ًٓاب کورونا کی آڑ میں مسلمانوں کی لنچنگ

0
85

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

معصوم مرادآبادی

دہلی کے بوانہ علاقہ میںکورونا وائرس پھیلانے کے شبہ میںایک22 سالہ مسلم نوجوان محبوب علی کو انتہائی بربریت کے ساتھ پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ محبوب علی تبلیغی جماعت کے ایک پروگرام میں شرکت کرکے45روز بعد بھوپال سے ایک ٹرک میں بیٹھ کر دہلی واپس آیا تھا۔ اسے آزاد پور منڈی سے پکڑا گیا تھالیکن طبی جانچ میں پوری طرح صحت مند پائے جانے کے بعداسے چھوڑدیا گیا تھا۔ مگرجب وہ اپنے گاؤںپہنچا تو یہ افواہ پھیل گئی کہ محبوب دراصل یہاں کورونا پھیلانے کا منصوبہ لے کر آیا ہے۔ لہٰذا اسے مقامی باشندوں نے کھیتوں میں لے جاکربری طرح پیٹا ۔ بعد میں اسے اسپتال لے جایا گیا، جہاں اس کی موت واقع ہوگئی۔اس سے قبل ہماچل پردیش کے اونا ضلع میں دلشاد محمد نام کے ایک نوجوان نے اپنے سوشل بائیکاٹ سے عاجز آکر خودکشی کرلی تھی۔اس نوجوان کو تبلیغی جماعت کے دو لوگوں کے رابطے میں آنے کی وجہ سے کورونا کامشتبہ مریض سمجھا جارہا تھا۔ پولیس نے اسے قرنطینہ میں رکھا اور اس کی طبی جانچ بھی کرائی مگر اس میں کورونا کی کوئی علامت نہیں پائی گئی ۔لیکن اس کے باوجود گاؤں کے غیرمسلم باشندوں نے اس کا سوشل بائیکاٹ جاری رکھا جس کے نتیجے میں اس نے اپنے گھر کی چھت سے لٹک کر جان دے دی۔
محبوب علی اور دلشاد محمد کی کہانیاں ان دردناک کہانیوں میں شامل ہیںجو گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں اپنی تمام تر کرب اور اذیت کے ساتھ رقم کی گئی ہیں۔محبوب علی اور دلشاد محمد کی جانیں گاؤں میں کورونا پھیلانے کے جس خوف کے تحت لی گئی ہیں، وہ بلاوجہ نہیں ہے بلکہ تبلیغی جماعت اور عام مسلمانوں کے خلاف اس خوف کی پرورش میڈیانے بڑی منصوبہ بندی کے تحت کی ہے۔30 مارچ کو دہلی میںعالمی تبلیغی مرکز سے کورونا وائرس سے متاثرہ سینکڑوں لوگوں کی برآمدگی کے بعد میڈیا نے جو طوفان بدتمیزی برپا کیا تھا ،اس کی زد میں اب صرف تبلیغی جماعت سے وابستہ مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ اب ہر مسلمان کو’ کورونابم‘ کی شکل میں دیکھا جارہا ہے اور اسے ایک مصیبت سمجھ کر دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندوبستیوں میںمسلمان وینڈروں کے داخلے پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں اور ان کے معاشی بائیکاٹ کی اپیلیں ہورہی ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے بعض ٹیچروں نے تومسلمانوں کو گیس چیمبر میںڈالنے کی وکالت کی ہے اور مہاراشٹر نونرمان سینا کے بڑبولے سربراہ راج ٹھاکرے نے انھیں گولی مارنے کے ’احکامات‘ جاری کردئیے ہیں۔ کئی لوگوں نے راج ٹھاکرے کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مسلمانوں پر گولیاںبھی برسائی ہیں۔مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا ہی اثر ہے کہ شمال مغربی دہلی کے علی پور علاقہ میں اکثریتی فرقہ کے کچھ لوگوں نے ایک مسجد پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا ہے کہ جب تک مسجدوں کو نہیں توڑا جائے گا ،اس وقت تک کورونا ختم نہیں ہوگا۔غرض یہ کہ میڈیا کے ذریعہ فسطائی طاقتوں کی لگائی ہوئی مسلم دشمنی کی آگ پورے ملک میں سلگ رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مسلمان ہونا جرم ہوگیاہے۔یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے تاکہ لاک ڈاؤن کے بعد ملک میں غریبوں اور مزدوروں کی حالت زار سے آنکھیں پھیر ی جاسکیں۔
