موجودہ حالات اور جونؔ کی شاعری

0
672

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

ڈاکٹر نیہا اقبال

موجودہ صورتِ حال سے دنیا بھر کے انسان واقف بھی ہیں اور متاثر بھی ۔ ایک وائرس نے تمام دنیا کو جامد کر دیا ہے۔لوگ گھروں میں قید ہوگئے ہیں ، بچے بچے کی زبان پر ـــ’’کورونا‘‘ کا نام ہے۔ہر شخص خوف و ہراس میں مبتلا ہے۔ترقی یافتہ ممالک بھی اس وبا کے سامنے بے بس نظرآرہے ہیں۔ہندوستان میں بھی اب اس کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔اس وائرس کو ختم کرنے کے لیے ابھی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی ہے البتہ چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے اس سے حفاظت ممکن ہے۔اسی لیے ملک عزیز کے وزیر اعظم کی جانب سے یہ تجویزپیش کی گئی کہ پورے ملک میں لاک ڈائون کر دیا جائے ، تاکہ اس وبائی مرض کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔یہ ایک خوش آئند قدم تھا، دنیا بھر میں بھارت کے اس قدم کو سراہا جارہاہے ۔
فی الحال اس لاک ڈائون نے ہمارے لٹریچر اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بھی یکسر تبدیل کردیا ہے ۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسا لٹریچر پیش کیا جارہا ہے ، جو بالکل حسب حال معلوم ہوتا ہے۔کورونا سے متعلق بہت سا مواد آجکل اخبارات و سوشل میڈیاکے ذریعہ پڑھنے کو مل رہا ہے ۔ایک طبقہ کورونا سے حفاظت کے لیے قرآن و حدیث کی روشنی میں دعائیں پیش کرکے ان کے مطالعہ کی طرف راغب ہونے کی دعوت دے رہا ہے۔ تو ایک طبقہ ایسا ہے جو تاریخ کے اوراق پلٹ کر اس طرح کی وبائوں یا حادثات کے بعد دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کررہا ہے نیز اس سے متعلق مغربی مفکرین کے اقتباسات پوسٹ کررہا ہے۔ انھیں میں چند ایسے بھی ہیں جوکورونا کے خوف کو کم کرنے کے لیے مختلف شعراء کے کلام کوبڑے غور سے پڑھ رہے ہیںاور اسی کا نتیجہ ہے ایسے بہت سے اشعار جن کے مضامین وبائی مرض کورونا سے قریب نظر آتے ہیں، میڈیا اور سوشل میڈیا میں گردش کررہے ہیں۔اخبارات میں اس طرح کے اشعار کے حوالے سے مضامین شائع ہورہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شعراء نے اپنے اپنے زمانے میں ، اپنے مشاہدہ کی بنا پر ایسے ایسے اشعار اور اتنے خوبصورت پیرائے میںکہے ہیں کہ زمانے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ان اشعار کا رنگ بھی خود بہ خود بدلتارہتا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اگر تلاش کیا جائے تو موجودہ حالات کے عین مطابق بیشتر شعرا کے یہاں اشعار مل جائے گے ،لیکن اس وقت میرے مطالعہ میں جون ایلیا کی شاعری ہے جو بروقت موجودہ صورتِ حال کی عکاسی کرتی ہے۔کورونا پر جون کا یہ شعر سوشل میڈیا پر بڑا مشہور ہو رہا ہے:
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
اس شعر کے علاوہ بھی جون کے یہاں ایسے بہت سے اشعار ہیں جو حالاتِ حاضرہ کی سچی عکاسی کرتے ہیں۔وبائی مرض کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد کی کیفیت کو جونؔ کے ان اشعار میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ ؎
ایسا ہے کہ سینے میں سلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے
سانس کیا ہیں کہ میرے سینے میں
ہرنفس چل رہا ہے اِک آرا
کوورنا کی وجہ اسپتال میں زیر علاج شخص کی کیفیت پر مبنی نظم ’’بے اثبات‘‘ اور چند اشعار دیکھیں ؎:
کسی کو فرصت کہ مجھ سے بحث کرے
اور ثابت کرے کہ میرا وجود
زندگی کے لیے ضروری ہے۔
اے وحشتو! مجھے اسی وادی میں لے چلو
یہ کون لوگ ہیں یہ کہاں آ گیا ہوں میں
غم گساروں کو مجھ سے مطلب کیا
جو بھی ہونا تھا ہو چکا اب کیا
