عارف نقوی
برلن ۲۴؍ اپریل۔کہتے ہیںکہ اردو زبان میں اتنی مٹھاس اور چاشنی ہے اور اردو ادب میں اتنا خلوص ، پیار اور اثرہے کہ کبھی کبھی دشمن بھی انھیں سن کراپنا شیطانی مقصد بھول جاتا ہے۔چنانچہ یہاں کے اردو داں حلقے بھی آجکل اردو ادب کے چراغوںسے کو رونا کے جراثیم کو رام کر رہے ہیں، یا یوں سمجھئے کہ اپنے اندر اتنی روحانی قوت پیدا کر رہے ہیں کہ ان کے جسم اور د ل و دماغ مشکلات پر قابو حاصل کر سکیں۔ چنانچہ اسکائپ سے آن لائن مشاعرہ کا ایک سلسلہ اردو انجمن نے ۱۲؍ اپریل سے شروع کیا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ اب دنیا کے مختلف حصوں سے ایسی ہی خوش خبریاں آرہی ہیں اور ہندوستان، پاکستان اور دیگر ممالک کے شہروں سے آن لائن مشاعرے شروع ہوگئے ہیں۔
حالانکہ کورونا وائرس کوویڈ ۱۹ کی تباہکاریاں ابھی کم نہیں ہوئی ہیں۔ آج صبح تک ساری دنیا میںستائیس لاکھ (۲ عشاریہ ۷ ملین) لوگ اس وبا سے متاثر اور ایک لاکھ اکیانوے ہزار (۱۹۱۰۰۰) ہلاک ہو چکے ہیں اور چوہتر لاکھ (۷۴۳۰۰۰) پھر سے صحتیاب ہوئے ہیں۔ جبکہ خود جرمنی میں جہاں میں رہتا ہوں تصدیق شدہ متاثر ین کی تعداد ایک لاکھ ترپن ہزار اور ہلاک ہونے والوں کی ساڑھے پانچ ہزار تین سو (۵۵۷۵) ہو چکی ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ حالت امریکہ میں خراب ہے ۔آٹھ لاکھ نوے ہزار (۸۹۰۰۰۰) متاثر اورپچاس ہزار ( ۵۰۳۷۲ ) مرے ہیں۔ یعنی یہ وبا بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ جبکہ سرکاری طور پر یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ حالات اب کنٹرول میں ہیں اور اب یہاںلوگوں کے ملنے جلنے میں سختیوں میں کچھ کمی کی جا رہی ہے۔ مثلاً ۸۰۰ میٹر تک کی دوکانیں کھلیں گی۔ کاروں ، سائکلوں، کتابوں کی دُکانوں میں داخلے کی پابندی میں بھی کچھ نرمی کی جائے گی۔میٹرک وغیرہ کے امتحانات کی بھی اجازت ہوگی جبکہ ۴؍ مئی تک قدم بہ قدم اسکول ، کارخانوں اور ریستوراں وغیرہ کو کھولنے اور ضرورت مندوںواپاہجون کی دیکھ بھال وغیرہ کے خاص انتظامات ہوں گے۔جبکہ بڑے جلسے و تقریبات اورگرجا، مسجد وغیرہ عبادت گاہوں کو ۳۱؍ اگست سے کھولا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ایسا لگتا ہے کہ چانسلر میرکل نے خود اپنی حکومت کے فیصلوں کو پسند نہیں کیا ہے اور کورونا کے خطرات کو نظرانداز کرنے سے منع کیا ہے۔ دوسری طرف ان کی مخلوط حکومت آج ایک ٹیلیفون کانفرنس کے بعد اس بات پر متفق ہو گئی ہے کہ کورونا سے متاثرین افراد اور فرموں کی مد د کے لئے کئی ارب یورو خرچ کرے گی۔ جبکہ یوروپین یونین نے بھی ۵۴۰ بلین کی امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیر یہ تو ہیں اس وقت کے مایوس کن حالات ۔جن میں ۲۲؍ اپریل کو اردو انجمن برلن کے اراکین نے اردو اشعار سے دردمندی اور امید کی آن لائن شمع جلا کر اور ایک عالمی مشاعرہ کر کے کورونا کے جراثیم کو ہرانے اور اپنی مدافعت کی روحانی قوت کو مضبوط بنانے کی کو شش کی ہے۔