آپ ذرا یاد کیجئے کہ تبلیغی مرکز سے کورونا کے مریضوں کی برآمدگی سے قبل ملک میں کیا صورتحال تھی۔ لاکھوں یومیہ مزدور سڑکوں پر بے یارومددگار پھررہے تھے۔ بھوکے ،پیاسے، مجبور اور لاچار مزدوروں کی بے بسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ایک ہی رات میں دہلی کے آنند وہار بس اڈے پر اپنے اپنے گھروں تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو میں نے خود اپنی لاچار آنکھوں سے دیکھاتھا۔ بغیر کسی تیاری کے اچانک نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ایک خوفناک انسانی المیہ جنم لے رہا تھا۔یہ حکومت کی بہت بڑی ناکامی تھی اور میڈیا ان مناظر کو پوری شدت کے ساتھ دکھا رہا تھا کہ اچانک ٹی آر پی بڑھانے کے لئے اس کے ہاتھوں میں اس کا مرغوب موضوع دے دیا گیا ۔ یہ موضوع تھا تبلیغی مرکز میں ’چھپے‘ ہوئے لوگوں کاتھا۔ پھر کیا تھا میڈیا کو اپنی محبوب غذا مل چکی تھی اور اس نے کسی تاخیر کے بغیرمسلمانوں کو ہمیشہ کی طرح نرم چارہ سمجھ کر چبانا شروع کردیا۔ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو’ کورونا بم‘ ،’کوروناجہادی‘ ،’طالبانی اور دہشت گرد ‘جیسے ان تمام الزامات کے نرغے میں لے لیا گیا،جو مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ اسی گودی میڈیا نے یہی ہتھیار مسلمانوں کی ایک انتہائی پرامن تحریک کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کئے تھے اور اس کا سارا مواد اسے حکمراں طبقے نے فراہم کیا تھا۔ میڈیا کے مسلم دشمن پروپیگنڈے کا ہی نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کو ملک گیر سطح پر کورونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا اور ان کی گردنیں ناپنی شروع کردی گئیں۔میڈیانے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں کو مرچ مسالہ لگاکر اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لئے پوری بے شرمی کے ساتھ پروسنا شروع کردیا۔سنگھ پریوار کی پوری بریگیڈ اس معاملہ میں میڈیا کو خام مال فراہم کررہی تھی۔کئی بدنام زمانہ نیوز چینلوں نے سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی افواہوں کو خبروں کی شکل میں پروسنا شروع کردیا۔ تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے سراسر خانہ زاد قسم کی خبریں چینلوں پر چلائی گئیں۔ یہ خبریں اتنی شرانگیزتھیں کہ خود پولیس کو ان کی تردید کے لئے سامنے آنا پڑا۔ نوئیڈا، فیروزآباد، سہارنپور اور دیگر مقامات پر ایسی افواہیں پھیلائی گئیں کہ فرقہ وارانہ فساد کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ حالات اس حد تک بگڑ ے کہ خود بی جے پی صدر جے پی نڈا کواپنے پارٹی کیڈر کو یہ ہدایت دینی پڑی کہ وہ کورونا کے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیں۔مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے اور کرناٹک کے وزیر اعلیٰ یدی یروپانے بھی کورونا کی آڑ میں فرقہ واریت پھیلانے والوں کوسخت ایکشن کی وارننگ دی۔ اس معاملے میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کو بھی دخل دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ تنظیم کے ڈیزاسٹرپروگرام کے ڈائریکٹر مائیکل ریان نے تبلیغی مرکز کے تناظر میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ’’ اگر کوئی کورونا سے متاثر ہوجاتا ہے تو اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ کورونا کے مریضوں کی درجہ بندی ان کی نسل ، مذہب یا عقیدوں کی بنیاد پر نہیںکی جانی چاہئے۔