اردو غزل اور میڈکل سائنس

0
503

[email protected] 

9807694588موسی رضا

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


محمد عادل

تاریخ کے گوشوں کا اگر بغور مطالعہ کی جائے تو یہ بات پائے ثبوت تک پہنچے گی کی میڈکل سائنس اور ادب کا دیرینہ تعلق رہا ہے۔دورِقدیم سے لے کر ادب یاشاعری کی ابتداء اور اس کے بامِ عروج پر فائز ہونے تک ہم کو ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جو اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ قدیم دور کا انسان مختلف صلاحیتوں کا حامل تھا۔وہ بیک وقت فلسفہ،مابعدالطبعیات،مذہب،تاریخ،تہذیب،تقویم،آرٹ،لسانیات،انشاء،شاعری،ارضیات،
جغرافیہ،علم الادویہ،معدنیات،علمِ طبعیات ،کیمیا،علم روشنی،علمِ ہئیت وریاضی سے واقفیت رکھتا تھا۔اس کی شخصیت میں تحقیق اور تجسس کے بھی عناصر ہوا کرتے تھے۔اس سلسلے سے ارسطو کا نام پیش کیا جا سکتا ہے کہ اس کی ذات میں فلسفہ،علم و حکمت اورادب کی دلچسپی یکجاتھی۔اردو کا دور آیا تو ہم دیکھتے ہیں کہ اردو ادب کے مشہور و معروف شاعر حکیم مومنؔ خاں کی مثال بھی اس ضمن میں نمایاں ہے جو اپنے دور کے ایک بہترین حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے مثل ادیب و شاعر کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔میڈکل سائنس کے حوالے سے اردو شاعری کا مطالعہ ایک حیرت انگیز اور دلچسپ موضوع ہے۔کیونکہ میڈکل سائنس کا تعلق انسانی زندگی سے ہے اور ادب اس زندگی کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے تو یہ بات غور و فکر پرآمادہ کرتی ہے کہ کس طرح اس کا دامن اس موضوع سے گریز کر سکتا ہے۔دیکھنے میں شاعر اور طبیب ایک دوسرے سے بہت مختلف لگتے ہیں لیکن دریافت کا ایک مشترکہ احساس اور قدریں دونوں میں پائی جاتی ہیں۔جس طرح ایک ماہر طبیب غور و فکر اور تجزیہ سے کسی شے کو دریافت کرتا ہے اس طرح ایک شاعر بھی اپنے تجربات و تجزیات کا اظہاراپنے اشعار میں کرتا ہے۔
سائنس کے حوالے سے دیکھا جائے توہمارے جسم میںمتفرق اکائیاں موجود ہیں ان اکائیوں کو بیان کرنے کے لئے لفظ خلیہ(Cell) کا استعمال ہوتا ہے۔سب سے پہلے رابرٹ ہک(Robert Hook) نے 1665میں اپنی بنائی ہوئی خورد بین کے ذریعے اس کی دریافت کی ۔ سیل کا مطلب لاطینی زبان میںچھوٹے کمرے کا ہوتا ہے۔
یہ ہمارے جسم کے بلڈنگ بلاکس کہلاتے ہیں۔ جس طرح کوئی بلڈنگ اینٹوں سے مل کر بنتی ہے اسی طرح ذی حیات کے اجسام بھی خلیات کے مل کر جڑنے سے وجود میں آئے ہیں۔ نرم و نازک مہکتے ہوئے پھول ہوں،یا تناور درخت،یا پھر ہری ہری گھاس،انسان ہوں،چرند ہوں،یا پرند زندگی کی ہر شے کا وجود خلیہ کے سبب ہی ممکن ہے۔یعنی یہ جانِ جہاں ہیں احمد فرازؔ کی غزل کایہ شعر اس بات کی مثال پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
خلیہ کی بہت سی قسمیں،شکلیں،اور سائز ہوتے ہیں سب سے بڑا خلیہ شتر مرغ کا انڈا تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور سب سے چھوٹے خلیہ کا سائز اتنا ہوتا ہے کہ اگر دس لاکھ خلیات کو ایک جگہ رکھا جائے تو پن کے سر کے برابر جگہ میں سما جائیں گے۔انسانی جسم کی ہر حرکت،جنبش،اور فعل خلیات کے سبب ہی وجود میں آتے ہیں۔کچھ خلیات پھیپھڑوں کو بناتے ہیں تو کچھ دل کی تشکیل کرتے ہیں۔نیورون نامی خلیات ہاتھ،پیروں،آنکھوں وغیرہ سے آنے والے پیغاماتی سگنل کو دماغ تک پہنچانے میں مدد کرتے ہیں۔ ہمارے خون میں پائے جانے والے سرخ خلیات (RBC) آکسیجن کو لانے لے جانے کام انجام دیتے ہیں۔ ہر خلیہ کا اپنا ایک مکمّل نظام ہوتا ہے جو کسی خاص کام کو انجام دیتا ہے۔اس میں مائٹو کانڈریا نام کا پاور پلانٹ موجود ہوتا ہے جس سے اس کو توانائی ملتی رہتی ہے۔یہ خون کے سرخ خلیات کو چھوڑ کر جسم کے تمام خلیات میں پایا جاتا ہے۔نیوکلیس نامی کنٹرول روم بھی موجود ہوتا ہے۔گالگی باڈیز پروٹینس کو اسٹور کر کے رکھتی ہے۔وسیکلس چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہے۔یہ مکمل طور سے ایک حفاظتی پیکٹ نما جھلّی میں محفوظ رہتا ہے۔احمد فرازؔ کا یہ شعر اس بات کی ترجمانی میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ ؎
ذرّے ذرّے میںہے آباد جہاں
خود کو ہر شے میں سمو کر دیکھو
شعر میں استعمال الفاظ’’ذرّے ذرّے میںہے آباد جہاں‘‘ خلیات کے بناوٹ اور اس میں آباد جہاں یعنی کی مختلف حصّوں کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہوا نظر آرہا ہے۔
ہر شخص اوسطً ایک سو کھرب100 Trillion) خلیات اپنے جسم میں رکھتا ہے۔زندگی کے وقوع پزیر ہونے سے لے کرتاحیات انسانی میںجسم میں بدلائو رونما ہوتے رہتے ہیں۔کسی بھی ذی حیات کا جسم کبھی بھی ایک جیسا نہیں رہتا ہے۔سائنس دانوں کے مطابق ہمارے جسم میں ہر لمحہ کچھ نہ کچھ بدلائو ہوتا رہتا ہے۔ہمارے جسم میں یہ بدلائو کا عمل جسم کے خلیات کے سبب وجود میں آتا ہے۔اس عمل کے دوران پرانے خلیات کے خاتمہ ہونے پر نئے خلیات ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔سائنس دانوں نے اس بات کو اپنی تجربات سے ثابت کیا ہے کہ جسم کی بافتیںTissues) (مسلسل دوبارہ پیدا ہوتی رہتی ہیں۔اس عمل میں 20 کروڑ خلیات ہر منٹ وجود میں آتے ہیں۔اور یہ خلیات ان خلیات کی جگہ لیتے ہیں جو خلیات مردہ ہو چکے ہیں۔اس طرح ہماری زندگی کی بقا کے لئے ان خلیوں کا اہم کردار ہے۔در اصل ہماری زندگی ان نئے خلیوں کے بننے اور پرانے خلیوں کے مرنے پر قائم ہے۔ فانی ؔ کا یہ شعر اس عمل پر روشنی ڈالتا ہوا نظر آتاہے۔
