9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عبدالحی
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس زمین کے آغاز سے ہی اس پر مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے آئے ہیں۔ اختلافات اپنی جگہ لیکن سارے مذاہب ہمیں سچائی، امن اور یک جہتی کی ہی تعلیم دیتے ہیں۔ دنیا میں باہمی رواداری اور امن و آشتی کے قیام کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے مذاہب کا مطالعہ کیا جائے اور ان کی مذہبی صحیفوں کو پڑھا جائے اور ان کی اچھی باتوں کو عام کیا جائے۔ اسی ضرورت کے تحت اہل علم حضرات نے مختلف صحیفوں کے ترجمے مختلف زبانوں میں کیے ہیں۔ قرآن مجید کا ترجمہ بھی دنیا کی سینکڑوں زبانوں میں ہو چکا ہے اسی طرح اردو زبان میں بھی مختلف مذہبی صحیفوں کے تراجم مل جاتے ہیں۔ اردو میں بودھ، جین، عیسائی، ہندو ، سکھ اور دیگر مذہبی صحیفوں کے تراجم دستیاب ہیں۔ڈاکٹر محمد عزیر نے اس سلسلے میں پہلا اہم کام انجام دیا تھا۔ ان کی کتاب’’ اسلام کے علاوہ مذاہب کی ترویج میںا ردو کا حصہ‘‘ کافی اہمیت کی حامل ہے جو انجمن ترقی اردو علی گڑھ سے 1955 میں شائع ہوئی تھی۔
وہ لکھتے ہیں:
سکھوں نے اپنی مذہبی کتابیں جو اردو میں ترجمہ یا تالیف کی ہیں ان کی زبان بھی وہی ہے جسے آج صرف مسلمانوں کی زبان کہا جاتا ہے۔
عزیر صاحب نے سری آدی گرنتھ، عطر روحانی (ترجمہ جپ جی صاحب) جپ پرمارتھ، پوتھی پنچگرنتھی، جیسی کتابوں کا ذکر کیا ہے جو اردومیں ترجمہ کی گئی تھیں۔ پروفیسر ناشر نقوی لکھتے ہیں
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سکھ مذہب اور سکھوں کی مقدس کتابوںمیں اردو زبان وادب کی آمیزش نمایاں نظر آتی ہے۔ ہندوستانی مذاہب میں سکھوں کی مذہبی تصنیفات و تالیفات نے اردو کے فروغ میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ (مضمون: اردو دنیا، ص 18 ،جولائی 2013)
جب میں نے اپنے موضوع’’ اردو اور سکھ مذہب‘‘ سے متعلق کتابوں کی تلاش شروع کی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سکھوں کی مذہبی کتابوں کے کئی ترجمے موجود ہیں۔ اردو اور پنجابی کا بڑا گہرا رشتہ رہا ہے اور اردو ادب میں پنجاب کے ادیبوں شاعروں کی نمایاں خدمات رہی ہیں۔
امام مرتضی نقوی اپنی کتاب اردو ادب میں سکھوں کا حصہ میں لکھتے ہیں:
’’گرونانک جی کے کلام کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت اردو اپنی ارتقائی منزلیں طے کررہی تھی۔ عوام اور درویش اس وقت جو زبان استعمال کرتے تھے وہی آگے چل کراردو کہلائی، جس میں فاسی اور عربی کے الفاظ جابجا موجود ہیں۔ (کوہ نور پریس، دہلی 1983، ص 18)
اس کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر سیفی پریمی لکھتے ہیں:
