9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
دنیا کو امن چاہئے مگر ممالک وسائل کی تقسیم اور بالادستی کیلئے ٹکرا رہے ہیں۔ کئی مقامات پر دہشت گردی اور حکومت کے خلاف عوامی تشدد بڑا مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔ جنگ کے امکانات کی وجہ سے جدید ہتھیاروں کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ نئے ہتھیار بنانے کی ضرورت کو ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی چاہ نے اور بڑھادیا ہے۔ جدید ہتھیاروں نے جنگ کے طریقوں کو بدلا ہے۔ ان میں سے ایک طریقہ بائیولوجیکل ہتھیاروں کا بھی ہے۔ کورونا وائرس کے تازہ واقع سے یہ ہتھیار موضوع گفتگو بنے ہوئے ہیں۔ کووڈ 19 نام کی جان لیوا بیماری پیدا کرنے والے کورونا وائرس کو بنانے اور پھیلانے کے لئے، امریکہ اور چین ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں۔ پوری دنیا اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا حقیقت میں یہ وائرس ووہان (چین) کی وائرولوجی تجربہ گاہ میں بنایا گیا یا پھر جیسا کہ چین کا الزام ہے کہ اسے امریکہ نے ان کے ملک میں پلانٹ کیا ہے؟
امریکی صدر ٹرمپ نے کورونا کو چینی وائرس کہتے ہوئے سیدھے طور پر چین کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ ان کے وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے بھی اسے “ووہان” وائرس کہا ان کا مقصد تھا کہ چین نے اس وائرس کو اپنی تجربہ گاہ میں امریکہ سے بدلہ لینے کیلئے پیدا کیا لیکن وہ اسے سنبھال کر نہیں رکھ سکا۔ ایسے میں بے قابو ہوکر چینی وائرس دنیا میں پھیل گیا۔ چین نے امریکہ کے اس نام کرن پر ناراضگی ظاہر کی۔ اس کے بعد چینی سوشل میڈیا میں خبریں آنے لگیں کہ اس وائرس کی پیداوار میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ دی واشنگٹن پوسٹ اور دی ڈیلی میل نے اپنی رپورٹ میں کورونا وائرس کو چین کے بائیلوجیکل وار پروگرام سے جوڑا ہے۔ فاکس نیوز نے بھی 1980 کی دہائی میں لکھی گئی کتاب کے حوالے سے کہا ہے کہ چین اپنی تجربہ گاہوں میں بائیلوجیکل ہتھیار بنا رہا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے مطابق کووڈ 19 امریکی بیماری ہے جو اکتوبر میں ووہان آئے امریکی فوجیوں سے پھیلی ہے۔ میڈیا نے خبر چلائی کہ اکتوبر 2019 میں ووہان میں ساتویں ملٹری گیمز ہوئے تھے۔ اس دوران امریکی فوجی چوری چھپے کورونا وائرس چین چھوڑ گئے۔ چین کے اس پروپیگنڈہ میں روس اور ایران بھی اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس بیان بازی کو امریکہ اور چین کی بالادستی کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ جبکہ اس معاملہ میں دنیا بھر کے سائنسداں اور تحقیق کار دو خیموں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مگر کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر رہا کہ خطرناک کووڈ 19 کا مرکز ووہان نہیں رہا۔ یہ واضح ہے کہ ووہان ہی اس کا ایپک سینٹر تھا۔ وہیں سے یہ وائرس اٹلی، اسپین، جاپان، ایران، امریکہ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں چینی لیبر کے ذریعہ پھیلا ہے۔
سینئر صحافی پشپ رنجن کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ووہان انسٹیوٹ آف وائرولوجی نے 2005 میں کورونا وائرس سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس کو ہارس شو بیٹ (ایک قسم کی چمگادڑ) نے پھیلایا ہے۔ 2015 میں اس کو بیٹ کورونا کا نام دیا گیا تھا۔ 2019 کے آخری مہینوں میں ووہان انسٹیوٹ نے نئے قسم کے کورونا وائرس کی پہچان کی تھی۔ اس کا نام سارس سی او وی ٹو یا کووڈ 19 رکھا تھا۔ اسٹیفن این جے کورس من نے اپنی کتاب وائرولوجی میں بتایا ہے کہ کورونا وائرس سارس خاندان کا ممبر ہے۔ اس سنگین بیماری کو 1965 میں آئی سولیٹ کیا جا چکا تھا۔ مگر 2002 میں چین کے کوانگ دونگ صوبہ میں سارس فیملی سے جڑے کورونا وائرس کی واپسی ہوئی۔ سارس کی ابتدائی علامات نمونیا اور کامن کولڈ کی ہوتی ہیں۔ 2002 میں سارس سے دنیا بھر میں 800 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ اس وقت سارس کورونا سے متاثر آٹھ ہزار لوگوں کا علاج کیا گیا۔ سارس سے بچاؤ کے لئے چین کی بائیو کیمیکل ایکسپرٹ میجر جنرل چن ویئی نے نیزل اسپرے تیار کیا تھا۔ جون 2003 تک اس بیماری پر قابو پا لیا گیا اور یہ کہانی وہیں رک گئی۔