مشاعرے میں خاص طور سے للھنئو سے اودھ نامہ کے ریزیڈنٹ مدیر، بہترین صحافی، قلمکار اور شاعر ڈاکٹر ہارون رشید، کراچی سیبہترین شاعرہ محترمہ راحت، بروسیلس ،بلجیم سے جناب عمران چودھری جو بلجیم میں اردو سرگرمیوں کے روح رواں ہیں، لندن سے شاعر ، افسانہ نگار اور قلمکارجناب فہیم اختر، اور جناب نعیم پارکر، فرانس سے وہاں کی بہترین شاعرہ محترمہ شاذ ملک، برلن سے محترمہ عشرت معین سیما،جناب عامر عزیز اور محترمہ یوجنا جین ، جناب انور ظہیر اور عارف نقوی وغیرہ نے اشعار پڑھے۔ مشاعرے کی صدارت اردو انجمن برلن کے صدرعارف نقوی نے اور نظامت اردو انجمن برلن کے نائب صدر انور ظہیر رہبر نے کی۔
مشاعرہ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ لکھنئو سے ڈاکٹر ہارون رشید اور کراچی سے محترمہ حمیرا راحت نے بروسیلس سے جناب عمران چودھری ، لندن سے جناب فہیم اختر اور نعیم پارکر اور فرانس سے محترمہ شاذ ملک نے پہلی بار اردو انجمن کے مشاعرے میں شرکت کی اور اسے چار چاند لگائے۔ ہندوستان سے جناب خوشبیر سنگھ شاد، جناب منیش شکلا اور پروفیسر شارب ردولوی اور لندن سے جناب عابد علی بیگ بھی شرکت بھی شرکت کرنے والے تھے ، لیکن عین وقت پر ٹکنیکی مشکلات کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے۔
سب سے پہلے اردو انجمن کے نائب صدر انور ظہیر رہبرنے نظامت کرتے ہوئے مہمانوں کا استقبال کیا اور اردو انجمن برلن کے صدر عارف نقوی کو مشاعرے کی صدارت کی دعوت دی۔جنہوں نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ہم اشعار کی قوت سے کورونا کی وبا کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد ناظمِ مشاعرہ انور ظہیر نے اپنے کلام سے مشاعرے کا آغاز کیا اور پڑھا:
شاعری کا بھی اک الہام ہے مجھ میں
یعنی نزاکت حسن کلام ہے مجھ میں
سمندروں کی ہوائوں سے ڈر نہیں مجھ کو
موجوں کا بھی اک اژدھام ہے مجھ میں
اس کے بعد برلن کی شاعرہ محترمہ یوجنا جین نے، جو ہندی اور اردو میں شاعری کرتی ہیں اپنی ایک خوبصورت نظم سنائی۔جو کافی پسند کی گئی۔ اور اس کے بعد برلن ہی کے شاعر عامر عزیز نے اپنا کلام سنایا ۔ فرانس سے آئی ہوئی مہمان شاعرہ شاذ ملک کے ان اشعار کو خاص طور سے پسند کیا گیا:
دعاعیں رنگ لائیں گی ہماری یہ یقیں ہے
ہمارے دل میں کیونکہ شک کے وہ جالے نہیں ہیں
ہمیں ہیں شا ذ وہ اہل سخن اہل محبت
جو اہل ظرف ہیں اور جن کے دل کالے نہیں ہیں
لندن سے آئے ہوئے مہمان شاعر جناب نعیم پارکر نے فرمایا:
مردے نکل پڑے ہیںاندھیرے میں قبر سے
اک شخص ان کو نوچ کے کھاتا ہے رات دن
جو شخص کل تلک مجھے دیتا رہا فریب
سر اپنا پیٹ پیٹ کے روتا ہے رات دن
بروسیلس ، بلجیم کے اردو شاعر عمران چودھری کے ان اشعار کو خاص طور سے داد ملی:
اک عجب شور مچ گیا گھرمیں
کون سنتا میری صدا گھر میں
میں گھڑی باندھ کر نکل آیا
وقت رکھاہی رہ گیا گھر میں
اس کے بعد انہوں نے موجودہ حالات پُر اپنی پر تاثیر نظم سنائی جو اس طرح شروع ہوئی:
موت بانٹنے والو
شجرِ زندگانی کی شاخ کاٹنے والو