؎ ہر نفس عمرِگزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
زندگی اور موت کا دار ومدار اُن خلیات پر ہی منحصر ہے ۔ زندگی خلیات کے بننے اور خاتمے کے سبب روا ں دواں رہتی ہے۔اگر یہ سلسلہ قائم نہ رہے تو زندگی کسی طرح ممکن نہیں ہو سکتی۔جگر ؔ بھی اپنے ایک شعر میں اس موضوع کو سمٹتے ہوئے نظر آتے ہیں
؎ زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ!
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں
زندگی اور موت کے اس سفر میں یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ ایک دن اس پوری دنیا کو فنا ہونا ہے اور اس بات کو دور حاضر میں سائنس بھی تسلیم کرتی ہے۔ہمیں مر جانا ہے اور یہ ہی ہماری زندگی کی اصل حقیقت ہے۔جب سے اس کائنات کا وجود ہے نہ جانے کتنی زندگیاںزیورِحیات سے مزیّن ہوئیں اور کتنی روحیں اس جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف کوچ کر گئیں۔ زندگی اور موت کا یہ سفر انسان کے عالمِ وجود میں آنے سے لے کر اس کی وفات ہونے تک مسلسل رواں دواں رہتا ہے۔کسی جاندار کے تمام تر جسمانی افعال کا جب خاتمہ ہوتا ہے تو اس کو طبیعی اعتبار سے موت کہا جاتا ہے۔
تمام تر جانداروں کے خلیات کے اندر ایسے کیمیائی تعملات صادر ہوتے ہیںجو رفتہ رفتہ موت کا سبب بنتے ہیں۔خلیات کو افعال کرتے رہنے کے لئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ مختلف قسم کے کیمیائی مرکبات(Compounds)سے مل کر وجود میں آتے ہیں۔مثلاًپروٹین،کاربوہائیڈریٹ،چکنائی(چربی) وغیرہ۔یہ خلیات بہت حرکی ہوتے ہیں ان میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتے ہیں۔اور جو حرکت پزیر نہیں ہوتے ان میںمرمت کا کام چلتا رہتا ہے۔نئے خلیات وجود میں آتے رہتے ہیں۔جب کسی چوٹ کے سبب خلیہ اپنے اندرونی اور بیرونی ماحول میںتوازن برقرار نہیں رکھ پاتا ہے تو اس کی موت واقع ہوتی ہے۔الغرض ان کو اپنی زندگی برقرا رکھنے کے لئے عناصر(Elements) اور مرکبات(Compounds) کے ایک توازن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان عناصر میںآکسیجن،نائٹروجن،کاربن،گندھک وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔خلیہ میںپلازمہ یا خون کے درمیان مختلف کیمیائی عناصر اور مرکبات کا تبادلہ اس کی ضرورت کے سبب ہوتا رہتا ہے۔جب تک یہ توازن برقرار رہتا ہے ان کے افعال برقرار رہتے ہیں اور جب اس میںتبدیلی رونما ہونے لگتی ہے تو ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
اب تک 118 عناصر کی دریافت ہو چکی ہے۔تمام عناصر میں تین چوتھائی حصّہ دھاتیں اور ایک چوتھائی ادھاتیں ہیں۔ہماری صحت کی حفاظت اورزندگی کے لئے بھی یہ بہت اہم ہیں۔انسانی جسم میں99% عناصر جو بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں ان میں’’آکسیجن،کاربن، ہائیڈروجن، نائڑوجن، کیلشیم اور فاسفورس‘‘قابلِ ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ ’’پوٹاشیم، گندھک، سوڈیم، میگنیشیم،تا نبے ، زنک، سیلینیم،مولبڈینم،فلورین،کلورین،آئیوڈین،مینگیج
(Manganese) کوبالٹ،آئرن ‘‘جیسے عناصر بھی ہماری انسانی جسم میں موجود ہوتے ہیں جو اس کی نشونمامیں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان عناصر کی کمی یا زیادتی کے سبب انسانی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔اور ہمارے جسم میں بہت سی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔مثلاً’’ہڈیوں کا کمزور ہونا،اوسموٹک توازن کا بگڑنا،دانتوں کی بیماریاں ،لیور کا متاثر ہونا،ہیموگلوبن کی کمی ہونا،گھیگھوا(Goitre) کا بننا‘‘وغیرہ وغیرہ ۔ برج نارائن چکبستؔ نے زندگی اور موت میں ان کیمیائی عناصر کی افادیت کو کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے۔
؎ زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے ان ہی اجزاء کا پریشاں ہونا
چکبست کا یہ شعرہم کو اس طرف غور کرنے کی دعوت دے رہا ہے کہ زندگی کس شے کو کہتے ہیں۔زندگی کا ہونااس شے کی زندہ ہونے کی نشان دہی کرتا ہے۔زندگی صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکے حیوانات،اور نباتات میں بھی پوشیدہ ہے۔انسانی زندگی میں اس کی جسمانی زندگی کے وجود میں آنے سے لے کر موت آنے تک ظاہری،باطنی تبدیلی مسلسل ہوتے رہنا اس کی زندگی کی علامت ہے اور اس سلسلے کا رک جانا ہی موت ہے۔
؎اُس مرحلے کو موت بھی کہتے ہیں دوستو
اک پل میں ٹوٹ جائیں جہاں عمر بھر کا ساتھ
(شکیبؔ جلالی)
