عالمی بینک کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کئی دہائیوں سے غربت کے خلاف جنگ لڑنے کے بعد کورونا وائرس کی وجہ سے 40 سالوں میں بدترین معاشی کارکردگی کے کا مظاہرہ کر رہا ہے۔بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان اور دیگر چھوٹی ریاستیں جہاں ایک ارب 80 کروڑ آبادی ہے، کرہ ارض کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہیں جہاں اب تک نسبتا کم کورونا وائرس کے کیسسز سامنے آئے ہیں تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ وہ وائرس کا اگلا مرکز ثابت ہوسکتی ہیں۔
اس کے سنگین معاشی اثرات کے پہلے ہی بہت سارے ثبوت موجود ہیں، بڑے پیمانے پر لاک ڈاؤن بہت سی عام سرگرمیوں کو روک رہے ہیں، مغربی فیکٹری کے آرڈرز منسوخ ہوگئے ہیں اور بہت سے غریب ورکرز اچانک بے روزگار ہو گئے ہیں۔
عالمی بینک کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ پاکستان کی حکومت کے لیے فوری چیلینج یہ ہے کہ کورونا وائرس وبا کو پھیلنے سے روکنا، معاشی نقصانات کو کم کرنا اور غریبوں کی حفاظت کرنا ہے، درمیانی مدت سے طویل مدت میں، نجی سرممایہ کاری کو مستحکم بنانے کے لیے حکومت کو ضروری اصلاحات پر عملدرآمد کرنے پر توجہ دینی چاہیے‘۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’جنوبی ایشیا منفی اثرات کے حامل طوفان میں پھنس رہا ہے، سیاحت ختم ہوگئی ہے، سپلائی چین درہم برہم ہوگئی ہیں، گارمنٹس کی طلب میں کمی واقع ہوئی ہے اور صارفین اور سرمایہ کاروں کے جذبات بدل گئے ہیں‘۔
انہوں نے رواں سال کے لیے جنوبی ایشیا کی ترقی کی پیش گوئی کو کم کرکے 1.8-2.8 فیصد کردیا ہے جو اس سے قبل 6.3 فیصد تھی جس سے کم از کم آدھے سے زائد ممالک ’بڑے بحران‘ کی جانب جارہے ہیں۔
اس سے بدترین متاثر مالدیپ ہوگا جہاں سیاحت کے خاتمے کے نتیجے میں مجموعی گھریلو پیداوار کم از کم 13 فیصد تک سکڑ جائے گا جبکہ افغانستان زیادہ سے زیادہ 5.9 فیصد اور پاکستان 2.2 فیصد تک سکڑ سکتا ہے۔
بینک ننے پیش گوئی کی کہ خطے کی سب سے بڑی معیشت بھارت، جہاں مالی سال یکم اپریل سے شروع ہوا، اپنے موجودہ مالی سال میں صرف 1.5-2.8 فیصد کی ترقی دیکھے گا جو حال ہی میں ختم ہونے والے سال سے متوقع 4.8-5.0 فیصد تک کم ہوگا۔
اس رپورٹ میں یہ بھی خبردار کیا گیا ہے کہ وبائی مرض سے خطے میں عدم مساوات کو تقویت ملے گی، اور وبائی مرض سے غیر رسمی ورکرز کو نشانہ بنایا جائے گا جس کی وجہ سے صحت کی دیکھ بھال یا سماجی تحفظ تک محدود یا کوئی رسائی نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’غریب اس بحران سے زیادہ متاثر ہوں گے، پہلے وہ اس وائرس سے متاثر ہونے اور بیمار ہونے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں کیونکہ ان کے لیے معاشرتی دوری کا تصور مشکل ہوتا ہے اور انہیں صحت کی دیکھ بھال تک بھی محدود رسائی حاصل ہے، دوسرا روزگار کا نقصان اچانک اور بڑے پیمانے پر ہے۔
مثال کے طور پر بھارت میں دنیا کی سب سے بڑے لاک ڈاؤن نے سینکڑوں مہاجر مزدوروں کو اپنے گھر دیہاتوں کو واپس جانے پر مجبور کیا جن میں سے کئی پیدل گئے۔
عالمی بینک نے کہا کہ حکومتوں کو ’صحت کی ہنگامی صورتحال کے لیے اپنی عوام کو، خاص طور پر غریب اور کمزور طبقے کے لوگوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور تیزی سے معاشی بحالی کے لیے اب یہ مرحلہ طے کرنا ہوگا‘۔
عالمی بینک نے مہاجر مزدوروں کے لیے عارضی طور پر کام کرنے کے پروگرام، کاروبار اور عوام کے لیے قرض سے نجات اور ضروری سامان کی درآمد اور برآمد پر پابندیاں ختم کرنے کی تجویز دی۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک بار بحران ختم ہونے کے بعد حکومتوں کو فوری طور پر جدید پالیسیوں پر عمل کرنے اور معیشتوں کو فوری کھڑا کرنے کی ضرورت ہے‘۔