2014 – 16 تک ایبولا جیسے وائرس کو ہرانے کیلئے میجر جنرل چن ویئی مغربی افریقہ میں تھیں۔ کووڈ 19 سے نبٹنے کیلئے وہ اپنی ٹیم کے ساتھ 2 جنوری کو چین پہنچ گئیں۔ 5 مارچ کو دی سائنٹسٹ میں شائع ایملی ماکووسکی کی رپورٹ میں یہ شک ظاہر کیا گیا ہے کہ ووہان انسٹیوٹ آف وائرولوجی لیب سے سارس۔ سی او وی ٹو وائرس کسی چوک سے باہر نکل گئے ہوں۔ اسی طرح کا شک فروری کے آخر میں نیویارک ٹائمز میں شائع سوشل سائنٹسٹ اسٹی وین موشر نے اپنے مضمون میں ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ووہان وائرولوجیکل لیب میں میجر جنرل چن ویئی کی دیکھ ریکھ میں بائیلوجیکل بم بنانے کی تیاری چل رہی ہو۔ صورتحال کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ انہیں فوراً بلایا گیا ہو۔ بائیلوجیکل ہتھیاروں پر تحقیق کرنے والے اسرائیل کے سابق فوجی خوفیا آفیسر کا دعویٰ ہے کہ کورونا وائرس چین کی ہی پی۔ 4 لیب میں تیار کیا گیا ہے۔ ماہرین نے شک ظاہر کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ چین نے جان بوجھ کر یہ وائرس چھوڑا ہو لیکن اس کے پھیلاؤ اور نقصان کا اندازہ نہ ہو۔
بہر حال اس پروپیگنڈہ وار کی حقیقت جو بھی ہو اور کورونا وائرس کو امریکہ یا چین جس نے بھی پلانٹ کیا یا چھوڑا ہو، اس نے پوری دنیا میں قہر برپا کر رکھا ہے۔ معیشت تباہ ہو رہی ہے، کاروبار معطل ہے اور نوکریاں جانے کا ڈر لاکھوں لوگوں پر منڈلا رہا ہے۔ اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملک میں لوٹ پاٹ شروع ہو چکی ہے۔ کووڈ 19 پر قابو پانے تک دنیا میں کتنا جانی و مالی نقصان ہوگا، اور کس ملک کی کیا حیثیت ہوگی یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ البتہ اس وبا کو صدی کے سب سے بڑے سانحہ کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ عالمی سطح پر کورونا سے بچاؤ کی ویکسین تیار کرنے کا کام تیزی سے چل رہا ہے۔ کووڈ 19 کی مدافعتی خوراک تیار کرنے کے دعویداروں میں امریکہ، روس، جرمنی کے ساتھ اب چین بھی شامل ہو گیا ہے۔ چین کورونا وائرس سے بچاؤ کا ٹیکہ تیار کرنے کے آخری مرحلے میں ہے۔ اس پروجیکٹ کو میجر جنرل چن ویئی دیکھ رہی ہیں۔
وائرس سے ہونے والے نقصان کا اندازہ بھلے ہی دنیا کو پہلی مرتبہ ہوا ہو، لیکن اس کی تباہی کا تجربہ کئی بار ہو چکا ہے۔ 1930- 1940 کے دور میں جاپان ۔ چین لڑائی کے دوران پلیگ والے بم چینی شہریوں پر گرائے گئے تھے۔ جس سے ایک لاکھ 80 ہزار چینی شہری مارے گئے تھے۔ امریکی فوج نے میری لینڈ کے کیمپ ڈیٹرک میں بائیلوجیکل وارفیئر لیبولیٹریز قائم کی تھیں جہاں خطرناک بائیلوجیکل ہتھیار تیار کئے گئے۔ کولڈ وار کے زمانہ 1970 – 1990 کے دوران سوویت روس نے بھی بے شمار بائیلوجیکل ہتھیار تیار کئے تھے۔ امریکہ کے مقابلہ روس میں وائروجی لیب آدھی ہیں۔ ان میں سے ایک لیب میں ویری سیلا زوسٹر وائرس تھے، جن سے چکن پاکس ہوتا ہے۔ 1977 میں کسی تجربہ کے دوران اس روسی لیب میں دھماکہ ہوا اور وائرس باہر نکل گئے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں تباہی مچ گئی۔ 1976 میں ساؤتھ سوڈان، ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو میں ایبولا اور دنیا میں پولیو پھیلنے کے پیچھے بھی ایسی ہی کہانی بتائی جاتی ہے۔ 10 اپریل 1972 کو لندن، ماسکو اور واشنگٹن میں دنیا کے 109 ممالک نے بائیلوجیکل اینڈ ٹاکسک کنونشن (بی ٹی ڈبلیو سی) پر دستخط کئے۔ تین سال بعد 26 مارچ 1975 کو بی ٹی ڈبلیو سی لاگو ہوا۔ باوجود اس کے اب بھی بائیلوجیکل ہتھیاروں کا خطرہ دنیا پر بنا ہوا ہے۔
وائرس کے پھیلنے یا پھیلانے کے پیچھے دوا کمپنیوں اور طاقتور ممالک کے کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جب بھی کوئی وبا پھیلتی ہے یا ہیلتھ ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ اس کا سیدھا فائدہ دوا کمپنیوں کو ہوتا ہے ان کے کاروبار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اکثر بڑی بیماریوں یا نئے امراض کی دوائیں مہیا کرانے والی کمپنیاں طاقتور ممالک سے تعلق رکھتی ہیں۔ دواؤں پر ان کی مونوپالی ہونے کی وجہ سے ہیلتھ ایمرجنسی میں ان کمپنیوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان ترقی پذیر ممالک کو ہوتا ہے۔ اس لئے بائیلوجیکل ہتھیار بنانے و رکھنے والے ممالک اور دوا کمپنیوں کے گٹھ جوڑ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خیر دنیا کو بائیلوجیکل ہتھیاروں کی دہشت اور نقصان سے بچانے کے لئے عالمی رہنماؤں کو مل کر کوشش کرنی ہوگی۔ کیوں کہ ہمارے پاس یہی زندگی اور اکیلی دنیا ہے جسے غیر محفوظ کرکے ہم محفوظ نہیں رہ سکتے۔