اردو کی داغ بیل کے سلسلہ میں گرونانک کی نظموں کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ ان کی نظم جپ جی، حاضرنامہ اور سہ حرفی وغیرہ میں عربی، فارسی کے الفاظ ملتے ہیں اور مصرعو ںکے ٹکڑے اردو کے ہیں۔
میں نے گروگرنتھ صاحب، جپ جی صاحب اور دسم گرنتھ کے اردو ترجموں کا مطالعہ کیا اور ان کی روشنی میں یہ مقالہ تحریر کیا ہے۔
شریمان دسم گوروگوبند سنگھ جی مہاراج کا دسم گرنتھ صاحب ہے جسے پنڈت سکھ لال اپدیشک بھارت دھرم مہا منڈل نے گورمکھی زبان سے اردو زبان میںترجمہ و تحریر کیا۔ مطبوعہ نیوپرنٹنگ ورکس لاہور، یہ سمت بکرمی 1971 بمطابق 1915 میں شائع ہوا۔ پنڈت سکھ لال اس کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
’’ایک مدت سے اردو داں پبلک کی یہ خواہش تھی کہ جس طرح شری ا ٓدی گرنتھ چھپ کر اردو زبان میں شائع ہوچکا ہے اور اس کے مطالعے سے ہزاروں لاکھوں اردو جاننے والے لوگوں نے گورو شکشا کا مرم جان کر فائدہ اٹھایا ہے۔ اسی طرح شریمان گورو صاحب گورو گوبند سنگھ جی کے دسم گرنتھ کو بھی اردو زبان میںشائع کیا جائے تاکہ جو لوگ صرف اردو زبان ہی جانتے ہیں وہ بھی اس کے مضامین سے آگاہ ہوکر لابھ اٹھا سکیں۔‘‘ (دیباچہ دسم گرنتھ)
جب اِس 898 صفحات پر مشتمل دسم گرنتھ کا سرسری جائزہ لیا تو یہ اندازہ ہوا کہ اِس میں اردو، فارسی، ہندی، سنسکرت اور پنجابی سبھی زبانوں کے الفاظ ہیں۔ جہاں تک ترجمے کی بات ہے تو اس میں زیادہ تر الفاظ پنجابی کے ہی ہیں اور صرف رسم الخط اردو استعمال کیا گیا ہے۔ دسم گرنتھ کاا ٓغاز’’ جاپ سری مکھ واک پاتساہی 10 چھپے چھند تو پرساد‘‘ سے ہوتا ہے۔ چکر چین اوبرن جات ازپا نہیںجمہی۔ اِس چھند میں چکرچین کا ترجمہ لاسلکی دیا گیا ہے۔ اسی طرح اگلے چھند میں اچل مورت،کھیتے، نمستیوم اکالے، نمستم ابھوتے جیسے الفاظ کے ترجمے ہیں۔ اچل مورت کا ترجمہ چلنے پھرنے سے رہت۔ کھیتے کا ترجمہ تیرے سارے نام کون کہہ سکتا ہے۔ نمستیوم اکالے کا ترجمہ پرماتما کو نمسکار اور نمستم ابھوتے کا ترجمہ آب، خاک، باد، آتش سے رہت۔ یہاں رہت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اردو کے ساتھ ہندی الفاظ کا سہارا لیا گیا ہے اور سنسکرت و دیگر زبانوں کے الفاظ کو ویسے ہی رہنے دیا گیا ہے۔ میں نے دسم گرنتھ کے 20,25 صفحات پڑھے لیکن میری سمجھ میں زیادہ کچھ نہیں آیا کیونکہ تحریر اردو ہے لیکن الفاظ سارے اجنبی۔۔۔
سکھوں کی ایک اور مذہبی کتاب جپ جی صاحب کا ترجمہ ذکر الہٰی کے عنوان سے ہوا ہے۔ مجھے جپ جی صاحب کے کئی اردو ترجمے ملے۔خواجہ دل نواز نے منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ محمد اجمل خاں کا ترجمہ یونین پرنٹنگ پریس دہلی سے 1961میں شائع ہوا تھا۔ بابا گرونانک شاہ کے لیے انھوں نے رحمۃ اللہ علیہ استعمال کیا ہے۔ انھوں نے اقتباس کے طور پر رسالہ منادی کا حوالہ دیا ہے کہ ان کے ساتھ اتنے اسلامی واقعات وابستہ ہیں کہ مشائخ ان کو عارف باللہ کہنے پر مجبور ہیں۔