ہمارے جسم کے خلیوں میں پایا جانے والا ڈی۔این۔اے ایک حیران کرنے والی شے ہے۔بچے کی تخلیق کے عمل سے لے کر اور زندگی کے آخری لمحات تک یعنی تاحیات جسم کے افعال کو رواں دواں رکھنے کے لئے ڈی۔این۔اے کے دو ایک دوسرے پر لپٹے ہوئے دھاگوں پر وہ ہدایات موجود ہوتی ہیں جنھیں سائنس کی زبان میں جینز (Genes) یا کوڈز (Codes) کہتے ہیں۔ اگر تحقیق سے پہلے یہ ہدایات موجود نہیں ہوں گی تو انسان ہی کیا کسی بھی ذی حیات کی تخلیق ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔
ہر خلیہ میں ایک ڈی۔این۔اے سالمہ موجود ہوتا ہے۔اور ہر ایک ڈی ۔این۔اے میں تین ارب مختلف موضوعات سے متعلق معلومات موجود رہتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ہمارے جسم کے اندر موجود ڈی ۔این۔ اے کی لمبائی بہت ہی حیرت انگیز اور دلچسپ ہے اگر اس کے ایک دوسرے پر لپٹے ہوئے دھاگوں(Double Helix) کو نکال کر ایک لائن میںرکھا جائے اور اس کی پیمائش کی جائے تو اس دھاگے کی لمبائی زمین اور چاند کے درمیان موجود فاصلے سے دس ہزار گنا زیادہ نکلے گی ۔یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ چاند اور زمین کے درمیان کا فاصلہ 3,84,400 کلومیٹر ہے۔اور انسانی ڈی ۔این۔ اے کی لمبائی اس فاصلہ سے دس ہزار گنا زیادہ ہے۔اردو غزل کا یہ شعر اس بات کی طرف توجہ مرکوز کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
؎ سمٹا ہوا ہے جو میرے اندر وجود میں
پھیلے تو آسمان کی وسعت سے جا ملے
(ہلال ؔنقوی)
خون ہمارے جسم میںگردش کرنے والاایک سیال مادّہ ہے جس میں مختلف اقسام کے خلیات،غذائی و دیگر مادے تیرتے رہتے ہیں اور پورے جسم میں خون کے ساتھ چکّر لگاتے ہیں اس عمل کو دورانِ خون(Blood circulation) کہتے ہیں۔اس میں موجود سیال(Fluid) کو پلازمہ(Plasma) کہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ خون میںتین اقسام کے خلیات بھی موجود ہوتے ہیں جن کو سرخ خونی خلیات(Red blood cells) ،سفیدخونی خلیات(White blood cells) سوئم صفیحات (Thrombocytes) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
عام آدمی کے لئے خون صرف ایک سرخ رنگ کا سیال مادّہ ہے جو اس کی رگو ں میں بہتا ہے۔لیکن یہ بات بہت دلچسپ اور حیرت انگیز ہے کہ کس طرح یہ سیال مادہ ہمارے پورے جسم میں سفر کرتا ہے۔اس دوران بہت سے حیران کن معجزے ہمارے جسم میں رونما ہوتے ہیں۔مثلاً جتنی دیر میں ہم پلکیں چھپکتے ہیں اتنی دیر میںکم سے کم بارہ لاکھ سرخ خلیے اپنے افعال مکمل کر کے مر جاتے ہیں۔اور اسی دوران اتنے ہی نئے خلیے بن کر ہمارے خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔یہ کام ہماری ہڈیوں کا گودا (Bone Marrow) انجام دیتا ہے۔سرخ خلیوں کی عمر120 دن ہوتی ہے اس دوران ہمارا خون 75 ہزار مرتبہ ہمارے دل سے جسم تک اور جسم سے دل تک کا سفر طے کر چکا ہوتا ہے۔ہمارے جسم میں موجود پلازمہ اور سرخ خلیے ایک منٹ میں تقریباً 72 مرتبہ اپنے صارفین کو اُن کی ضرورتیں مکمل کرتے ہیں۔اس دوران انھیں 75 ہزار لمبی شریانوںاور وریدوں سے گزرنا ہوتا ہے۔
غالبؔ بڑے فلسفیانہ طریقے سے لہو یعنی خون کے بارے میں سوچنے کی دعوت دیتے ہیں۔عام طور سے اس دور میں یہی تصور کیا جاتا تھا کہ لہو ایک سیال شے ہے جو ہماری رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے اور اس میںبہنے اور ٹپکنے کی خصوصیت ہوتی ہے۔ یعنی اس دور کے طبیب اس کی بہت سی خصوصیات سے واقف نہیں تھے جس کی معلومات آج کی جدید میڈیکل سائنس رکھتی ہے۔ لیکن غالبؔ اپنے ایک شعر میں لہو کی ماہیت کے بارے میں سوچنے کی دعوت دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے
غالبؔ اس شعر میں فلسفیانہ طریقہ سے لہو کے بارے میں سوچنے کی دعوت دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے قائل نہیںہونے سے مراد غالبؔ لہو کو صرف رگوں میں دوڑنے پھرنے والی شے نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس کواس سے بھی بالا تر سمجھتے ہیں وہ اس کے دوڑنے پھرنے کے اصل وجہ کی طرف سوچنے کی دعوت دے رہے ہیں۔بہنے اور ٹپکنے کے بارے بتانے سے مراد اس بات پر زور دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کے کیا سبب ہے جس کی وجہ سے لہو ان خصوصیات کا حامل ہے یعنی وہ سیال مادہ ہے تو اس کی وجہ کیا ہے یعنی لہو کی بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ شعر میں استعمال ہوا جملہ ـ’’لہو کیا ہے‘‘ اس بات کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
ہماری زندگی کو رواں دواں رکھنے میں دل کا بہت بڑا کردار ہے۔اس کی تعریف میں شاعروں اور ادیبوں نے بہت کچھ تحریر کیا ہے۔در اصل یہ چار چیمبرز پرمشتمل ایک عضو ہے جو ایک پمپنگ مشین کی طرح کام انجام دیتا ہے۔یہ خون کو جسم کے مختلف اعضاء تک پہچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ عمل جسم میں ایک منٹ میں تقریباً 72مرتبہ ایک گھنٹے میں4320 مرتبہ اور ایک دن میں103680مرتبہ عمل میں آتا ہے۔ ہر مرتبہ خون اوسطً60 ہزار میل لمبی خون کی نالیوں کے ذریعہ جسم کے مختلف حصّوں تک گردش کرتا ہے۔اگر چند منٹوں کے خون کی فراہمی بند ہوجائے تو ہماری زندگی کے لئے بڑے خطرہ کی بات ہوگی۔عابد علی عابدؔ کی غزل کے ایک شعر کو اس بات کی ترجمانی میںپیش کیا جاسکتا ہے۔
؎ حرکت زندگی کا ہے معیار
فلسفہ یہ نہاں ہے گردش میں

