9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
مرزا محمد حیدر لکھنؤ
پروردگار عالم نےہم پر روزہ فرض کیا ہے جیسا کہ ارشادا لٰہی ہوتاہے: ’’اے ایمان والوں تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے والے لوگوں پر کیا گیاتھا تاکہ تمہیں پرہیزگاری نصیب ہو ۔‘‘ ( بقرہ آیت/۱۸۳ )
اس آیت مبارکہ میں روزہ کا فرض ہونا اوراس کی فضیلت دونوں کا بیان ہے۔ عربی زبان میں روزہ کو صوم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ صوم کے معنی’ رک جانے ،باز رہنے یا کسی کام سے ہاتھ کھینچ لینے‘کےہیں اوراسلام میں طلوع صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔قرآنی آیت کے مطابق روزہ کی فرضیت کا بنیادی مقصد پرہیزگاری اور پاکیزگی ہے،تمام بُرائی سے اپنے نفس کو پاکیزہ کرنا۔
دیکھا جائے تو انسان تین اہم اجزاء کا مجموعہ ہے۔ روح جو ملکوتی ہے۔ جسم جو عالم مادہ یعنی دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور اخلاق جس سے خاکی انسان عالم ملکوت کی طرف مائل ہے۔ روزہ ان تینوں اجزاء کی پاکیزگی کا باعث بنتا ہے جسمانی پاکیزگی،اخلاقی پاکیزگی،اور روحانی پاکیزگی اور یہ تینوں آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
قرآنی آیت سے یہ بات روشن ہے کی روزہ تاریخ انسانی میں کوئی جدید شے نہیں۔ اگر تاریخ بشر کے پہلے صفحے کو دیکھے تو زمانہ آدم میں ( ایام بیض ) یعنی تیرویں،چودہویں،اور پندرہویں تاریخوں کے روزے فرض تھے۔ اسی طرح اہل ہنود (ہندو) ہوں یا یہودی یا پھر عیسائی تمام مذاہب میں یہ روش دور دوراں سے چلی آرہی ہے گرچہ انکے روزہ کے مسائل مختلف تھے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اعلان نبوت سے پہلے چالیس دن روزہ رکھا یعنی یہ واضح ہے کی روزہ تاریخ بشر میں کوئی نئی شے نہیں ۔
در حقیقت انسانی جسم ایک Biological machine ہے جس طرح ایک مشین بجلی ، پیٹرول وغیرہ سے Energy لے کر روح رواں ہوجاتی ہے لیکن جب تک اسکے تمام پرزے اپنے مقام پر درست کار کردگی انجام دے رہے ہوں اور یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب اس مشین کی بروقت servicing اور overhauling ہو بس ٹھیک اسی طرح انسانی جسم جسے ایک مشین کی حیثیت حاصل ہے serviceing لازم ہے لہذا اس مشین کے خالق نے اسکی سرویس کے لئے ایک خاص عمل ،روزے کی صورت میں اس پر لازم کر دیا ۔ جس کا خاص اثر انسان کے جسم ،اخلاق اور روح پر پڑتا ہے ۔
مشہور فلاسفر سقراط جسکا زمانہ ۴۷۰ سال قبل مسیح ہے، کسی اہم موضوع کے بارے میں غوروفکر کرنے چلتا تو تمرکز ذہنی کے لئے پہلے دس دن روزہ رکھتا اس نے روزہ کے طبی فوائد پر مفید بحث کی ہے۔ اسکے طبی فوائد کے ذیل میں کہتا کہ ہر شخص کے اندر ایک ڈاکٹر موجود ہے ہمیں اپنے اندرونی ڈاکٹر یعنی قوت مدافعت کی معاونت کرنی چاہیے اور تعاون کی بہترین تدبیر روزہ ہے۔انسانی مشین دو طرح کے خونی دباؤ پر چلتی ہے جسمیں سے انقباضی دباؤ (systolic pressure) دوسرا انبساطی دباؤ (diastolic pressure) ہے ،ان دونوں دباؤ کی زیادتی انسانی جسم کے لئے نقصان دہ ہے اور اس بیماری کو عرفِ عام میں high blood pressure یا BP کہتےہیں جو ایک مہلک بیماری ہے ان دونوں میں زیادہ خطرہ diastolic دباؤ کے بڑھنے سے ہوتا ہے۔