اِس کتاب میں بابا نانک کے حالات زندگی بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ترجمے کا آغاز تسبیح مبارک سے ہوا ہے۔ تسبیح مبارک کے بعد ذکر مبارک ہے۔‘‘ ازل سے حق موجود ہے بلکہ ازل سے پہلے وہ حق موجود تھا۔ اب بھی حق موجود ہے۔ آئندہ بھی حق ہی رہے گا۔ اے نانک۔ اس کے بعد پہلا زینہ: رضائے حق ہے۔ نانک کی تعلیمات اس طرح ہیں: جسم کو لاکھ غسل دو (مقدس دریاؤں میں) لیکن دل میں پاکی نہ آئے گی چپ کا روزہ رکھنے سے کیا فائدہ جبکہ دل بری باتیں سوچتا رہتا ہے۔ جپ صاحب کے اس ترجمے میںمترجم محمد اجمل خاں نے شیخ سعدی، ابوسعید ابوالخیر وغیرہ کے اشعار بھی دیے گئے ہیں۔ کہیں کہیں گرنتھ صاحب میں دی گئی تعلیمات کو شعر کے قالب میںڈھالا گیا ہے۔ 62 صفحات پر مشتمل اس مجموعے کوپڑھ کر اندازہ ہوا کہ نانک کی تعلیمات انسانی زندگی کو بہتر اور خوشگوار بنانے میں یقینا معاون و مددگار ہوسکتی ہیں۔ یہ ترجمہ کل سینتیس زینوں پر مشتمل ہے۔ہر ذینے کے تحت 5-7 یا 10 فقرے دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر دو چار اقوال یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔
سچائی کی منزل میں خدا خود رہتا ہے۔ مسرت دریافتکی وہ منزل ہے جہاں نہایت حسین و جمیل چیزیں بنتی ہیں۔ اگر میری لاکھ زبانیں بلکہ بیس لاکھ زبانیں ہوجائیں تو ہر زبان سے خداکا نام بیس بیس لاکھ دفعہ لوں۔ خدا کے حکم سے عزت و ذلت اسی سے دکھ سکھ ملتا ہے۔
جپ جی صاحب کا ایک دوسرا ترجمہ عرفی پبلی کیشنز سے 1996 میں چھپا تھا۔ شکیل الرحمن کا یہ ترجمہ زیادہ بہتر اس لیے ہے کیونکہ اس میںتعلیمات نانک کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ 172 صفحات پر مشتمل ہے۔ شکیل الرحمن اس ترجمے کا مقصد یوں بیان کرتے ہیں:
’’میرا خیال ہے کہ جپ جی صاحب کے لفظوں میں جو طلسم ہے اس سے خود الفاظ سیال ہوکر بہنے لگتے ہیں جو ان لفظوں کے جادو سے ذرا بھی آشنا ہوتا ہے ان کے دلوں تک پہنچنے لگتے ہیں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے جپ جی صاحب کا ترجمہ نہیں کیا ہے یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ میں نے ہر پوڑی کا وہ مفہوم لکھ دیا ہے کہ جو میرے تاثر سے ابھرا ہے۔ ہر فرد اس طلسمی آہنگ کو اپنے طور پر محسوس کرے گا اور اپنے تاثر سے لطف اندوز ہوگا اور آگہی حاصل کرے گا۔ (جپ جی صاحب، شکیل الرحمن)
