9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
سید مرتضیٰ بسملؔ
غالبؔ سے پہلے اردو نثر قافیے اور مرصع کاری کے بازار میں تحلیل ہوچکی تھی۔مرصع کاری کے اس بازار سے نکال کر غالب ؔ نے اس کو سادہ لباس پہنا یا ۔انہوں نے مسجع و مقفیٰ کی عبارت آرائی سے گریز کیا۔انہوں نے وہ اندازِ تحریر اپنے خطوط کے ذریعے پیش کیا جس کی بنا پر انہیں جدید اردو نثر کا بانی کہا جاتا ہے۔غالبؔسے پہلے ہرنثر پارے میں مقفیٰ و مسجع کی عبارت مل جاتی ہے۔اس حوالے سے عظیم الحق راقمطراز ہیں:
ـ’’ابتدائی دور میں نثر کے جو نمونے ملتے ہیںان میں ایکـ فضلی کیـ’’دہ مجلس‘‘ ہے،دوسرا دیباچہ ہے جو عزلتؔ نے اپنی کلیات پر لکھا ہے اور تیسری کتاب ’’نوطرزِ مرصع‘‘ ہے جو قصہ چہار درویش کا ترجمہ ہے۔میر عطا حسین تحسین نے اسے ۱۷۹۸ء میں مکمل کیا تھا۔ان تینوں کی عبارت رنگین بھی ہے اور مقفیٰ و مسجع بھیــ‘‘۔(اردو ادب کی تاریخ،عظیم الحق جنیدی،ص۱۸۹)۔
خطوطِ غالبؔ سے پہلے جو قصے،کہانیاں ہمیں داستانوں کی شکل میں ملتی ہیں،ان میں جھوٹ،تصنع،فوق الفطری عناصر کا غلبہ زیادہ تر ملتا ہے۔وہ ساری داستانیں حقیقت سے عاری ہیں۔لیکن خطوطِ غالبؔ کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں غالبؔ نے حقیقت و سچائی کی عکاسی کی ہے۔ غدر کے حالات کی تصویر کشی توکی ہی،مگر اپنے متعلق ان صفات کو بھی بیان کیا ہے جن کو بیان کرنے میںکسی اور فرد کو دشواری پیدا ہوسکتی ہے ۔بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگاکہ کوئی اوربیان کر ہی نہیں سکتا۔پروفیسر نور الحسن نقوی لکھتے ہیں:
’’حد یہ ہے کہ غالبؔ نے ان باتوں کو بھی نہیں چھپایا جنہیں اکثر لوگ چھپا جاتے ہیں۔مثلاً ان خطوں میں غالبؔ کی شراب نوشی کا ذکر موجود ہے،ایک ڈومنی انہیں چاہتی تھی یہ بات بھی صاف صاف بتا دی ۔اپنی تنگ دستی اور مہاجن سے قرض لینے کا حال بے کم و کاست لکھ دیا‘‘۔
(’تاریخ ادب اردو‘،پروفیسر نور الحسن نقوی ،ص ۲۸۴)۔
جھوٹ،تصنع،ما فوق الفظری عناصر وغیرہ سے غالبؔ نے اردو نثر کو نکالااور اس کی بنیاد نئے سرے سے ڈالی ۔ایسی نبیاد ،جس پرآگے چل کر نثّاروں نے حقیقت کی اینٹوں کا استعمال کرکے اس کی عمارت کو تعمیر کیا۔غالبؔ کے خطوط نے اردو نثر سے تصنع،مسجع،مقفیٰ اسلوب اور فارسی کے اثر کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔انہوں نے روایت سے ہٹ کر ایک نیا اسلوب اختیار کیا۔ایسی چیزیں اپنے خطوط کے اندر پیش کی جس کو عقل بھی تسلیم کرتی ہے اور جسے قاری متحرک بھی ہوجاتا ہے۔خطوطِ غالب سے پہلے جس کسی نثری کتاب کا مطالعہ کیا جائے،کسی میں تصنع تو کسی میں مسجع و مقفیٰ۔غرض کسی نہ کسی طور اس میں ایسی چیزوں کا تذکرہ ہوگا جو یا تو عقل سے عاری ہوں گے یا سمجھنے سے قاصر۔اس دلدل سے اردو نثر کو اگر کسی نے نکالا تووہ جدید نثر کے موجد غالبؔ ہیں۔ڈاکڑ تبسم کاشمیری کا کہنا ہے:
