مرکزتبلیغی جماعت پرکرونا وائرس کاالزام

0
100

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔ 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

سید منصورآغا

تبلیغی جماعت کی فکراورطریقہ کار سے کوئی اتفاق کرے یہ اختلاف لیکن یہ توسوچابھی نہیں جاسکتا کہ یہ جماعت جان بوجھ کرعوام کو ہلاکت میں ڈالنے کاکوئی کام کرسکتی ہے۔ہاں سوچ میں جھول اوراس دورکے تقاضوں سے بے توجہی سے کچھ ہوجائے توالگ بات ہے۔ حال ہی میں کرونا وائرس کے تعلق سے جماعت کو جس طرح نشانہ بنایا گیا وہ یقینا شاطردماغ کی چال ہے، جس کو سمجھ کرحکمت کے ساتھ توڑ کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت کوبہانہ بناکرجو مہم چلائی جارہی ہے اس کی مار پرتوپوری امت ہے۔اثرات نظربھی آنے لگے ہیں۔ مسلم پھل اورسبزی فروشوں کو بعض علاقوں میںداخل ہونے سے روکا جارہا ہے۔کئی جگہ سے بدسلوکی کی اطلاعات آئی ہیں۔ کچھ لوگ سماجی بائی کاٹ کی باتیں بھی کررہے ہیں۔یہ حرکتیں کرنے والے بیشک چند لوگ ہیں، لیکن اکثریت بھی توخاموشی سے دیکھ رہی ہے۔
اسلئے یہ بات آپ کو خود سوچنی ہے کہ کیا ہمیں رویہ اختیارکرناچاہئے؟ کا م نہ تو دوسروں کو برا بھلا کہنے سے چلے گا اور نہ خود اپنی صفوں میں انتشار پھیلا نے سے۔ ہمارے اپنوں میں سے ہی کچھ لوگ ایسی باتیں کررہے ہیں جس سے مخالف طاقتوں کی مدد ہوگی۔جب کسی کو نشانہ بنایا جاتا ہے تواس کا مسلک، جماعت سے وابستگی اورعقیدہ نہیں دیکھا جاتا۔ آپ کی مسجد کی مینار، آپ کا نام اورحلیہ ہی سامنے ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب تبلیغی جماعت پر یہ حملے شروع ہوئے توملت کی اہم شخصیات، تنظیموں،جماعتوں ہوشمند افرادنے یہ دیکھے بغیرکہ ماضی میں ان کے ساتھ کیا معاملہ رہا ہے، ان کی حمایت میں آواز اٹھائی۔ اوریہ آواز اس لئے اٹھائی کہ حقیقت حال پر غورکرنے سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ 13تا 15مارچ نظام الدین مرکز میں جو اجتماع ہوا تھا اس کے انعقادمیں یا اس کے بعد منتظمین سے کوئی بے احتیاطی یا ضابطہ کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ہمیں جھوٹ کے مقابلے سچ کی تائید کا حکم ہمارے اللہ نے دیا ہے۔
یہ چندحقائق: چند حقائق ہیں جن سے یہ ظاہر ہورہا ہے تبلیغی جماعت کے جس اجتماع کونشانہ بنایا جارہا ہے اس میں جماعت کے ذمہ داروں اورشرکاء سے جان بوجھ کر یا انجانے میں کوئی لاپرواہی نہیں ہوئی ۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ ہر اجتماع کی بہت پہلے سے تیاری کی جاتی ہے۔دوردراز سے آنے والوں کو ہفتوں پہلے ٹکٹ کرالینے پڑتے ہیں۔اسی طرح غیرممالک سے آنے والے ہفتوں پہلے ایرٹکٹ اورویزا کراتے ہیں۔ یہ اجتماع 13مارچ کی صبح سے 15مارچ کی دوپہرتک ہوا۔اس وقت تک ہندستان میں کروناوائرس کا کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا گیا تھا۔ خود 13مارچ دہلی میں وزارت صحت کے ایک اعلا افسرمسٹر لوو اگروال نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’کرونا ہندستان کیلئے کوئی ایمرجنسی نہیں ہے۔‘انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کرونا سے متاثرممالک چین، مڈگاسکر، امریکا وغیرہ سے 1031افراد کو وطن واپس لایا جاچکا ہے۔ یہ بھی بتایاکہ ایران، برطانیہ اور اٹلی سے ہندستانی باشندوں کو وطن واپس لایا جارہا ہے۔اس وقت تک ملک میں مذہبی اورسماجی سرگرمیاں حسب معمول جاری تھیں۔درگاہوں، کلیسائوں اور مندروں میں عقیدت مند آرہے ۔ نہ کہیں بڑے اجتماعات سے خطرہ محسوس کیا جارہا تھا اورنہ فاصلہ رکھنے کی بات ہورہی تھی۔ ٹرینیں ،بسیں اورہوائی سروس جاری تھی۔ بیرونی ممالک سے بھی جہازآتے رہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے 13تا15مارچ جن تاریخوں میں یہ اجتما ع ہوا ہرگز کسی ایسے خطرے کی آہٹ نہیں تھی کہ اجتماع منسوخ کردیا جاتا۔ہم خود ان تاریخوں میں کلکتہ ایک تعلیمی کانفرنس میں حاضرتھے۔ 15کی بعد دوپہر معلوم ہوا کہ سیاحتی مراکز بند کردئے گئے ہیں۔ لیکن کانفرنس کے دوران کوئی خطرے کی گھنٹی نہیں بجی تھی۔غرض یہ کہ ان تاریخوں میں اندرون ملک تمام سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری تھیں۔ مثلاً سب دیکھ رہے تھے کہ پارلیمنٹ کابجٹ اجلاس جاری ہے۔ یہ اجلاس تو اس اجتماع کے ایک ہفتہ بعد بروزپیر 23مارچ تک جاری رہا۔اسی طرح اوربھی کئی بڑی سرکاری تقریبات ہوئیں۔ایسی حالات میں اگرنظام الدین مرکز میں اجتماع ہوا اورہنگامی صورت کے سامنے آنے سے ایک ہفتہ پہلے ختم ہوگیا تویہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ منتظمین سے کوئی خطاہوئی ۔ ان پرکروناکے پھیلاؤ کاالزام سراسرفرضی ہے۔ بیشک کرونا وائرس کی خبریں دسمبرسے آرہی تھیں۔ہندستان میں پہلا کیس 30جنوری کو کیرالہ میں ملاتھا۔ یہ ایک طالب علم تھا جو چین کے شہرووہان سے آیاتھا جہاں سے یہ مرض شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد اٹلی ، اسپین، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی وغیرہ کئی مغربی ممالک اس کی لپیٹ میں آگئے۔ مرض کی شدت دیکھتے ہوئے ان ممالک میں مقیم ہندستانی باشندے کی بڑی تعداد میں وطن واپسی کاسلسلہ شروع ہوا۔لیکن ہمارے یہاں پہلا کیس ملنے اوردنیا بھرمیں وبا پھیلنے کی خبروں کے درمیان ہی 24فروری کو صدرٹرمپ کا دورہ ہوا ۔ ان کے استقبال کیلئے احمدآباد میں سوالاکھ کا مجمع اکٹھا کیا گیا۔ ان کے ساتھ سینکڑوں افراد کا لاؤ لشکرتھا جو احمدآباد، آگرہ اوردہلی آیا۔ اس بھی یہی پیغام گیا کہ دنیا میں جوہورہا اس کا کوئی خطرہ ہمارے ملک پرنہیں۔