ہماری آنکھیں ایک قدرت کا حیرت انگیز معجزہ ہیں۔باظاہر یہ عضو ہیں جس کی مدد سے ہمیں دیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ہماری آنکھیں گیند نما شکل کی ہوتی ہیں جن کا قطر تقریباً ایک انچ ہوتا ہے۔یہ سفید رنگ کے ایک سخت غلاف یا پردے میں محفوظ لپٹی ہوئی ہوتی ہیں۔آنکھ کے سامنے کی طرف غلاف میں ایک شفاف گول حصّہ موجود ہوتا ہے۔اس کے پیچھے ایک چھوٹے سے حصّے میں ایک سیال بھرا ہوتا ہے۔اس چھوٹی سی جگہ کے پیچھے ایک گول شکل نما بافت پائی جاتی ہے اس میں ایک سوراخ موجود ہوتا ہے۔ اس بافت کو آئرس (Iris) اور اس میں موجود سوراخ کو آنکھ کی پتلی (Pupil) کہتے ہیں۔
آئرس آنکھ کا رنگ دار حصہ ہے۔اس کے اندر کے کنارے پر پتلی کے گرد چھوٹے ،چھوٹے عضلات کاایک دائرہ ہے۔یہ عضلات بہت حساس ہوتے ہیں اور روشنی ان پر اثر انداز ہوتی ہے۔کم روشنی ہونے پر آنکھوں کے یہ عضلات پتلی کو پھیلانے لگتے ہیں اورجب ہماری آنکھیں تیز روشنی یا دھوپ میں ہوتی ہیں تو یہ عضلات سکڑنے لگ جاتے ہیںیا ہم اچانک کم روشنی سے یا اندھیرے سے کسی ایسی جگہ میں آتی ہیں جہاں روشنی زیادہ ہے تو ہماری آنکھیں چندھیانے لگتی ہیںیعنی آنکھیں صاف طور سے نہیں دیکھ پاتی۔اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کے زیادہ اجالا یا روشنی بڑھنے پر ہماری آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہونے لگتی ہیں اظہرؔ عنایتی بہت ہی خوب صورت ڈھنگ سے اس فعل کو بیان کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں
؎ نظر آئے نہ کچھ بھی روشنی میں
اجالے یوں بڑھائے جارہے ہیں

