غزلیں

0
138

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

منیش شکلا

ساری وحشت سنبھال کر رکھیے
دشت سینے میں پال کر رکھیے
زہر آلود ہے فضا ساری
ہر قدم دیکھ بھال کر رکھیے
قید رہنے میں ہی بھلائی ہے
خود کو زنجیر ڈال کر رکھیے
دستب بستہ یہی گزارش ہے
یار خود کو سنبھال کر رکھیے
چاند تاروں پہ گفتگو ہوگی
آپ راتیں کھنگال کر رکھیے
کوئی صورت نکالنی ہوگی
خود کو سانچے میں ڈھال کر رکھیے
ابر اٹھنے لگے نگاہوں سے
خود کو اتنا ابال کر رکھیے
ہجر کی رات ختم ہونے تک
کوئی چہرہ وصال کر رکھیے
بات کا سلسلہ رہے جاری
کوئی پہلو نکال کر رکھیے
اک محبّت کا کام واجب ہے
اور کاموں کو ٹال کر رکھیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پوچھئے تو مزاج کیسا ہے
کل کا بیمار آج کیسا ہے
تم نے جس سے نجات چاہی تھی
وہ مرض لا علاج کیسا ہے
جو ترے دل میں جگمگاتا تھا
اب وہ روشن سراج کیسا ہے
ہم جسے توڑتے ہوئے ٹوٹے
اب وہ کہنا رواج کیسا ہے
ہم تو بے دخل ہو چکے کب کے
اب یہ ہم پر خراج کیسا ہے
ہم کہیں درج ہی نہیں اس میں
آپ کا اندراج کیسا ہے
ہم نے تجھ میں ملا دیا خود کو
دیکھ تو امتزاج کیسا ہے
پوچھتی ہے لحد کی خاک ‘منیش
آپکا تخت و تاج کیسا ہے

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here