اس ترجمے کے آغاز میں شکیل الرحمن صاحب کا مقدمہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے کچھ پوڑیوں کا ترجمہ اور تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جپ جی صاحب بابا نانک کی وجدانی بصیرت کی ایک بہت بڑی تخلیق ہے۔ جب میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ جپ جی صاحب میں بہت سارے اردو کے الفاظ پہلے سے موجود تھے بس ذرا تلفظ کی وجہ سے ان الفاظ کو ہندی سمجھ لیا گیا ہے مثلاً حکم رضا (حکم رجائی) قدرت (قددرتے) کاغذ ، قلم، سلامت شاہ سلطان، حرا م خور (ہرام کھور) قاضی (قادیا) بخشش (بخسیس)درگاہ (درگہ)نظر( ندر)، مشقت (مسکت) منشور(منسور)نشاں (نیساں) وغیرہ جب کہ گرہستی، صفت، منت، کرم، صلاح، فرمان جیسے الفاظ اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں۔ اس ترجمے کی ایک بات یہ ہے کہ اس میں ہندی اور گورمکھی رسم الخط میں بھی پوڑیوں کو لکھ دیا گیا ہے اور اردو ترجمہ کے ساتھ اصل پوڑیاں بھی اردو زبان میں ہیں۔ یہ ترجمہ پریم گوپال متل کے زیراہتمام شائع ہوا تھا۔
دہلی سکھ گرودوارہ پر بندھک کمیٹی کے زیراہتمام شائع ہوا منظوم ترجمہ بھی میں نے دیکھا جو خان بہادر خواجہ د ل محمد ایم اے کا کیا ہوا ہے۔سردار بہادر جودھاسنگھ پرنسپل خالصہ کالج امرتسر اور گیانی سردار نرائن سنگھ نے اس ترجمے پر نظر ثانی بھی کی ہے۔ 1945 میں شائع ہوئے اس ترجمے میں تمام پوڑیوں کو نظم کی صورت میں ڈھال دیا گیا ہے۔خواجہ دل محمد نے 1943, 1944 میں گیتا کا ترجمہ بھی دل کی گیتا کے عنوان سے کیا تھا۔جپ جی صاحب کے اس ترجمے میں اردو میں منظوم ترجمہ کے ساتھ ساتھ اصل پوڑیاں بھی اردو رسم الخط میں ہیں۔ مثال کے طور پر پوڑی 12 کے ترجمے یہاں دیے جاتے ہیں:
پنجابی: منے کی گت کہی نہ جائے ۔جیکو کہے پچھتائے
کاگد قلم نہ لکھن ہار۔ منے بہہ کرن ویچار
اردو: من سے جو مانے گا رب کو اس کی حالت کون بتائے
جو بھی کہنا چاہے اس کو، وہ بھی آخر کو پچھتائے
کیسا کاغذ اور قلم سے، کون سا لکھنے والا ہے
من سے جو مانے گا رب کو، تعریفوں سے بالا ہے
(بحوالہ ص 27)
اس ترجمے میں کل پوڑیاں 38 بتائی گئی ہیں۔ جب کہ اجمل خاں کے ترجمے میںیہ تعداد 37ہے ۔پوڑیوںکو انھوں نے ذینہ کہا ہے۔حالانکہ اسے منزل بھی کہا جاسکتا تھا۔
بھاشا وبھاگ کے ذریعہ 1971 میںچھپا ’’مجسمہ آدمیت و سرچشمہ حقیقت بابا نانک حیات و جپ جی‘‘ ڈاکٹر کالا سنگھ بیدی ایم اے،پی ایچ ڈی کے ذریعہ کیا گیا ترجمہ ہے۔ا س ترجمے کے دیباچے میں کالا سنگھ بیدی نے خواجہ احمد فاروقی صدر شعبہ اردو کا ذکر کیا ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے یہ کام ممکن ہوسکا۔ اِس ترجمے میں گورونانک کے حالات زندگی کافی تفصیل سے دئیے گئے ہیں۔ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ 352 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے تقریباً 200 صفحات حیات نانک پر مبنی ہیں۔ کتاب کے آغازمیں اقبال کا یہ شعر درج ہے:
مذہب نہیں سکھاتاآپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
اس ترجمے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں غالب، اقبال، حسرت، برق دہلوی، درد، ذوق وغیرہ کے اردو اشعار بھی دئیے گئے ہیں۔ جپ جی صاحب کے ترجمے سے قبل اس کی مکمل تلخیص پیش کی گئی ہے۔
