چین نے الیکشن میں میری شکست کے لیے کورونا وائرس کو بے قابو ہونے دیا، ٹرمپ

0
162

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ چین کی طرف سے کورونا وائرس کے خلاف اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بیجنگ نومبر کے انتخابات میں شکست کے لیے ’کچھ بھی کرنے کو تیار ہے‘۔

رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ وائرس کے معاملے پر بیجنگ کے لیے نتائج پر وہ متعدد آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ ’میں بہت کچھ کرسکتا ہوں‘۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتوں، چین اور امریکا میں ایک عرصے سے کشیدگی موجود ہے۔

اس سے قبل پیر کو وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم چین سے خوش نہیں ہیں، ہم پوری صورتحال سے خوش نہیں ہیں کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ اس کو جڑ سے روکا جا سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اسے تیزی سے روکا جا سکتا تھا اور اسے پوری دنیا میں نہیں پھیلنا چاہیے تھا اور انہیں اس کا ذمے دار ٹھہرانے کے لیے کئی راستے موجود ہیں۔

 

واضح رہے کہ امریکا میں اب تک 60 ہزار سے زائد افراد اس وائرس کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

چین کے خلاف ٹیرف کے بارے میں غور کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈونلڈ ٹرہم نے وضاحت نہیں دی اور کہا کہ ’بہت سی چیزیں ہیں جو میں کرسکتا ہوں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہوا ہے‘۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’میرے انتخابات میں شکست کے لیے چین کچھ بھی کرے گا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ چین ان کے ڈیموکریٹک مخالف جو بائیڈن کو انتخابات میں کامیاب کروانا چاہتا ہے تاکہ تجارت اور دیگر امور میں چین پر میری جانب سے ڈالا گیا دباؤ کم کیا جاسکے۔

انہوں نے چینی حکام کے بارے میں کہا کہ ’وہ مسلسل عوامی رابطے کو استعمال کرتے ہوئے خود کو معصوم ظاہر کر رہے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ امریکی تجارتی خساروں کو کم کرنے کے لیے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ کیے گئے ان کے معاہدے، وائرس سے سامنے آنے والے معاشی نقصانات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کے سینئر حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’لفظی جنگ کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کے درمیان مارچ کے آخر میں ایک فون کال پر غیر رسمی معاہدہ ہوا تھا جو اب لگتا ہے کہ ختم ہوگیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے وعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومتیں کورونا وائرس کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گی۔

حالیہ دنوں میں واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان وائرس کے مرکز اور اس پر ردعمل پر تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔

تاہم ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اعلیٰ مشیروں نے براہ راست چینی صدر پر تنقید بند کردی ہے جنہیں امریکی صدر متعدد مرتبہ اپنا ’دوست‘ کہہ چکے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی بتایا کہ جنوبی کوریا دفاعی تعاون کے معاہدے کے لیے امریکا کو مزید رقم کی ادائیگی پر راضی ہوگیا ہے تاہم یہ نہیں بتایا کہ کتنی رقم ادا کی جائے گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک معاہدہ کرسکتے ہیں، وہ ایک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، وہ بہت زیادہ رقم ادا کرنے پر راضی ہوگئے ہیں، جنوری 2017 میں جب میں نے یہ عہدہ سنبھالا تھا تو اس کے مقابلے میں وہ بہت زیادہ رقم ادا کر رہے ہیں‘۔

امریکا کے جنوبی کوریا میں تقریبا 28 ہزار 500 فوجیں موجود ہیں، جو 1950-53 کی کوریائی جنگ کے بعد سے وہاں ہیں، یہ جنگ امن معاہدے کے بجائے عارضی صلح پر ختم ہوئی تھی۔

‘چند گورنرز کو بہتر ہونے کی ضرورت ہے‘
ڈونلڈ ٹرمپ امریکی معیشت کو بحال رکھنے کے لیے کمپنیوں اور انفرادی سطح پر بڑی ادائیگیاں کر رہے ہیں جبکہ ریاستوں کے گورنرز کو احتیاط کے ساتھ وائرس میں کمی پر اپنی ریاستیں کھولنے کا کہہ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کورونا وائرس سے قبل ہم بہت زبردست تھے، ہمارے پاس تاریخ کی سب سے بہترین معیشت تھی‘۔

انہوں نے کہا کہ وہ کئی گورنرز سے خوش ہیں جو وائرس کے دباؤ میں بھی کام کر رہے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ چند کو بہتر ہونے کی ضرورت ہے مگر انہوں نے نام بتانے سے انکار کیا۔

ویکسین کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ چیزیں بہتری کی جانب جارہی ہیں‘۔

آدھے گھنٹے کے انٹرویو کے اختتام پر ٹرمپ نے امریکی نیوی کی جانب سے جاری کردہ یو ایف او کی ویڈیو پر ریمارکس پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے حیرت ہے کہ کیا یہ حقیقت ہے، یہ ایک بہترین ویڈیو ہے‘۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here