔
قرآن نے اپنے سورئہ النمل میں جب حضرت سلیمان اور سبا کی ملکہ بلقیس کا واقعہ بیان کردیا تب حضرت صالح کے لئے کچھ بیان کرتے ہوئے جو کہا وہ اس طرح ہے؟
ترجمہ: اور شہر میں 9 آدمی تھے، جو زمین پر فساد کرتے تھے (فسادی تھے) (48) اور اصلاح نہیں چاہتے تھے) اصلاح کرنے والے نہیں تھے۔
جنہوں نے آپس میں عہد کیا کہ حضرت صالح اور ان کے فرزند کو رات میں جاکر قتل کردیں اور پھر ان کے (حضرت صالح) کے گھر والوں سے جاکر کہہ دیں کہ ہم تو اُن کی موت کے وقت موجود ہی نہ تھے اور ہم (جوکہہ رہے ہیں اس میں) سچ بولنے والے ہیں۔
فسادی قرآن نے انہیں کو کہا جو ظالم ہوں، قاتل ہوں، خونی ہوں اور ان کا نتیجہ بھی قرآن کریم نے ہمیشہ ان کی تباہی ان کی بربادی کی شکل میں پیش کیا اور جو انسانیت کی راہ پر چلے قرآن نے ان کی نجات کا وعدہ کیا۔ اسی جگہ اس نے کہا: ’’جو لوگ ایمان والے ہیں ان کو ہم نے نجات دی اور وہ پرہیزگار تھے۔‘‘ (النمل۔ آیت 53 )
حضرت صالح کی مسجد تھی وہ اس میں تنہا تھے۔ وہ تھے ان کی عبادت تھی۔ ان کی نمازیں تھیں ان کے روزے تھے۔ اور ان کی جان کے دشمن ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
اللہ کی عبادت ایک رشتہ ہے انسان کا اپنے مالک اپنے خالق سے یہ عبادت کبھی نماز ہے۔ کبھی روزہ ہے۔ کبھی حج ہے۔ کبھی تلاوت قرآن ہے۔ لیکن ان سب سے الگ ایک اور عبادت ہے جو نہ نماز ہے نہ روزہ نہ تلاوت نہ حج اور وہ عبادت اللہ کو بیحد پسند ہے وہ عبادت ہے انسان کی ضرورتمند انسان کے لئے مدد، انسان کا انسان سے محبت کرنا ہزاروں سال سے لاکھوں اللہ والے یہی تعلیم دیتے رہے ہیں اور آج بھی یہی سب سے بہتر عبادت ہے۔ اپنے سوا دوسروں کی بھی حفاظت دوسروں کی بھی مدد دوسرے سے بھی محبت، مذہبی نفرت کی دیواروں کو گراتے ہوئے ہر پڑوسی ضرورتمند پڑوسی کا خیال اس کی مدد ہی اچھی اور سچی عبادت ہے۔ مذہبی کون ہے فسادی کون؟ یہی پہچان کافی ہے۔