انسانی دماغ ایک حیرت انگیز معجزہ ہے۔بظاہر یہ ہمارے جسم کا ایک حصّہ ہے لیکن ہماری شخصیت،ہمارے ردِعمل،پسند اور ناپسند،صلاحیتوں،سوچ ا ور فکر،جزبات،احساسات،خیالات سے اس کا گہرا رشتہ ہے۔آنکھ،ناک،کان،ہاتھ،پیر کے چلنے اور کام کرنا سب دماغ کے احکامات کے مطابق عمل کرنا ہے یعنی ہمارے جسم کی ہرحرکت اس کے حکم کے طابع ہے۔بھوک،پیاس کا لگنا،سردی ،گرمی کا محسوس ہونا ،ڈرا ور خوف ،گھبراہٹ وغیرہ یعنی ہر خواہش اورموڈ کے بارے میں یہی ہم کو معلومات فراہم کرتا ہے۔جب انسان جزبات و احساسات کی منزل سے گزرتا ہے یا بہت زیادہ خوش ہوتا ہے تو اس مرحلہ پر انسان کے دل کی ڈھرکن بڑھنا لازمی ہوتا ہے کیوں کہ اس وقت دورانِ خون میںتیزی آجاتی ہے جو ایک فطری عمل ہے۔لیکن اس عمل کا تعلق بھی ہمارے دماغ کے سبب ہی ممکن ہے۔ جب کہ عام فہم لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کا تعلق ہمارے دل سے ہے۔جب انسان کسی کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے یا اس پر جنونی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس کا سبب دماغ سے ہوتا ہے نہ کہ دل سے۔ اس وقت انسانی دماغ میں خلل پیدا ہوتا ہے ۔ غالبؔ اس بات کی ترجمانی اپنے ایک شعر میں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