روز گرتی لاشوں پر خوش نہیں ہوا کرتے
جنگ جیتنے والو
جنگ کس نے جیتی ہے
تم بھی ہار جائو گے
میں بھی ہار جائوں گا
موت جیت جائے گی
اس کے بعد برطانیہ کے شاعر جناب فہیم اختر نے اپنی غزل پیش کرتے ہوئے پڑھا:
میں تجھ کو دیکھ کے بے اختیا ر ہوتا ہوں
تری ادائوںپہ ہر پل نثار ہوتا ہوں
نظر اٹھائوں جدھر تو دکھائی دے مجھ کو
میں ہم کلام بھی تو بار بار ہوتا ہوں
تمہاری یاد تس لّی کا ہاتھ رکھتی ہے
میں جب اکیلے کبھی بے قرار ہوتا ہوں
تری گلی میں کبھی جھانک نیم شب جاناں
میں شب کو کرتے ستارے شمار ہوتا ہوں
قطار ان سے ملاقات کی لگے جب بھی
فہیم میں بھی درونِ قطار ہوتا ہوں
برلن کی ہر دلعزیز شاعرہ اور اردو انجمن کی رکن عشرت معین سیماکے کلام میں ان اشعار کو خاص طور سے پسند کیا گیا:
بوئے گل نے مجھے دیوانہ کیا ہے اتنا
خود بخود چاک گریبان ہوا جاتا ہے
چہچہاتی ہوئی چڑیا نے کہا ہے آکر
گھر تیرا صورتِ زندان ہوا جاتا ہے
اور
خود فریبی کی کسی حد کو نہیں مانتی ہے
قامتِ شوق کسی قد کو نہیں مانتی ہے
بوئے گل ہو کہ ہوا ہو کہ محبت کہ وبا
اتنی سرکش ہے کہ سرحد کو نہیں مانتی ہے
کراچی ، پاکستان سے شریک ہونے والی مہمان شاعرہ حمیرا راحت کے ان اشعار کو خاص طور سے داد ملی:
مسلسل بولتا رہتا ہے کوئی
کوئی خاموش رہ کر بولتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
ہراک خواب کی تعبیر تھوڑی ہوتی ہے
محبتوں کی تقدیر تھوڑی ہوتی ہے
کبھی کبھی تو جدا بے سبب بھی ہوتے ہیں
صدا زمانے کی تقدیر تھوڑی ہوتی ہے
پلک پہ ٹھہرے ہوئے اشک سے کہا میں نے
ہر ایک درد کی تشہیر تھوڑی ہوتی ہے
سفر ہی کرتے ہیںاک دل سے دوسرے دل تک
زباں کے پائوں میں زنجیر تھوڑی ہوتی ہے
لکھنئو سے شریک مہمان شاعر ڈاکٹر ہارون رشید نے اپنے ان اشعار سے سماں باندھ دیا:
آخرش اب کوہِ پیمائی کہاں تک ہم کریں
اہتمامِ آبلہ پائی کہاں تک ہم کریں
زخم دل رسنے لگے ہیں صورتِ ناسور اب
ہائے ان زخمون کی تریائی کہاں تک ہم کریں
آپ کے جوشِ عقیدت نے تومسند سونپ دی
دوستو اب اس کی بھرپائی کہاں تک ہم کریں
گم ہوا سورج بھی اب تو رات کی آغوش میں
انتظار اب اور ہرجائی کہاں تک ہم کریں
زیست کے لمحات تو ہیںتیرے ممنونِ کرم
ہاں مگر ذکرِ مسیحائی کہاں تک ہم کریں
کئی دیگر بیرونی شعراء عین وقت پر ٹکنیکی مشکلات کی وجہ سے اپنا کلام نہیں پڑھ سکے۔لیکن ہم مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمارے اراکین کی ہمت افزائی کی ہے۔ اردو انجمن کے آن لائن مشاعرہ کا اختتام کرتے ہوئے آخر میں صدرِ مشاعرہ عارف نقوی نے ماحولیات کے موضوع پراپنی نظم ’ننھے کارل کا سوال‘ اورایک غزل پیش کی جس کے چند اشعار اس طرح تھے:
اردو میری زبان ہے کمتر نہیں کوئی
الفت کی ترجمان ہے ہمسر نہیں کوئی
یادِ خدا میں غرق ہوںطوفاں ہے ہمسفر
روکے گی مجھ کو موجِ سمندر نہیں کوئی
منجدھار میں ہے نائو تو پتوار ہاتھ میں
میرا خدا ہے ساتھ مجھے ڈر نہیں کوئی
دنیا کے اس زوال پہ رہتا ہوں میں اداس
پگھلا ہوا بشر ہوں میں پتھر نہیں کوئی
٭٭٭