کورونا وائرس کے چلتے پورے ملک میں وزیر اعظم کی جانب سے لاک ڈائون کا اعلان کردیا گیا اور اس لاک ڈائون کی وجہ سے گائوں ، قصبات اور شہروں کی خاموشی کا عجیب منظر دیکھنے کو مل رہا ہے۔جونؔ کے مندرجہ ذیل اشعار اس پس منظر کے کتنے قریب نظر آتے ہیں ؎
سرکار! اب جنوں کی ہے سرکار کچھ سنا
ہیں بند سارے شہر کے بازار کچھ سنا
ہو کا عالم ہے یہاں نالہ گروں کے ہوتے
شہر خاموش ہے شوریدہ سروں کے ہوتے
انہیں حالات کی عکاسی کرتی جون کی یہ نظم بھی ملاحظہ ہو ؎
سکوتِ بیکراں میں سہ پہر کا چوک ویراں ہے
دکانیں بند ہیں
سارے دریچے بے تنفّس ہیں
درودیوار کہتے ہیں
یہاں سے ایک سیلِ شعلہ ہائے تند گزرا ہے
پھر اس کے بعد کوئی بھی نہیں آیا
خموشی کوچۂ و بَرزن میں فریاد ہے
کوئی تو گزر جائے
کوئی آوازِ پا آئے
شمارِ لمحہ و ساعت سے بیگانہ فضا میں
اِک صدائے پُرفشانی کوند اُٹھتی ہے
کوئی طائر فضا میں سایہ آسا تیر جاتا ہے
سگانِ زرد کا اِک غول اِک کوچے سے نکلا ہے
وہ تیزی سے گزر جاتے ہیں
وہ اور ان کے سایے بھی
سکوتِ بیکراں میں سہ پہر کا چوک ویراں ہے
۲۲؍مارچ کو وزیر اعظم نے عوامی کرفیو کا اعلان کیااور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں رہیں، ایک بھی شخص سڑک پر نہ نکلے۔عوامی کرفیو اور جونؔ کا یہ شعر ؎
آج کی شام ہے عجیب، کوئی نہیں مرے قریب
آج سب اپنے گھر رہے ، آج سب اپنے گھر گئے
عوامی کرفیو والے دن شام پانچ بجے تالی اور تھالی بجانے کے بعد وزیر اعظم نے ملک کے عوام سے ۵؍اپریل کو رات ۹؍بجے ۹؍منٹ کے لیے لائٹس بند کرکے دِیا جلانے کو کہا۔لوگوں نے نہ صرف وزیر اعظم کی اس اپیل کے احترام میں دیے جائے بلکہ ایسی آتش بازی کی ، جیسے لگ رہا ہوں کورونا کوئی وباء نہیں بلکہ ایک جشن ہے۔ ہم بھول گئے ہمارے ملک کےکتنے لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں اور کتنے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ جونؔ نے کہا تھا:
روشنی بھر گئی نگاہوں میں
ہوگئے خواب بے اماں جاناں
پورے ملک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ اپنے اپنے گھروں میں بند ہیںاور اس بندش سے ان کے اندر پیدا ہونے والی کیفیت کو جونؔ کے ان اشعار میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ؎
اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
نصیب ہو کوئی دم وہ معاش حال کہ ہم
حسابِ سلسلۂ صبح و شام کے نہ رہیں
ان دنوں حال شہر کا ہے عجیب
لوگ مارے ہوئے ہیں دہشت کے
لاک ڈائون کی وجہ سے لوگوں کا آپس میں ملاقات کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے اور اب واحد موبائل کے ذریعہ ہی رابطہ باقی ہے ۔ ایسے حالات میںجونؔ کا شکوہ ملاحظہ ہو ؎
کس سے اظہار مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے
اور جب ان کا محبوب ایسے ماحول میں ملنے کی ضد کرتا ہے ،تو کہتے ہیں ؎
سہولت سے گزر جائو مری جاں
کہیں جینے کے خاطر مر رہو
ہم لوگ سماج کا ایک حصہ ہیں اور اپنی سوشل لائف کو ہم نے اپنے اوپر اس درحہ حاوی کرلیا ہے کہ آج جب پورے ملک میں لاک ڈائون ہے تو ہمارے گھروں میں رکنا انتہائی مشکل ہورہا ہے۔ بیٹھے بیٹھے شدید بوریت کا احساس ہونے لگتا ہے اور ایسے میں انسان کو کچھ بھی اچھا لگتا ۔ اسی بے زاری کو جون نے اس طرح بیان کیا:
کل دوپہر عجیب سی اک بیدلی رہی
بس تتلیاں جلا کے بجھاتا رہا ہوں میں
خود میں ہی گزر کے تھک گیا ہوں
میں کام نہ کر کے تھک گیا ہوں
وقت ہے اور کوئی کام نہیں
بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا
لاک ڈائون کی خلاف ورزی کے مسلسل واقعات سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ خاص کر نوجوان طبقہ اس پر عمل نہیں کررہا ہے۔ شہروں میں شاید صورت حال بہتر ہو لیکن قصبات و دیہات میں مسلسل لاک ڈائون کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ایسے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے جون نے کہا تھا ؎