اس میں پوڑی 12 کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
جو سالک دل سے اللہ پر اعتقاد لائے گا اس کی حالت کو کوئی نہیں بتا سکتا۔ جو اس کے متعلق کہنا چاہے آخر وہ پچھتائے گا۔ کیوں کہ اس کی اصلیت ناقابل بیان ہوتی ہے۔
اس طرح قلم اور کاغذ بیکار ہیں لکھنے والا بھی عاجز ہے جو من سے رب کو مانتا ہے وہ تعریفوں سے بالاتر ہے۔ یہاں شکیل الرحمن کے منظوم ترجمے کا ذکر دوبارہ اس لیے ضروری ہے کہ انھوں نے ’’جو بھی کہنا چاہے اس کو وہ بھی آخر کو پچھتائے‘‘ ہی لکھا ہے جبکہ یہ حصہ یہاں زاید ہے’’ خداکی اصلیت ناقابل بیان ہوتی ہے‘‘۔
فاضل مترجم نے آخر کے ضمیمے کے طور پر عربی و فارسی الفاظ کی نشاندہی بھی ہے ساتھ ہی جپ جی صاحب کا لسانیاتی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
جپ جی میں سنسکرت، پراکرت، اپ بھرنش، ہندی، کھڑی بولی ہندی، اردو، فارسی اور عربی زبانوں کا گلدستہ نظر آتا ہے۔ عربی و فارسی الفاظ بھی کثرت سے مستعمل ہیں جو علما اردو کو ہریانوی یا دہلوی زبان سے ماخوذ بتاتے ہیں،وہ دیکھیں کہ ماجھی بولی جپ جی صاحب میں جہاں بھی نمایاں ہے وہ اردو اور ہندی کے زیادہ قریب ہے۔ خاص کر ابتدائی اردو اور پنجابی ایک ہی زمانے سے ماخوذ دکھائی دیتی ہیں۔ جپ جی صاحب میں جگہ جگہ اردو کی علامات نمایاں ہیں (بحوالہ ص 331)
اس ترجمے میںفرہنگ کے تحت تمام پنجابی الفاظ کے اردو ترجمے بھی دیے گئے ہیں۔
ایک اور ترجمہ مجھے ترجمہ جپ جی صاحب الموسوم بہ حقائق ا لمعانی المعروف بہ ہادی عرفان شائع شدہ 1969 بھی ملا جس کے مولف سردار گنڈا سنگھ مشرقی ہیں (جوداغ کے شاگرد تھے) نا رائن سنگھ گرنتھی باغ میموریل سوسائٹی روپڑ سے شائع شدہ اِس ترجمے کا پیش لفظ اس وقت کے وزیرداخلہ گیانی ذیل سنگھ نے تحریر کیا ہے۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ گیانی ذیل سنگھ 14 جنوری 1980 سے 22 جون 1982 تک وزیرداخلہ رہے جبکہ کتاب کے پیش لفظ میں جو تاریخ ہے وہ 31 جنوری 1969 ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 1980-1982 کے دوران اس کا دوسرا یا تیسرا ایڈیشن چھپا ہوگا۔ سردار گنڈا سنگھ نے 1883 میں جنم ساکھی گورونانک دیوجی مہاراج اردو میں لکھی اور 1892 میں جپ جی صاحب کا ترجمہ کیا تھا۔ اس ترجمے کو سردار گنڈا سنگھ کے فرزند صوبیدار نارائن سنگھ نے شائع کیا ہے۔ گنڈا سنگھ مشرقی کا یہ ترجمہ خالص اردو زبان میں ہے۔ انھوں نے پہلے پوڑی کا ترجمہ کیا ہے پھر اس کی تشریح کی ہے۔ پوڑی 12 کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:
جس کو میں نے دل میں مانا ہے اس کی قدرت بیان نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی اس کو بیان کرے آخر پشیمانی ہو
شرح: یعنی خدا وند پاک کی قدرت اور ماہیت بیان نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ لاانتہا ہے اور بیان کرنے والا محدود (ص 81)