ہوائی اڈوں پراسکریننگ:ہندستانی ہوائی اڈوں پر اگرچہ12ممالک سے آنے والے مسافروں کی کورونا وائرس کیلئے اسکریننگ پہلے ہی شروع ہوگئی تھی، 3مارچ سے تمام آنے والے مسافروں کی اسکریننگ شروع ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 13تاریخ سے شروع ہونے والے اجتماع کیلئے جوتبلیغی کارکن باہر سے آئے تھے ان کی اسکریننگ ہوئی تھی۔ ان میں کوئی اس وائرس سے متاثرہوتا تو پکڑ میں آجاتا۔ اب اگرنہیں آیا تواس سے کیا سمجھا جائے؟ کیا ایرپورٹ پر انتظامات ناقص تھے؟ یا کچھ اور؟اس دوران غیرممالک سے آنے والے دیگرہزاروں افراد بغیر کسی ہٹوبچوکے عوام میں گھل مل رہے تھے۔
خطرے کی گھنٹی: ہمارے یہاں خطرے کی پہلی گھنٹی 21تاریخ کی رات آٹھ بجے بجی۔ جب محترم وزیراعظم نے 14گھنٹے کے ’جنتا کرفیو‘ کا اعلان کیا۔اسی کے ساتھ کچھ ٹرینوں اورہوائی سروسز کی منسوخی شروع ہوئی۔ اس وقت تک کسی کو یہ گمان نہیںتھا کہ حالات ایسے سنگین ہوچکے ہیں۔ اس کا پتہ تو اصلاً اجتماع ختم ہونے کے چھ دن بعد 22کو ’لاک ڈاؤن‘ کے اعلان سے ہوا۔ ٹرانسپورٹ کے سارے راستے بند کردئے گئے اورہدایت دی گئی ’جو جہاں ہے، وہ وہیں رہے۔‘ تبلیغی مرکز کے مہمانوں نے اس ہدایت پر سختی سے عمل کیا۔ اورزراساہوش آتے ہی تھانے میں اورایس ڈی ایم کو درخواست دی کہ بیرونی مہمانوں کو واپس بھیجنے کیلئے بسوں کواجازت نامے دئے جائیں۔ اس کے ساتھ بسوں کی فہرست بھی منسلک کی گئی۔ لیکن اجازت نہیں ملی۔ اب میڈیا نے جو شورمچایا کہ یہ لوگ ’چھپے ہوئے تھے‘، سراسر بدمعاشی ہے۔ کوئی چھپا ہوا نہیں تھا۔ سب سامنے تھے اورتھانے کو اس کی تحریری اطلاع دی جاچکی تھی۔ ایسے حالات میں کوئی بھی اپنے مہمانوں کو سڑکوں پر نہیں دھکیل سکتا تھا۔
چوک کہا ں ہوئی؟:مختصربات یہ ہے کہ کرونا کے خطرے کو بروقت سمجھنے میںاوراس کی روک تھام کا مناسب بندوبست کرنے میںچوک سرکار سے ہوئی۔ لاک ڈاؤن ہوتے ہی ملک بھر میں لاکھوں افراد بے روزگارہوگئے۔ ہزارہا مزدورسڑکوں پرآگئے اور سینکڑوں میل کا سفرکرکے مرتے بھرتے گھر پہنچے۔ 25۔30کی راستے میں موت ہوگئی۔ بہت سوں پر بھوک اورموت کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اگرہندو، مسلم سکھ صاحب خیرافراد اورادارے سامنے نہ آتے توان غریبوں کا حشر بہت خراب ہوتا۔ حکومت کی طرف سے راحت کا نام نہیں ۔ حد یہ ہے کہ اسپتالوںمیں ڈاکٹروں کیلئے ضروری دستانوںاورحفاظتی لباس کی کمی ہے۔ پچاس سے زیادہ میڈیکل اسٹاف ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے خود کرونا سے متاثرہوگئے ہیں۔ کچھ نے استعفا بھی دیا ہے۔جگہ جگہ ڈاکٹروں پر حملے ہورہے ہیں۔اسپتالوں میں ٹسٹ کرنے کا ضروری سامان (کٹس ) نہیں۔ اورخطرہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ ہم ٹرمپ کا سواگت کرنے میں مصروف رہے اورعوام کی ضروریات سے توجہ ہٹ گئی۔ ان سب خامیوں کو چھپانے کیلئے تبلیغی جماعت کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔نہ اخباربچے ہیں، نہ ٹی وی۔سوشل میڈیا کی دنیا ہی نرالی ہے۔شکر ہے اب پولیس ان کی تردید کررہی ہے۔یوپی میں پریاگ راج میں نوجوان کے قتل کا معاملہ تبلیغ والوں سے جوڑنے، فیروزآباد میں کرونا متاثرین کو جماعت سے جوڑنے ، پولیس پر تھوکنے، پھلوں پر تھوک لگانے اورسہارنپور کے رام پور منہاران سے ایسی ہی جھوٹی خبروں کی تردید پولیس نے کی ہے۔ حد یہ ہے کہ اے این آئی بھی غلط خبریں دے رہا ہے۔ مہاراشٹرمیں چاربڑے مکارصحافیوں کے خلاف کیس ہوئے ہیں۔ کچھ کو مان ہانی (ازالہ عرفی) کے نوٹس دئے گیے ہیں۔ لیکن جوتیرنکل گیا، جو زہر دماغوں میں جم گیاوہ کیسے نکلے گا؟
ہم کیا کریں؟:اب ایک بات ہمیں بھی سمجھ لینی چاہئے۔ کرونا وائرس ایک مہلک وبائی حملہ ہے جس کا کوئی علاج نہیں، سوائے اس کے کہ بچاؤ کی تدبیریں اختیارکی جائیں اورجہاں ضرورت ہو ٹسٹ کرانے سے ڈرانہیں جائے۔ طبی عملہ آئے توان کے ساتھ تعاون کریں۔ ٹسٹ کرائیں۔ بہت سی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ پہلے بھی بچوں کو ٹیکوں کے بارے میں افواہیں پھیلائی گئی تھیں۔ بیشک موت زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اللہ نے ہمیں عقل اورشعور دیا ہے ،ہم خواہ مخواہ آگ میں کود نہیں پڑتے۔ یہ مرض بھی ایسا ہی ہے۔ہرشخص حضرت ابراہیم ؑنہ بنے۔حکومت کے بھروسے مت رہئے اوراپنی حفاظت خودکیجئے۔ بلا ضرورت گھروں سے مت نکلئے۔ نکلیں تو چہرے کو ڈھک کرنکلیں۔ ہاتھوں کو اچھی طرح دھوتے رہیں اورسوباتوں کی ایک بات یہ کہ ہردس پندرہ منٹ پراورخاص طور سے جب کسی ضرورت سے گھر سے باہر نکلیں ،چند گھونٹ تازہ یا گرم پانی یا چائے پیتے رہئے۔ اگرکھانسی ہوتوپانی کا بھپارہ دن میں چارچھ مرتبہ لیجئے۔ گھر میں ہی کچھ ہلکی پھلکی اکسرسائز کرتے رہئے تاکہ توانائی بنی رہے۔خاص طورسے صبح وشام کھلی ہوا میں بیٹھ کرناک سے گہراسانس لیجئے۔ جتنی دیررو ک سکیںروکئے اورمنھ سے باہرنکالئے۔ اگرسانس روکتے ہی خشک کھانسی ہو توہرآدھا گھنٹہ پر بھپارہ لیجئے اوراسپتال جاکرٹسٹ کرائیں۔ اللہ سب کو سکھی رکھے۔ یاد رکھئے مومن کی زندگی اسلئے نہیں ہوتی کہ اس کو نادانی اورحماقت سے خطرے میں ڈالاجائے۔ اللہ کی امانت ہے۔ پوچھا جائے گااس کی حفاظت کیوں نہیں کی۔٭٭٭
8077982485

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here