دن بھر کچھ نا کھانے کی وجہ سے خون میں کچھ مقدار کمی آتی ہے جس سے diastolic دباؤ کم سطح پر ہوتا ہے جو دل کے آرام وسکون کا باعث بنتا ہے ۔دوران خون پر خاص اثر ہے۔ اس حقیقت سے اب سب آگاہ ہیں کہ شریان خون میں کمزوری اور افسردگی کی اہم وجوہات میں سے ایک یہ ہے کی اس میں موجود باقی ماندہ مادّے (remnants) ہیں جو مکمل تحلیل نہیں ہو پاتے یہ خون میں مخلوط ہو کر اسکے نظام کو درہم برہم کرتے ہیں روزے کے دوران افطار تک یہ مادے مکمل طور پر تحلیل ہو جاتے ہیں اور یہ تحلیل شدہ مادّے خون کی شریانوں پر نہیں جمتے جسکی وجہ سے خون متعادل طور پر رواں رہتا ہے۔
انسانی بدن میں دل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور روزہ دل کی تمام بیماری کے لئے مفید ہے چونکہ دل کا کام ہے جسم کےتمام اعضاء میں خون کو پہچانا ۔طبیبوں کے قول کے مطابق دل دس فیصد خون ان اعضاء کو سپلائی کرتا ہے جنکا کام ہے غذا کو ہضم کرنا اب جبکہ انسان دن بھر کچھ نہیں کھاتا تو دل کو دن میں دس فیصد سکون ملتا جو اسکے لیے بےحد مفید ہے وقت کے رہتے دل hemoglobin کی پیداوار میں مصروف ہو جاتا ہے جو جسمی محافظی سسٹم immune system کو تقویت دیتا ہے۔اور اسی طرح روزہ نظام ہاضمہ پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے جس سے معدے کا کھچاؤ ختم ہو جاتاہے، روزہ کی حالت میں پھیپھڑے تمام فضلات اور بیکار چیزوں کو تیزی سے خارج کر دیتے ہیں جسکے نتیجہ میں خون کی صفائی اور نظام جسمانی میں صحت کی لہر دوڑ پڑتی ہے۔روزے کی حالت میں جسم سے تمام زہریلے مادے مانند تیزابِ بول (پیشاب) وغیرہ خارج ہو جاتے ہیں جسکی وجہ جوڑوں اور کمر کے درد میں بہتری آتی ہے ۔روزہ کے جسمانی فوائد میں سب سے اہم جسم اور دماغ میں ہم آہنگی ہے ۔ slimming center میں جانے والے اکثر افراد جیسے ہی اپنی dieting کو ترک کرتے ہیں انکا موٹاپا پہلے سے زیادہ بڑھ جاتا ہے وہ اس وجہ سے کیونکہ دماغ کا وہ حصہ جسے hypothalamus کہتے اور جسکا کام وزن کو کنٹرول کرنا ہے ۔اگر کوئی شخص فاقہ کرتا ہے تو فاقہ کے بعد یہ حصہ تیزی سے کام کرتا ہے نتیجہ وزن پہلے سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