’’غالبؔ سے پہلے اردو نثر کے معیارات شاعرانہ تھے۔مکتوب نگار نہایت پر تکلف اسلوب اختیار کرنے پر مجبور سمجھے جاتے تھے۔اردو نثر پر فارسی کی انشا پردازی کا گہرا اثر تھا۔لکھنے والا لفظوں کے پر تصنع حسن میں گم ہو کر رہ جاتا تھا کہ بڑھاپے کے دور میں ان کو محسوس ہوا کہ اردو خطوط فارسی انشا کے تکلفات کے بغیر نہایت سادگی سے لکھے جاسکتے ہیں۔اس تبدیلی سے اردو نثر کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ غالبؔ نے سب سے پہلے اردو نثر کو اس مسجع،مقفیٰ اور گراں بار اسلوب سے نجات دلوائی۔ایسی نثر سے مدعا واضح نہ ہوتا تھا بلکہ موہوم خیالی تصویر یں بنتی نظر آئی تھیں۔غالبؔ نے اسلوب کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔اس عذاب دہ نثر کی جگہ بول چال کی عام زبان کو رقعات میں استعمال کرکے ایک نیا اسلوب بنایا۔جو سادگی،بے تکلفی،شگفتگی اور اپنائیت کا مظہر بن گیا تھا۔غالبؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے اردو نثر سے تصنع کا خاتمہ کردیا۔غالبؔ سے پہلے نثر میں تصنع کی حیثیت مرصع سازی کی سی تھی مگر نثر میں مرصع سازی غیر طبعی معلوم ہوتی تھی۔ غالبؔ نے رنگ و بو سے عاری اس نثر میں اپنی طبعی شگفتگی کو استعمال کرکے اس میں ہلکی پھلکی تہذیبی حرارت کا اضافہ کیا‘‘۔(اردو ادب کی تاریخ،ابتدا سے ۱۸۵۷ء تک،ڈاکٹر تبسم کاشمیری،ص ۷۵۹)۔
غالبؔ کا اردو نثر پر بڑا احسان ہے۔اگر غالب ؔ کے خطوط نہ ہوتے تو اردو نثر کے ارتقائی منازل طے نہیں ہو پاتے ۔یہ ان کے خطوط کا احسان ہے جن کی وجہ سے اردو نثر میں نیا آہنگ پیدا ہوا،نئی راہیں کھل گئیں اور اردو نثر کی بنیاد استوار ہوئی۔غالبؔ پہلے فرد ہیںجنہوں نے اردو نثر کو وہ راستہ دکھایا جس کی وجہ سے جدیداردونثر کا آغاز ہوا۔وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’ اردو نثر پر یہ احسانِ عظیم ہے کہ انہوں نے مشکل الفاظ اور روایتی انداز سے انحراف کیا اور اظہار و بیان میں آسانی اور سادگی پیدا کرکے اردو نثر کو عام بول چال سے قریب تر لانے اور یوں اسے ارتقاء کی طرف گامزن ہونے میں مدد دی‘‘۔(اردو ادب میں طنز و مزاح،وزیر آغا،ص۱۶۴)۔
ثریا حسین نے اپنی کتاب’’سر سید اور ان کا عہد ‘‘میں یہ کہہ کر غالبؔ کو جدید اردو نثر کا بانی تسلیم نہیں کیا ہے کہ ان کے خطوں میں علمی زبان کا استعمال نہیں ہوا ہے ۔اس لیے انہوں نے غالبؔ کے بجائے سر سید احمد خاں کو جدید اردو نثر کا موجد قرار دیا ہے۔ان کے اس قول کو پروفیسر نور الحسن نقوی نے اپنی کتاب’’تاریخ ادب اردو‘‘میں ایسا جواب دیا ہے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جدید اردو نثرکی سنگِ بنیاد غالبؔ کے خطوط نے ڈالی۔وہ لکھتے ہیں:
’’یہ سمجھنا غلط ہے کہ غالبؔ نے ان خطوں میں صرف بول چال کی زبان استعمال کی ہے۔علمی معاملات کے سلسلے میں انہوں نے علمی زبان کا استعمال کیا ہے۔اردو میں استدلالی نثر سر سید کا کارنامہ خیال کیا جاتا ہے لیکن خطوط غالبؔ میں استدالی نثر کے نمونے بھی مل جاتے ہیں‘‘(تاریخ ادب اردو،پروفیسر نورالحسن نقوی،ص۲۸۴)۔
’’آثارِ الصنادیدـ‘‘ کا پہلا ایڈیشن ۱۸۴۷ء میں شائع ہوا ۔اس کا انداز پرانا ہی ہے۔اس کی زبان دقیق و مرصع ہے۔اسی دوران غالبؔ نے اردو میں خطوط لکھنے شروع کئے تھے اور ۱۸۵۴ء میں ’’آثارالصنادید ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوتا ہے جس کی زبان جدید رنگ کے ہوجاتے ہیں ۔گویا دوسرے ایڈیشن نے براہِ راست غالبؔ کے خطوط سے استفادہ اٹھایا ہے۔یعنی سر سید نے وہ طرز اختیار کیا جس کی شروعات غالبؔ نے کی۔دوسرے ایڈیشن کی زبان بقولِ ثریا حسین ’’سلیس اور رواں زبان‘‘ ہے۔جو کہ ہمیں پہلے غالبؔ کے خطوط میں ملتی ہے۔تو یہ کہنا مطلوب ہے کہ غالبؔ کے خطوط سے ہی جدید اردو نثر کا آغاز ہوتا ہے۔