؎ بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیںجس کو عشق خلل ہے دماغ کا

غالبؔ کے شعر کا یہ مصرع ’’کہتے ہیںجس کو عشق خلل ہے دماغ کا‘‘میڈیکل سائنس کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔اس بات کی تصدیق آج کے Neurologists بھی کرتے ہیں برطانویNeurologists کایہ کہنا ہے کہ عشق ایک خاص دماغی عمل ہے جس کے دوران دماغی حصّہ متاثر ہوتے ہیں اور دماغی حصّوں میںتحریک تیز ہوجاتی ہے ۔

آج کے دور میں میڈیکل سائنس نے ناقابلِ فراموش ترقیاں کی ہیں۔آج ہمارے ڈاکٹر اس قابل ہو گئے ہیں کہ کسی بڑے آپریشن سے پہلے دوائوں کے ذریعے دماغ کو بے ہوش کرنے اور جسم کے حصّوں کو سن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس عمل کو طبی اصطلاح میں انیستھیسیا (Anesthesia) کہا جاتا ہے۔کوئی بھی آپریشن کرنے سے قبل اس عمل کو انجام دیا جاتا ہے اس کے بعد ڈاکٹر اگر جسم میں چیر ا لگاتے ہیں یا نسوں میں سوئیاں چھبوتے ہیںتو ہمارے جسم کو ذرا سا بھی احساس نہیں ہوتا۔بشیر بدرؔ اپنی غزل کے ایک شعر میں اس کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

؎ یقین جانئے احساس تک نہ ہوگا ہمیں
نسوں میں سوئیاں کوئی اگر چھبوئے بھی

میڈکل سائنس اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر ہمارے جسم کو لُو لگ جائے تو ہمارے لئے خطرہ ہو سکتا ہے یہاں تک کہ ہماری جان بھی جا سکتی ہے۔لُو لگنے کے بعد بخار آتا ہے اور جلد کا رنگ سرخ پڑنے لگتا ہے دماغ درد محسوس کرتا ہے نبض تیزی سے چلنے لگتی ہے۔یہ بھی ممکن ہے جس شخص کو لُولگ گئی ہے وہ بے ہوش ہو جائے۔لُو لگنے کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی بھی ہو جاتی ہے۔جب ہمارا جسم پانی کی کمی(Dehydration) میں مبتلا ہوتا ہے تو دل پر کھچائو ہو تا ہے اور گردے بھی متاثر ہوتے ہیں۔جس کے نتیجہ میںہمارے جسم کا کیمیائی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔پوٹاشیئم،سوڈئیم،فاسفورس اور کلورائڈ کے تناسب میںتبدیلی ہو سکتی ہے جو ہمارے جسم کے خلیوںکے افعال کے لئے بے حد لازمی ہیں۔اس سے بچنے کے لئے ہمیں کچھ احتیات کی بھی ضرورت ہے کہ گھر سے نکلتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ زیادہ دیر تک دھوپ میں نہ رہنا پڑے۔اردو غزل کا یہ شعر اس خدشہ اور احتیات کو بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

جب ستم خیز نکلتی ہے ہوا گرمی میں
جان لینے کا ہنر اور ادا رکھتی ہے
(عادل فرازؔ)
ان کے علاوہ اردو غزلوں میں جگہ جگہ ایسے اشارات ملتے ہیں جو میڈیکل سائنس کی ترجمانی کرتے ہوئے ظاہر ہوتے ہیں۔ جن کی مثال حسبِ ذیل ہے۔

گھروں میں آئے پلٹ کر تو یہ ہوا احساس
ہمارے ساتھ ہمارے لہوکی ہجرت تھی
(وفاؔ نقوی)
’’ہمارے ساتھ ہمارے لہوکی ہجرت تھی‘‘ یعنی یہ مصرع خون کے رواں دواں ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

بشیر بدرؔ کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے۔شاعر کہتا ہے
؎ ہزاروں میل کامنظر ہے اس نگینے میں
ذرا سا آدمی دریا ہے اور صحرا بھی

اس شعر سے یہ واضع ہوتا ہے کہ انسانی جسم کا یہ چھوٹا سا نگینہ ہزاروں میل کا منظر اور وسعتیں رکھتا ہے۔
مثلاًانسانی جسم کے ڈی۔این۔اے کی لمبائی، جسم میں موجود تمام شریانوں اور وریدوں کی لمبائی وغیرہ وغیرہ۔ساتھ ہی ’’دریا‘‘ اور’’صحرا‘‘ کے استعارے انسانی جسم میں موجود رقیق اور سیّال مادّوں اور انسانی جسم میں پائے جانے والے عناصر جوصحراکی مٹّی میں بھی موجود ہوتے ہیںاور کم و بیش انسانی جسم میں بھی پائے جاتے ہیں کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔جس طرح صحرا میں پیڑ پودے اور ہریالی اگتی ہے اسی طرح ہمارے جسم پر بھی بال رونما ہوتی ہیںاور جس طرح’’ صحرا‘‘ میں نشیب و فراز پائے جاتے ہیں اسی طرح ہمارے جسم کی بناوٹ میں بھی نشیب و فراز موجود ہیں۔بظاہر شاعر آدمی کے جسم میں’’دریا ‘‘ اور ’’صحرا‘‘ سے ملتی جلتی خصوصیات پر زور دیتا ہوا نظر آرہا ہے۔’’ذرا سا آدمی‘‘ میں ’’ذرا سا‘‘ لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہوا نظر آتاہے۔

