9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
پروفیسر اسلم جمشید پوری
مہینوں ہونے کو آئے کرونا کے تیور ڈھیلے نہیں پڑے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ چین نے راحت کی سانس لی اور اس وہا پر کسی حد تک قابو پالیا ۔ وہاں زندگی سہمی سہمی سی چل پڑی ہے، لیکن متعدد ممالک میں یہ وبائی مرض اپنے ہاتھ پاؤں پھیلاتا ہی جا رہا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگنے لگتا ہے گویا بیماری کے اثرات اور تباہ کاریوں میں کبھی کوئی ملک آگے ہوتا ہے تو اگلے دن کوئی اور ملک بازی مار لے جاتا ہے۔ چین کے بعد سب سے زیادہ ایران متاثر ہوا۔ ایران کی تباہ کاریاں ابھی کم بھی نہیں ہوئی تھیں کہ اٹلی میں گراف بڑھنا شروع ہو گیا۔اُدھر امریکہ میں بیماری تیزی سے آگے بڑھی۔ اسبین ، انگلینڈ اور ایک بار پھر امریکہ۔ آج امریکہ میں اس بیماری کا زور سب سے زیادہ ہے۔ فرانس اور جرمنی بھی سلگ رہے ہیں۔ ہندوستان میں بیماری نے کئی ماہ قبل دستک دینی شروع کر دی تھی۔ خدا کا شکر ہے دیگر ممالک کے تناسب میں ہندوستان ابھی تقریباً محفوظ سا ہے۔
آج ہر طرف کرونا ، کرونا کا ورد ہو رہا ہے ۔گو کرونا، گو کرونا بھی چل رہا ہے۔ بیماریاں تو آتی جاتی رہتی ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ دنیا کی پہلی بڑی مہلک بیماری ہے ۔ اس سے قبل بھی پلیگ،طاعون چیچک، سوائن فلو، برڈ فلو جیسی مہلک بیماریاں دنیا سے لاکھوں افراد کو اپنے ساتھ لے جا چکی ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی بیماری برسوں رہی ہو۔ یہ وقتی اثرات ہوتے ہیں۔ کرونا بھی ایک دن ضرور رخصت ہو جائے گا۔لیکن یہ کرونا دوسرے مہلک بیماریوں سے ایک معاملے میں بالکل منفرد ہے کہ اس بیماری کو ہماری قربت ، ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اس بیماری نے ہمیں الگ الگ رہنا ، دوری بنانا، محفلوں ، عوامی مقامات ، سفر ، بھیڑ بھاڑ ، بازار، فلم ہال،منڈیاں، شادیاں، اجتماعی عبادتیں، مساجد، منادر، گرجا گھر ، گردوارے، آشرم الغرض ہر وہ جگہ جہاں لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوں، وہ سب آج سنسان ہیں۔ لوگ گھرروں میں قید ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ایسا لگنے لگا ہے کہ سب سے بڑی زندگی ہے۔ جان ہے تو جہان ہے پیارے، کے مصداق آج پہلا ضروری کام خود کا تحفظ ہو گیا ہے۔ زندگی چاہتے ہیں تو بھیڑ بھاڑ سے دور رہیں۔ قربت کے تمام راستے مسدورہیں۔ جدیدیت کا دور واپس آگیا ہے۔ معاثرے کے بجائے فرد کو سمجھئے۔ فرد کے اندر جھانکئے۔ بلکہ ہر شخص اپنے اندر جھانکے۔ اپنا محاسبہ کرے۔ خود سے خدا تک پہنچنے کا حسین موقع ۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ کرونا نے ہمارے منھ پر زور دار طمانچہ رسید کیا ہے کہ ہم سائنس اور کمپیوٹر کے سہارے نجانے کہاں کہاں پہنچ گئے تھے اوراس خالق کو بھول گئے جس نے یہ کائنات تخلیق کی۔ نادان انسان سائنس اور الیکڑانکس کے بل پر خدا بنے چلا تھا۔ دنیا کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ہتھیار بنا رہا تھا۔ انسانیت نام کو نہیں رہی۔فلسطین جلتا رہا، لوگ قہقہے لگاتے رہے۔ افریقہ کے متعدد ممالک غذائی اجناس کی قلّت کے شکار ہوتے رہے، دنیا کارو بار کرتی رہی۔ کہیں اقلیتوں پر ظلم و ستم ، کہیں کالوں پر کہیں تیسری دنیا کے لوگوں کو ذلّت ورسوائی سے نوازا گیا۔ ترقی یافتہ ممالک اپنا کاروبار بڑھاتے رہے۔ نوجوانوں میں ڈرگس، ٹک ٹاک ، زنا ، فحاشی کا رجحان بڑھتا رہا، ہم سوتے رہے۔ نربھیا جیسے ہزاروں معاملات ، ماب لنچنگ ، قانون کے نام پر الم غلم ، مذہب کے نام پر لامذبیت ، دکھاوا ہی دکھاوا۔ اپنی دادا گری دکھانے کو کیا افغانستان ، کیا ایران، سب کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے ۔ دنیا میں جنگ کا ماہول بنانا اور ہتھیاروں کی سپلائی کا کارو بار کا فروغ۔ کھانے کے نام پر حشرت الارض کو بھی نہ بخشنا۔ کیا حرام کیا حلال، زہریلی شراب ، موت والے ؤیڈیو گیمز، دوسرے مذاہب کی ناقدری، دوسروں پر زندگی تنگ کرنا جیسے نجانے کتنے افعال ہیں، جن میں ہم سب ملوث تھے اور یہ بھول گئے کہ ہمیں مرنا بھی ہے۔ کرونا تیرا شکریہ تم نے ہمیں تنہا کرکے، خوداحتسابی کاموقع دیا۔
یہ کرونا ہی لے جس نے ہمارے ماحول کی آلودگی کو ختم کیا ہے۔ فضا سے آلودگی اس قدر کم ہو گئی ہے کہ اب آپ کہیں بھی جائیں ، آب و ہوا صحت بخش ہی ملے گی۔ دہلی ، غازی آباد ، میرٹھ جیسے دنیا کے ہزاروں چھوٹے بڑے شہر کل تک آلودگی میں ریکارڈ پر ریکارڈ بنا رہے تھے۔ ہم اور ہماری حکومت پریشان تھی۔ اسے کیسے کم کیا جائے۔ کبھی آؤ، ایون فارمولہ اپنا یا جا رہا ہے ، کہیں چھڑکاؤ ، پیڑ پودے لگانے کی مہیم، پرالی جلانے پر روک، گرین پٹاخے، وغیرہ جیسے اقدام سے فضا کی آلودگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کرونا نے ہمارا کا م آسان کر دیا۔ اب کم از کم پانچ چھ ماہ تک آلودگی کا تناسب بہت کم رہے گا۔
غربت کیا ہوتی ہے؟ غربت کے شب و روز کیسے گذرتے ہیں؟ بیچارہ دو وقت کی روٹی کے لیے کتنی مشقتیں اُٹھاتا ہے۔امیروں کو یہ کہاں علم تھا۔ دوسروں کی مدد کرنا، لوگوں کوپیٹ بھر کھانا میسر کرانا، بھوکوں کی بھوک کو محسوس کرنا ، ہم ان سب سے کتنے دور تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ کرونا ہمیں حقوق العباد خصوصاً غریبوں ، یتیموں کی مدد کی طرف مائل کیا۔ آج سرکار سے لے کر ابن جی اوز اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ہردہ شخص مدد کررہا ہے جو اس لائق ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ سرکاری، ٹیم سرکاری ادارے اور ہم سب مل کر بھی ابھی ایک ایک غریب تک کھانا نہیں پہنچا پائے ہیں۔بہت بڑا اور مسلسل کام ہے۔ روز انہ محنت مزدوری کرنے والے ، فٹ پاتھ پر ریڑی ، ٹھیلہ لگانے والے، دکانوں میں کام کرنے والے، رکشہ ، اٹو رکشہ ، ٹیکسی چلانے والے ، قلی مزدور، شہروں اور گاؤں کو صاف رکھنے والے، گھروں میں کام کرنے والے، چھوٹے چھوٹے کسان، بڑے کسانوں کے کھیتوں میں کام کرنے والے ، جیسے کروڑوں لوگ ہیں، جو ہمارے منتظر ہیں۔ ان میں کچھ تو کھانے کے لیے ہاتھ تک پھیلانے کو مجبور ہو گئے ہیں ، لیکن ایک بڑی تعداد خوددار لوگوں کی ہے جو بھوکے رہ لیں گے لیکن ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ ایسے افراد کا خیال کریں۔
کرونا نے ہمیں ایک اور عمدہ سبق سکھایا ہے۔ شادی بیاہ میں سادگی۔ آج شادیاں جس راہ پر چل پڑی ہیں۔ اس سے ہم سب واقف ہیں۔ اب لاکھوں نہیں کرؤڑوں شادی میں خرچ کیے جا رہے ہیں۔ سینکڑوں افراد کا کھانا ضائع ہوتا ہے ۔ کھانوں میں انواع واقسام اور تعداد دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ جہیز کے نام پر سونے چاندی سے لے کر ہیرے اور ایک سے ایک قیمتی گاڑیاں ، فلیٹ، تک دیے جا رہے ہیں۔ غریب کے لیے شادی روز بہ روز مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ اسلام میں سادگی کا طریقہ رائج ہے۔ کرونا میں جوشادیاں ہوئی ہیں۔ تین چار افراد جاکر نکاح کر کے دلہن لے آئے ہیں۔ کاش یہ طریقہ کرونا کے بعد ہماری قوم میں عام ہو جائے۔
کرونا نے جو تنہائی ہمیں بخشی ہے اس کا ایک اور مثبت اثر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ہم عام دنوں سے زیادہ اپنے دوست احباب ، اقرباء ، رشتہ داروں کی خیر خیریت لے رہے ہیں۔ خیر سگالی ، انسان دوستی اور ہمدردی کا جذبہ مضبوط و مستحکم ہو رہا ہے۔ صرف خیریت ہی نہیں ضرورت اور حاجت مندکی مدد بھی جاری ہے۔
اس بیماری نے ہمیں جہاں نقصان عظیم پہنچایاہے ، وہیں ہمیں متحد بھی کیا ہے۔ پورے ملک کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ ہم سرکار کی بات کو توجہ سے سنتے اور عمل کرتے ہیں۔ لاک ڈاؤن جیسی صورتِ حال نے ہمیں کم خرچ کرنے اور کفایت شعاری سے کام لینا بھی سکھایا ہے۔ اپنی ضرورتوں کو مارنا یا کم سے کم کرنا اور دوسروں کی مدد کرنا ، صفائی ستھرائی تو جیسے ہمارا روز مرہ کا کام بن گیا ہے۔ یہی نہیں گھر میں قید ہو کر ہم لوگ ایسے متعدد کام بھی کر رہے ہیں۔ کل تک جنہیں کرنا، ہم اپنی توہین سمجھتے تھے۔
کرونا کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں ہم نے سماجی دوریاں اپنائی ہیں، وہیں ہم اپنے گھروالوں کے قریب ہوئے ہیں۔ شوہر ، بیوی ، بھائی بہن، ماں باپ ان رشتوں میں جو قربت میسر آئی ہے وہ خاندان کو ایک اکائی کی شکل میں استحکام بخشتی ہے۔
جہاں تک مذہبی امور کا معاملہ ہے ۔اس وقت عمرہ ، طواف ، زیارت ، جمہ ، پنچ وقتہ نماز، نمازِ جنازہ، شب برأت کی بیداری ، قبرستانوں میں حاضری، عرس وغیرہ سب متاثر ہوئے ہیں۔ وہ تمام اجتمائی عبادات جو کل تک انتہائی ضروری تصور کی جاتی تھیں، آج ملتوی کر دی گئی ہیں، لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ گھروں میں قید زیادہ تر مسلمان پنچ وقتہ نمازی ہو گئے ہیں۔ قرآن کی تلاوت ، تسبیحات ، ورد، نے نبدے کو خدا کے قریب ہونے کا موقع عنایت کیا ہے۔ لہٰذا گھروں میں رہیں اور کرونا کے قہر سے خوف زدہ ہونے کی بجائے اللہ سے لو لگائیں ، خدمت خلق کریں، خود محفوظ رہیں اور دوسروں کا بھی خیال رکھیں۔
8279907272, 9456259850
٭٭٭