اِس ترجمے میں بھی پوڑیوں کی تعداد 38 ہے۔ آخر میں شلوک بھی دئیے گئے ہیں۔
جپ جی صاحب کا ایک منظوم ترجمہ ڈاکٹر موہن سنگھ دیو انہ کا بھی ہے جس کا مقدمہ پروفیسر عباس شوشری نامور فاضل ایران نے تحریر کیا ہے۔یہ منظوم ترجمہ نغمہ دیدار الٰہی کے نام سے 1942 میں چھپا تھا۔ یہ ترجمہ سردار جودھ سنگھ سیٹھی مالک گوردوارہ صاحب گائیڈ نزدپتلی گھرامرت سر سے شائع ہوا ہے۔
پوڑی 12 کاہی منظوم ترجمہ آپ دیکھیں اور ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کی اردو زبان پر دسترس کا اندازہ لگائیں۔
اس کے کیا کہنے جو کرلے امررب خوش خوش قبول
مدحت اہل رضا کی سعی ہے سعی فضول
پہلے لاتعداد کاغذ اور قلم ہو ئیں بہم
پھر قصائد عارف ِکامل کے تم کرنا رقم
ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کا یہ منظوم ترجمہ مجھے دیگر منظوم ترجموں سے قدرے بہتر لگا۔ دواشعار مزید ملاحظہ کرلیں
جس نے مانا حکم حق خوش خوش وہ غم سے بچ گیا۔ وار عزرائیل کا اس پر نہ ہرگز چل سکا
نام اس ذاتِ منزہ کا کرشمہ ساز ہے، ذکر حق کرتا ہے جو وہ آشنائے راز ہے (12)
احمدی مسلک کے ایک محقق نے بابا نانک کومسلمان ولی اللہ ثابت کیا ہے۔ وہ گرنتھ صاحب کے حوالے سییہ کہتے ہیں کہ نانک نے روزہ اور نماز کا حکم بھی دیا تھا۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ نانک کو مسلمان ولی بتانے کی وجہ یہ تھی کہ گروگرنتھ صاحب اور دسم گرنتھ صاحب کی تعلیمات سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی مسیح موعود ہے۔نعوذ بااللہ
گروگرنتھ صاحب کا شاہ مکھی ترجمہ گربچن سنگھ بیدی اوٹاو، کناڈا نے کیا ہے جو 6066 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں گرمکھی اور شاہ مکھی تحریر ہے۔ شاہ مکھی کے کچھ حصے پڑھ کر مفہوم سمجھ میں آجاتا ہے:
منے کی گت کہی نہ جائے جسے کو کہے پیچھے پچھتائے
کاگد قلم نہ لکھن ہار، منے کا بہہ کرن ویچار
اپنا نام نرنجن ہوئے۔ جے کو من جانے من کوئے
یہ ترجمہ پہلے پہل ڈاکٹر کل بیر ایس ٹھنڈ نے کیا تھا جس پر بعد میں گربچن سنگھ بیدی نے نظر ثانی کی اور بہتر بنایا۔
یہاں ذکر کیے گئے ترجموں کے علاوہ ڈاکٹر خواجہ عبدالحی نے صدق و وفاا ور ڈاکٹر اجیت سنگھ سیتل نے کلام نانک کے نام سے جپ جی صاحب کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ رتن سنگھ، درشن سنگھ دُگل، منی سنگھ شارح، عطر سنگھ،ڈاکٹر جیت سنگھ، سیتھل، منشی برج لال وغیرہ نے بھی سکھوں کی مذہبی کتابوں کے اردو میںترجمے کیے ہیں جن سے اردو زبان و ادب کا دامن وسیع ہوا ہے۔ گروگوبند سنگھ کا اورنگ زیب کو لکھا خط ظفرنامہ خالص فارسی زبان میں تحریر کیا گیا تھا۔ پروفیسر شارب ردولوی سکھ مذہب اور اردو کے حوالے سے یوں رقم طرازہیں:
