وبا

0
62

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

محمد آصف عزیز

سب کچھ بند کر دیا گیا ، تمام تعلیمی اداروں میں قفل چڑھا دئے گئے ہیں ، عبادت گاہیں سیل کر دئے گئے ہیں، بازاروں میں سنّاٹے پسرے ہوئے ہیں، سڑکیں خالی ہوگئیں، گلی، محلے، چوک چوراہوں میں کسی بھی انسان کو نکلنے کی اجازت نہیں ہے ، سب کے سب گھروں میں بند کر دئیے گئے ، ماحول بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے، دنیا کے تمام ممالک پریشان ہیں، سب کے سب فیل ہوچکے ہیں، تمام سائنسی مشینری جواب دے چکے ہیں، پوری دنیا کے ماہرین طب نے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں….
آخر اس کا علاج کیا ہے؟
ہم لوگوں کو کیسے بچائیں؟
ہم مات نہیں کھا سکتے، اپنے شہر کے لوگوں کو یوں مرتا، تڑپتا، تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتے ہیں، ہمیں یہ جنگ جیتنی ہے…،
لیکن کیسے؟
کون سا حربہ اپنائیں؟
ڈاکٹر طفیل مسلسل اپنے خیالوں میں گم ان سب سوالوں میں الجھا ہوا تھا، جواب کچھ بھی نہیں تھا، اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، لگاتار مریضوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی تھی، اس کے پاس ایسے انتظامات بھی نہیں تھے کہ ایک ساتھ ہزاروں مریضوں کاعلاج کیا جا سکے، مریضوں کی دن بہ دن بڑھتی تعداد نے اسے بے بس کر دیا تھا، لیکن وہ ہارا نہیں تھا، پریشان ضرور تھا لیکن اس پریشانی کو اپنے مضبوط اردے پر حاوی ہونے نہیں دیا تھا ، وہ دن رات مریضوں کی خدمت میں لگا رہتا تھا..،
ابھی کچھ ہفتہ پہلے اس کی شادی ہوئی تھی، اس کی نئی نویلی دلہن شادیہ، وہ بھی ایک ڈاکٹر تھی، اپنے شوہر کے ساتھ اس مصیبت کی گھڑی میں وہ بھی دن رات محنت کر رہی تھی،
ڈاکٹر طفیل شہر کے نامچین ڈاکٹروں میں سے ایک ہے،اس نازک گھڑی میں جب کہ شہر کی آدھی آبادی اس وبا کی چپیٹ میں آ چکی ہے ، لوگوں میں خوف و دہشت کا ماحول ہے، اس وقت ڈاکٹر طفیل جیسے لوگوں کا عوام کو سخت ضرورت تھی، شادی کے بعد کی ساری پلانگ اس نے کینسل کروا لی تھی ، اپنا سارا وقت اپنے شہر کے لوگوں کے نام کردیا تھا..،
دونوں میاں بیوی مریضوں کے ساتھ شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آتے، انکا حوصلہ بڑھاتے، انہیں سمجھا تے..،
ڈرنے کی ضرورت بالکل بھی نہیں ہے، خدا کی ذات پہ بھروسہ رکھیں،شفا دینے والا وہی ہے، سب کچھ اسی کے ہاتھ میں ہے، گھبرائیں نہیں، افواہیں جو پھیلی ہیں اس پہ دھیان نہ دیں، جو ہدایت بتائی جا رہی ہے اس پہ سختی سے عمل کریں،،
جیسے جیسے دن بیت رہے تھے شہر کی حالات بد سے بدتر ہوتے جا ر ہے تھے، لوگ اب ایک دوسرے سے خوف کھانے لگے تھے، مارے دہشت کے ماں اپنے بچے سے بیٹا اپنے باپ سے شوہر اپنی بیوی سے علاحدگی اختیار کر چکے تھے، یہ وائرس ایساتھا کہ بھیڑ دیکھ کر حملہ آور ہوتا ، لوگوں کے رابطے میں آنے سے یہ جوان اور طاقت ور ہو جاتا ، لوگوں کے الگ تھلگ رہنے سے اس کی سانسیں کمزور اور کچھ تھم سی جاتی تھیں ، یہ اتنا شاطر اور چالاک ہے کہ جس شخص کہ جسم میں حلول کرتا اسے پتا بھی نہیں چلنے دیتا، وہ شخص عام لوگوں کی طرح سفر کرتا، دوسروں سے ملتا، غرض کہ وہ شخص ہر وہ کام کر تا جو ایک نارمل انسان کرتا ہے، نہ اس شخص کو علم ہوتا کہ میرے اندر وہ واریس داخل ہو چکا ہے، اسے ساتھ لئیے میں شہر شہر گھوم رہا ہوں، لوگوں سے مل رہا ہوں، لوگوں کو موت کا تحفہ دے رہا ہوں، نہ ہی اس دوسرے شخص کو معلوم چلتا جو اس سے مل رہا ہوتا ہے، اس سے کیا معلوم جس شخص سے میں مل رہا ہوں وہ میرے لئے موت کا پروانہ لے کے آیا ہے…،
پھر کچھ ہفتوں بعد یہ وایرس اپنا اثر دکھانا شروع کرتا ہے، اپنا پاؤں اس شخص کے اندر پھیلانے لگتا ہے، تب جاکے اسے معلوم چلتا ہے کہ وہ اس خطرناک وایرس کے چپیٹ میں آ چکا ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، تب تک وہ کتنے لوگوں کو یہ وایرس دے چکا ہوتا ہے، سرکار نے اسی کڑی کو توڑنے کے لئے تمام شہر کو لاک ڈاؤن کر دیا ہے، تمام لوگوں کو گھر میں قید کردیا ہے، سرکار کی منشا صاف ہے لوگ جتنے ایک دوسرے کے رابطے سے دور رہیں گے وایرس اتنا ہی کمزور ہوگا، جب یہ کمزور ہوگا تب اس کو مات دینا آسان ہو جائے گا، جو لوگ اس وایرس کی چنگل میں پھنس چکے ہیں اسے بچایا جاسکے گا اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب اس وایرس کا پھن کچل دیا جائے، اس کا پھن کچلنے کا ایک ہی راستہ ہے لوگوں کو قید کرنا…،
اسپتال میں افراتفری کا ماحول تھا، اب موتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، اس وبا نے کئی مریضوں کی جان لے چکا تھا، ابھی کچھ کھنٹہ پہلے ایک مریض کی موت ہوئی تھی، کئی اور مریضوں کی حالت بالکل نازک بنی ہوئی ہے، گھبراہٹ اور ناامیدی ڈاکٹروں کے چہروں پر صاف دکھائی دے رہی تھی..،
شازیہ ایک نظر بیڈ پہ پڑے مریضوں پہ ڈالی اور مایوس لہجے میں بولی..،
مجھے نہیں لگتا کہ ہم کسی کو بچا پائیں گے، ہم یہ جنگ ہار چکے ہیں..
تم ایسا کیسے بول سکتی ہو، ہم ہار نہیں سکتے، یہ وائرس ہمیں مات نہیں دے سکتا..
ڈاکٹر طفیل تلملا کر جواب دیا،
ڈاکٹر صاحب سمجھنے کی کوشش کیجئے،
ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے..،
آخر ہم لڑ کس سے رہے ہیں؟
یہ آسمانی بلا ہے،
خدا نے یہ وبا ہم پہ نازل کیا ہے ، آخر یہ وبا ہم پہ نازل کیوں کی گئی ؟
کبھی آپ نے سوچا ہے؟
دنیا کے بڑے سےبڑے طاقتور بادشاہ آج کیوں بے بس ہیں؟
آج انکی شہنشاہیت کہاں گئی؟
کیوں نہیں اس وایرس کے نام سزائے موت کا فرمان جاری کر دیتے..،
کیوں نہیں اس کے سینوں کو گولیوں سے بھون دیتے..، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں، انکی اتنی طاقت ہی نہیں ہے..،
بس وہ بے گناہوں کا کمزورں کا معصوموں کا غریبوں کا ہی خون بہا سکتے ہیں، نہ جانے ان لوگوں نے کتنے بچوں کو یتیم کیا ہے،
کتنے ماؤں کی گود اجاڑی ہے،
لا تعداد عورتوں کی عزتوں کو تار تار کیا ہے، غریبوں، یتیموں، معصوموں کی بستیاں جلائی ہیں..،
اس وقت سب بھول گئے تھے کہ کوئی اس کا حساب بھی لے گا، اپنی طاقت کے نشے میں چور تھے، ہم سب گناہ گار ہیں، ہم نے ان معصوموں کی آہ نہ سنی، ہم بھی اپنی دنیا میں مست تھے..،
خدا کا قہر آج ہم سب پہ برس پڑا ہے..، ہم یہ جنگ کبھی نہیں جیت سکتے، خدا سب سے بڑا طاقتور ہے..،
تم سہی کہتی ہو شادیہ..،
ہم نہیں جیت سکتے، ہم نے اس دھرتی کو بے گناہوں کے خون سے لال کر دیا ہے، چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو بھی مار ڈالا ہے، معزوروں، ضعیفوں کو بم سے اڑایا گیا ہے، تم سچ کہتی ہو، یہ وبا غزاب الٰہی ہے، اس سے ہم نہیں جیت سکتے ہیں،
بھلا خدا سے کوئی کیسے جیت سکتا ہے؟
دونوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ چکی تھیں ، شہر کے لوگوں کو اس وبا سے بچانے کا بس ایک ہی راستہ تھا.. دونوں کے ہاتھ دعاؤں کے لئے بلند ہو گئےتھے…،
بادم، بڑکاگاؤں ،ہزاریباغ،جھارکھنڈ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here