غالبؔ کے خطوط سے جدید نثر کا آغاز ہوا،اس حوالے سے ہمیں کئی ادبیوں،دانشواروں کے ہاں شواہد ملتے ہیں۔ڈاکڑ فرمان فتحپوری اپنی تصنیف’’اردو نثر کا فنی ارتقاء‘‘ کے دیباچہ’’کتاب سے پہلے‘‘ میں بھرپور طرح سے اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ’’جدید اردو نثر‘‘کے آغاز کا سہراغالبؔ کے خطوط کو ہی باندھا جاتا ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’غالبؔ کے خطوط نے اپنے سادہ اسلوب کے ذریعے اردو نثر کے امکانات کو ایسا روشن کردیا کہ سر سید احمد خاں اور ان کے رفقائے خاص یعنی محمد حسین آزاد،مولانا شبلی،ڈپٹی نذیر احمد،مولانا الطاف حسین حالیؔ اور مولوی چراغ علی وغیرہ نے بہت جلد اردو کے دامن کو گلہائے رنگا رنگ سے بھر دیا‘‘۔(اردو نثر کا فنی ارتقاء،ڈاکٹر فرمان فتحپوری ،ص۱۰)۔
سر سید احمد خاں نے اگرچہ سیدھی سادی زبان میں مضامین لکھے۔لیکن یہ طرز ان کو غالبؔ کے خطوط نے عطا کیا۔اگر غالبؔ کی طبیعت خطوط نگاری کی طرف مائل نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ سر سید کے مضامین اگرہوتے بھی مگر ان میں وہ دلکشی ،سادگی اور روانی نہ ہوتی جو ان میں پائی جاتی ہے۔ان میں وہی اسلوب ہوتا جو ’’آثار الصنادید‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں ملتا ہے۔گویا یہ غالبؔ کے خطوط ہی تھے جس نے سر سید جیسی بڑی شخصیت کو طرزِ نگارش کے طور طریقے سکھائے۔
اردو نثر کی جڑ وںکو مضبوط کرنے میں خطوطِ غالبؔ کا اہم رول ہے۔انہی خطوں کی بدولت جدیداردو نثر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔انہی خطوط کی وجہ سے ڈپٹی نذیر احمد بحثیت ِ ناول نگار ہمارے سامنے آئیں اور انہی کی وجہ سے غالبؔ کے شاگرد الطاف حسین حالیؔ جیسے معتبر نقاد نے بھی جنم لیا۔اگر غالبؔ کے خطوط نہ ہوتے تو اردو نثر کا ارتقاء اگر ہوتا بھی لیکن اس میں تاخیر ہوتی۔ڈاکٹر سنبھل نگار کا کہنا ہے:
’’اردو نثر کی بنیادوں کو استوار کرنے میں خطوطِ غالبؔ کا رول بہت نمایاں ہے غالبؔ کے خطوط نہ ہوتے تو سر سید کے مضامین بھی نہ ہوتے‘‘۔(اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ،ڈاکڑسنبھل نگار،ص۲۱۲)۔
چاہے سر سید کے مضامین ہوں یا فکشن کی سر زمین ۔اس میں غالبؔ کے خطوط سے لیا ہوا اصولی ذہن محسوس ہوتا ہے۔اردو نثر آج بھی مرصع و مسجع و مقفیٰ عبارت آرائی میں جکڑی ہوئی ہوتی ۔مافوق الفظری عناصر میں ابھی تک محوپرواز ہوتی۔ مگر غالبؔ نے اپنے نرالے انداز سے اس کو آزاد کرکے ’’جدید اردو نثر‘‘کی بنیاد ڈالی۔بقولِ وزیر آغا ’’انہوں نے وہ اسلوب ایجاد کیا جس پر آگے چل کر موجودہ اردو نثر کی بنیاد استور ہوئی‘‘۔پروفیسر نوالحسن نقوی وزیر آغا کے اس قول کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’غالبؔ نے اردو میں جو خطوط لکھے ان سے اردو نثر کی ترقی میں بہت مدد ملی‘‘۔گویااس بات کا اعتراف بڑے بڑے دانشوار ،ادیب لوگ کرتے ہیں کہ جدید اردو نثر کے بانی غالبؔ ہیں۔
پیر محلہ شانگس اسلام آباد
6005901367