’’اردو میں سکھ مذہب کی بہت سی کتابیں ہیں، سکھ مذہب میں سب سے زیادہ اہمیت گورو گرنتھ صاحب کو حاصل ہے۔ گرنتھ صاحب ان کا مذہبی صحیفہ ہے جس میں کئی گوروؤں کی بانیاں اور بعض دوسرے بزرگوں کا کلام درج ہے۔ اس میں 1430 صفحات ہوتے ہیں۔ گرنتھ صاحب اردو رسم الخط میں بھی ملتا ہے اور اس کا ترجمہ اور شرح بھی اردو میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ گرنتھ صاحب کے بعض حصوں کے الگ الگ اور ایک سے زائد ترجمے بھی اردو میں ملتے ہیں۔
بحوالہ : مضمون ،شارب ردولوی، سہ ماہی عالمی اردو ادب ، دھارمک ادب نمبر 2012، ص 17)
90 سال کے بزرگ سکھ دوندرپال سنگھ نے شری گروگرنتھ صاحب کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ انھوں نے یہ ترجمہ گرمکھی سے اردو میں کیا ہے۔ ترجمہ کرنے میں انھیں 15 سال لگ گئے تھے۔ یہ ترجمہ ہاتھ سے تحریر کیے گئے 16000 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ترجمے کو گروگرنتھ صاحب ورلڈ یونیورسٹی نے ابھی چار سال قبل شائع کیا ہے۔ انگریزی میں یوں تو آدھے ادھورے ترجمے ہوتے رہے تھے اور سب سے پہلے 1877 میں Ernest Trunt نے اس کا ترجمہ کیا تھا۔ اِس کے بعد 1969 میں دوبارہ کچھ حصوں کا ترجمہ کیا گیا۔گروگرنتھ صاحب کا مکمل ترجمہ سب سے پہلے 1960 میں گوپال سنگھ نے کیا تھا۔ 1962 میں منموہن سنگھ نے گروگرنتھ صاحب کا آٹھ جلدوں میں ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ شرومنی گرودوارا پربندھک کمیٹی کے ذریعہ کرایا گیا تھا۔
خلاصہ کلام یہ کہ سکھ مذہب کی کتابیں اردو اور فارسی الفاظ سے بھری پڑی ہیں۔ زبانوں کے اِس لسانی اختلاط سے ہی اردو زبان پھلی پھولی اور نئی نئی لفظیات کا اردو زبان میں اضافہ ہوا۔ مغلوں کے بعد بھی ہندوستان میں فارسی کازور تھا اور قدیم مذہبی کتابوں میں فارسی زبان زیادہ ہے لیکن بعد کے برسوں میں جب اردو کا ارتقا ہوا تو ترجمے کی صورت میں جو تحریریں ہمارے سامنے آئیں اس میں ہندوستانی زبان نظر آتی ہے جو عام بول چال کی اردو زبان تھی۔ آج بھی پنجاب کے بہت سارے علاقوں میں شاہ مکھی میں لکھی جاتی ہے جسے کوئی بھی اردو پڑھنے والا آسانی سے پڑھ سکتا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کے فروغ میں سکھ مذہب کی کتابوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
میں اپنے مقالے کا اختتام
جپ جی صاحب کے ان دو اشعار پر کرتا ہوں:
اس کی قدرت کا بیان بندوں سے ہوسکتا نہیں
جھکتی ہے درگاہ میں اس کی بار بار اپنی جبیں
کمترین نانک کی ہے یہ عرض اے پروردگار
تیرے صدقہ ہوں تیرے قربان جاؤں باربار
ہے وہی منظور مجھ کو جو تیرا فرمان ہے
حی تو قیوم تو قدرت تیری سبحان ہے
٭٭٭
(مقالے کی تیاری میں پنجاب ڈیجیٹل لائبریری، ریختہ کی آن لائن لائبریری کے علاوہ دیگر کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔)