9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
منور رانا
رخصتی ہوتے ہی ماں باپ کا گھر بھول گئی
بھائی کے چہروں کو بہنوں کی نظر بھول گئی
گھر کو جاتی ہوئی ہر راہ گزر بھول گئی
میں وہ چڑیا ہوں کہ جو اپنا شجر پھول گئی
میں تو بھار ت میں محبت کے لئے آئی تھی
کون کہتا ہے حکومت کے لئے آئی تھی
نفرتوں نے میرے چہرے کا اجالا چھینا
جو میرے پاس تھا وہ چاہنے والا چھینا
سر سے بچوں کےمیرے باپ کا سایہ چھینا
مجھ سے گرجا بھی لیا مجھ سے شوالہ چھینا
اب یہ تقدیر تو بدلی بھی نہیں جاسکتی
میں وہ بیوہ ہوں جو اٹلی بھی نہیں جاسکتی
آگ نفرت کی بھلا مجھ کو جلانے سے رہی
چھوڑ کر سب کو مصیبت میں تو جانے سے رہی
یہ سیاست مجھے اس گھر سے بھگانے سے رہی
اٹھ کے اس مٹی سے ، یہ مٹی بھی جو جانے سے رہی
سب میرے باغ کے بلبل کی طرح لگتے ہیں
سارے بچے مجھے راہل کی طرح لگتے ہیں
اپنے گھر میں یہ بہت دیر کہاں رہتی ہے
گھر وہی ہوتا ہے عورت جہاں رہتی ہے
کب کسی گھر میں سیاست کی دکاں رہتی ہے
میرے دروازے پر لکھ دو یہاں ماں رہتی ہے
ہیرے موتی کے مکانوں میں نہیں جاتی ہے
ماں کبھی چھوڑ کر بچوں کو کہاں جاتی ہے
ہر دکھی دل سے محبت ہے بہو کا ذمہ
ہر بڑے بوڑھے سے محبت ہے بہو کا ذمہ
اپنے مندر میں عبادت ہے بہو کا ذمہ
جس دیش میں آئی تھی وہی یاد رہا
ہو کے بیوہ بھی مجھے اپنا پتی یاد رہا
میرے چہرے کی شرافت میں یہاں کی مٹی
میرے آنکھوں کی لجاجت میں یہاں کی مٹی
ٹوٹی پھوٹی سی اک عورت میں یہاں کی مٹی
کوکھ میں رکھ کے یہ مٹی اسے دھنوان کیا
میں نے پرینکا اور راہل کو بھی انسان کیا
سکھ ہیں ہندو ہیں مسلمان ہیں عیسائی بھی ہیں
یہ پڑوسی بھی ہمارے ہیں یہی بھائی بھی ہیں
یہی پچھوا کی ہوا بھی ہیں یہ پروائی بھی ہیں
یہاں کا پانی بھی ہے ، پانی پر جمی کائی بھی ہیں
بھائی بہنوں سے کسی کو کبھی ڈر لگتا ہے
سچ بتاؤ کبھی اپنوں سے بھی ڈر لگتا ہے
ہر اک بہن مجھے اپنی بہن سمجھتی ہے
ہر اک پھول کو تتلی چمن سمجھتی ہے
ہمارے دکھ کو یہ خاک وطن سمجھتی ہے
میں آبرو ہوں تمہاری تم اعتبار کرو
مجھے بہو نہیں بیٹی سمجھ کے پیار کرو