روزہ ظاہری آلودگی کے ساتھ ساتھ باطنی آلودگی سے نجات کا باعث بنتا ہے جھوٹ ، غیبت ، برائی ، بد گوئی ، فحش کلامی ، دھوکہ،جھگڑا ،ظلم وتشدد جیسے ظاہری آلودگی کے ساتھ ساتھ حسد،بغض،کینہ ،بد خواہی ،بدگمانی، غیظ وغضب جیسی باطنی بیماریوں سے بچنے کے لئے روزہ ایک بہترین راہ ہے ۔اخلاق کی پاکیزگی میں روزہ کا ایک خاص عمل قوت ارادی میں اضافہ کرنا ہے اکثر دیکھا جاتا ہے کہ اچھے اور برے کی تمیز کرنے کے باوجود انسان خواہشات کی طرف دوڑ پڑتا ہے خواہشات کا طوفان روکنے کے لئے ارادہ کا مستحکم اور مظبوط ہونا ضروری ہے روزہ قوت ارادی کو مظبوط کرتا ہے تاکہ انسان اپنے ارادوں پر قائم رہے جس طرح روزہ کے دوران تمام نعمتوں کے سامنے ہونے کے باوجود وہ اسے ہاتھ نہیں لگاتا ۔ ایک بہترین معاشرہ سازی کے لئے ایک دوسرے کے دکھ درد کو جاننا اور دادرسی کرنا ہے ۔ایام روزہ ہر شخص ان تمام مفلس افراد کے دردو فاقوں سے آشنا ہوتا ہے اور انکی دادرسی افطار کی صورت میں انجام دیتا ہے جو یقینا ایک بہترین معاشرہ کی پہچان ہے۔یہ بات دیکھی گئی ہے کہ لوگوں میں انانیت egoistic یا طبیعت کی سختی ان میں چڑچڑاپن پیدا کر دیتی ہے روزہ ہماری انانیت کو ختم کرتا ہے جسکے باعث چڑچڑاپن دور ہو جاتا ہے اور انسان سکون کی سانس لیتا ہے ۔
روزہ کا ایک خاص عمل جو انسان کے اخلاق پر پڑتا ہے وہ نعمات کی قدردانی ہے نعمتوں کی ناقدری انسان کو آہستہ آہستہ سنگدل بنا دیتی ہیں ، وہ یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ یہ تمام نعمتیں اسکی جاگیر ہیں نتیجہ میں وہ ظلم تشدد پر اتر آتا ہے۔ایک ماہ کی طویل مدت میں اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ نعمتوں کا جاگیردار نہیں تمام چیزوں سے دور ہونے کے بعد جیسے نعمتوں کو اپنی پاس پاتا ہے انکا قدردان ہو جاتا ہے۔
صفات انسانی نا فقط ملکوتی ہے اور نا حیوانی بلکہ انسان ان دونوں کے درمیانی صفات کا حامل ہے اس میں کچھ ملکوتی صفات جیسے رحم وکرم،محبت ،ہمدردی ،صبر وتحمل جو انسان کو دوسروں کی نظر میں اسے محبوب بناتی ہیں اور اسے عزت بخشتی ہیں وہیں دوسری طرف اس میں کچھ حیوانی صفات بھی شامل ہیں جیسے جنسی جذبات،راحت طلبی ، جدت پسندی وغیرہ ۔در حقیقت انسان روحی اور جسمی صفات کا حامل ہےپس جس طرح جسمی صفات مادی غذا سے ابھرتے ہیں ویسے ہی روحانی غذا یعنی نا کھانا انسان کی روح کو تقویت دیتے ہیں اسی خاطر پروردگار عالم نے جو نظام احسن کا خالق ہے،گیارہ ماہ ہماری جسمانی قوت بڑھانے کی خاطر مادی غذا اورایک ماہ روحانی قوت کو بڑھانے کے خاطر روزہ فرض کیا ہے۔روزہ کو تمام عبادات میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور وہ یہ کہ تمام عبادات وقتی روحانیت کا سبب بنتی ہیں جبکہ روزہ میں انسان دن بھر روحانی کیفیت سے سرشار ہوتا ہے ۔
ان تمام فوائد کے ساتھ روزہ کا ایک خاص مقصد خدا کی بندگی، سچی لگن اور قرب خدا ہے جو ان تمام فوائد سے برتر اور افضل ہے اور مقصد حیات انسانی ہے ۔در حقیقت مالک حقیقی نےاس خاکی بشر کے لئے جتنے بھی واجبات فرض کئے ہیں ان میں انسان کیلئے دونوں عالم کے فوائد شامل ہیں۔ خداوند عالم سے یہ استدعا ہے کہ وہ ہم سب کو روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
٭٭٭