ہمارے جسم میںایک ایسا نظام موجودہے جو کھانے اور پینے کی اشیاء کے ذریعہ توانائی لیتا ہے۔جب ہم کھانا کھاتے ہیں توہمارا جسم میںموجود ہاضمے کا سسٹم(Digestive System) اپنا عمل کرنے لگتا ہے اور کھانے کو ہضم کرنے میں تقریباً 24 سے 72گھنٹوں کی مدّت لیتا ہے۔کھانا جب معدہ میںہوتا ہے گیسٹرک ایسیڈ اس کو مکمل طور سے گلا دیتا ہے چھوٹی آنت میں جب انزائم اور پنکریاس رس اس میں ملتے ہیں تو اس عمل کے دوران کھانا چھوٹے چھوٹے مولیکولس میں تبدیل ہو جاتا ہے اس کو چھوٹی آنت کی دیواروں کے ذریعہ جذب کر لیا جاتا ہے جس کو جسم کے خلیات میں منتقل کر دیا جاتاہے جس کا استعمال خلیات جسم کو توانائی اور پروٹین مہیا کرانے میں کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کھانے اور پینے کی جو اشیاء ہمارے جسم میں جاتی ہے وہ فوراً ہمارے جسم کا حصہ نہیں بنتی بلکہ اس میںکچھ دنوں کی مدّت لگتی ہے اس عمل کے دوران وہ ہمارے جسم کے خلیات میں اسٹور رہتا ہے جس کو ضرورت کے وقت استعمال کرتے ہیں۔ بیماری کے وقت جب ہم غذانہیںکھا پاتے تو اس وقت ہمارے جسم میں موجود چربی خون میں شامل ہوتی رہتی ہے۔غالبؔ اپنے ایک شعر میں اس بات کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں
کیا کہوں بیماریِ غم کی فراغت کا بیاں
جوکہ کھایا خونِ دل بے منتِ کیموس تھا
(غالبؔ)

اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم مرحلے یعنی کیموس (Chyle) کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔در اصل یہ غذا کے ہضم ہونے سے پہلے کے د واہم مرحلے ہوتے ہیں جس کو کیلوس(Chyme) اورکیموس (Chyle) کہتے ہیں۔پہلے غذا کیلوس کی منزل سے گزرتی ہے اور پھرکیموس کے مراحل میں آتی ہے۔جس سے خون کی تشکیل ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ہمارے جسم کو توانائی ملتی ہے ۔اور بیماری کے وقت جب ہم غذانہیںکھا پاتے تو یہ عمل پیش نہیں آتاہے اس وقت ہمارے جسم میں موجود چربی خون میں شامل ہوتی رہتی ہے۔ شعر میں آئے لفظ ’’جوکہ کھایا‘‘ اور’’کیموس‘‘ اس بات کی طرف اشارہ کر تے ہیں۔

الغرض میڈیکل سائنس ایک طویل موضوع ہے جس کو ایک مختصر مضمون میںنہیں سمیٹا جا سکتا ہے ۔اس کے لئے ایک مدت اور بے شمار صفحات درکار ہیں۔آخر میں اس شعر پر اپنی بات کو ختم کرنا مناسب ہوگا۔

سرسری ہم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان ِدیگر تھا
(میردررؔ)

کتابیات
(1)’’ جسم کے عجائبات ‘‘ تحقیق ’’جے۔ڈی۔ریٹ کلف‘‘ ترجمہ’’محمد علی سید‘‘ کرا چی پاکستان
DNA(2) جسم کی کتابِ ہدایت ،تحقیق ’’رچرڈواکر‘‘ ترجمہ’’محمد علی سید‘‘ کرا چی پاکستان
(3) ’’خلیہ اِک کائنات‘‘ہارون یحییٰ مترجم’’عبدالخالق ہمدرد ‘‘لاہور پاکستان

E.R MOHD ADIL
HILAL HOUSE
HNO.4/114 JAGJEEVAN COLONY NAGLAH MALLAH CIVIL LINE ALIGARH 202002
POST BOX NO:53
HEAD POST OFFICE ALIGARH.
MOB:9358856606

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here