‘‘ حالات کی ستم ظریفی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی حکومت کے شعبہ صحت کی طرف سے جو یومیہ پریس ریلیز جاری کی جارہی تھی اس میں روزانہ ہی تبلیغی جماعت سے وابستہ مریضوں کی علیحدہ خانے میں تفصیلات فراہم کی جارہی تھیں ۔ یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب اس پر خود دہلی اقلیتی کمیشن نے احتجاج درج کرایا۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر اس ملک میں ایسی کون سی طاقتیں ہیں جو ہرمعاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اس کی تباہ کاریوں کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑدیتی ہیں۔ہم اس کی مثال حالیہ واقعات سے دینا چاہیںگے ۔پچھلے دنوں جب پارلیمنٹ میں پاس کئے گئے انتہائی متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مسلم خواتین نے انتہائی منظم اور پرامن تحریک شروع کی اور شاہین باغ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا تو صاحبان اقتدار نے اس تحریک کو بدنام کرنے کے لئے اسے ملک دشمن تحریک قرار دینا شروع کردیا۔ اس میں شامل لوگوں کوغدار وطن قرار دے کر انھیں گولیاں مارنے کی اپیلیں کی جانے لگیں۔ ان کے رابطے وطن دشمنوں سے ہونے کا پروپیگنڈہ کیا جانے لگا۔ خود ملک کے وزیر داخلہ نے ای وی ایم کا کرنٹ شاہین باغ میں دوڑانے کی باتیں کہیں۔ بہرحال اس انتہائی فاسد پروپیگنڈے اور مسلم دشمنی کا نتیجہ شمال مشرقی دہلی کے مسلم کش فسادکی صورت میں برآمد ہوا اور پچاس سے زیادہ بے گناہوں کو بربریت کے ساتھ قتل کردیاگیا۔ ہزاروں غریب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے اجاڑدیا گیااور ان کا سب کچھ لوٹ لیا گیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے مسلمانوں مختلف عنوانات کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے۔اب سے پانچ برس پہلے گائے کشی کی آڑ میں شروع کی گئی موب لنچنگ اب کورونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کی جانیں لے رہی ہے۔یہ دراصل سنگھ پریوار کے اس ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد ملک کو ہندوراشٹر میں تبدیل کرنا ہے ۔ ایک ایسا ہندو راشٹر جس میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہوںگے۔ یہی وجہ ہے کہ فسطائی تنظیمیں ہر موقع پر مسلمانوں کوشکار کرنے اور انھیں خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ایک ایسے وقت میںبھی جب پوری دنیا کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے لڑنے میں مصروف ہے، ہمارے ملک میں موجود فسطائی عناصر مسلم دشمنی کا شرمناک کھیل، کھیل رہے ہیں۔ جب سے ان عناصر کا زرخریدنیوزچینلوں کے ساتھ اشتراک ہوا ہے تب سے صورت حال خاصی دھماکہ خیز ہو گئی ہے ۔ اس ناپاک گٹھ جوڑ کے نتیجے میں مسلمانوں کو نرم چارہ بنانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ لیکن اس مرتبہ مسلمانوں کی طرف سے ان چینلوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ان چینلوں کی کھلی مسلم دشمنی کا معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا ہیاور اس بات کی امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید یہ راہ راست پر آجائیںاور اپنی مسلم دشمن روش ترک کردیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسلم مخالف مہم کے خلاف مسلمان پوری ہمت وحوصلے کے ساتھ آگے بڑھیں اور فسطائیت وضمیر فروش میڈیا کے ناپاک گٹھ جوڑ کو ناکام بنادیں۔٭
masoom. [email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here