اخلاق نہ برتیں گے مداوا نہ کریں گے
اب ہم بھی کسی شخص کی پروا نہ کریں گے
سوچا ہے کہ اب کار مسیحا نہ کریں گے
وہ خود بھی تھوکے گا تو پروا نہ کریں گے
پورے ملک میں لاک ڈائون کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں۔ جو جہاں ہیں وہ وہیں پھنس گئے ہیں لیکن اس کے باوجود جن علاقوں میں کورونا کے پھیلنے کی خبر آتی ہے ان میں سے بہت سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس نقل مکانی پر جون ؔ نے کہا تھا ؎
ہے بکھرنے کو یہ محفلِ رنگ و بو، تم کہاں جائو گے ہم کہاں جائیں گے
ہر طرف ہورہی ہے یہی گفتگو، تم کہاں جاوگے ہم کہاں جائیں گے
ان مشکل حالات میں ایک طبقہ وہ ہے جو اس وبائی مرض میں گرفتار افراد کی خدمت میں دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ ہماری زندگیوں کو بچانے کے لیے دن رات خوف کے سائے میںاپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔ خود اپنے گھر جانے سے ڈرتے ہیں ۔ ایسے بے مثال خدمت گزاروںکے خیالات و جذبات کی عکاسی کرتے جونؔ کے یہ اشعار ؎
ہم کو مٹا نہ دیںیہ زمانے کی مشکلیں
لیکن یہ مشکلیں تو ہزاروں کے ساتھ ہیں
تھا اب تک معرکہ باہر کا در پیش
ابھی تو گھر بھی جانا ہے یہاں سے
ٓٓآئسولیشن میں ایک ایک دن گزارنا کس اذیت کا بایث ہے اور ان لوگوں کی اس دوران کیا کیفیت ہوتی ہوگی اس کی بہترین عکاسی جون نے اس طرح کی ہے ؎
آج کا دن بھی عیش سے گزرا
سر سے پا تک بدن سلامت
آج لاک ڈائون کے سبب گھروں میں رہنے کی نہ صرف ہدایت دی جا رہی ہے بلکہ اس کے خلاف جانے والوں پر ایف آئی آردرج کی جا رہی ہے ،ساتھ ہی ذمہ دار طبقوں کی جانب سے مسلسل بیان کیا جا رہا ہے کہ بلا وجہ گھروں سے باہر نہ نکلے۔ اس بات کو جون اپنی شاعری کے ذریعہ اس طرح سمجھاتے ہیں ؎
ہیں عجب سایے سے گامزن کہ فضائے شہر ہے پُر فتن
نہیں شام یہ رہ ورسم کی ، جو ہے گھر میں اپنے وہ گھر رہے
جدا جدا رہو یارو، جو عافیت ہے عزیز
کہ اختلاط کے جلسے بکھر گئے ہیں یہاں
عصر حاضر میں ہندوستان میں مسلمانون کی حالت بڑی تشویش ناک ہے ۔حکومتِ ہند مسلمانوں سے بد گمان ہے اور اس کے کسی حد تک ذمہ دار ہم بھی ہیں لیکن گذشتہ۶؍برس ہندوستانی مسلمانوں نے بڑے صبر کے ساتھ گزارے، اب ان کے اس صبر کو ان کی کمزوری سمجھا جانے لگا ہے۔ جب کبھی کسی محاذ پر حکومت کو ناکامی ہاتھ لگتی نظر آتی ہے تو وہ بڑی چالاکی سے اس کا رُخ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کی طرف موڑ دیتی ہے اور پھر اس سلسلہ میں نہ حکومت اور ملک کا میڈیا کچھ سننے کو تیار ہوتا ہے۔ایسے ہی حالات کے لیے جونؔ نے یہ اشعار کہے تھے ؎
حرم و دیر کی سیاست ہے
اور سب فیصلے ہیں نفرت کے
حاکمِ وقت ہوا ، حاکمِ فطرت شاید
ان دنوں شہر میں، نافذ ہے خزاں کا موسم
کھڑے ہو کے ہم وقت کے حاشیے پر
فساداتِ دیر و حرم دیکھتے ہیں
اور مسلمان ہے کہ صرف اپنی صفائیاں ہی دیتا رہ جاتا ہے:
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
یہ تو جون کے اشعار کا ایک مختصر جائزہ تھا جو موجودہ حالات کے عین مطابق نظر آیا اور پیش کردیا گیا۔ جوؔن کے کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت وسیع تھا۔ نثر اور نظم میں انھیں یکساں قدرت حاصل تھی۔ ان کی تخلیقات کا آج کے پس منظر میں اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو ایسے بہت سے اشعار بطور نمونہ پیش کیے جاسکتے ہیں۔جونؔ کے انتقال کو ۱۸؍ برس ہوگئے ہیںلیکن جب یہ اشعار کہے گئے تھے تب کسی اور پس منظر میں کہے گئے ہوں گے لیکن یہی بڑے شاعر کی پہچان ہوتی ہے کہ اس کا کام ، اس کی فکر اور اس کا مشاہدہ زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اپنا بھی رنگ بدلتا رہتا ہے اور اس کے اشعار ہر زمانے کی عکاسی کرتے رہتے ہیں۔
٭٭٭
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here