9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمد حیدر رضا مصباحی
تبلیغی جماعت سے کچھ نظریاتی اختلافات کے باوجود، میں اس وقت مکمل طور پر ان کے ساتھ ہوں. نظام الدین مرکز معاملے کو لے کر جس طرح انڈین میڈیا نے تبلیغیوں کے خلاف واویلہ کھڑا کیا ہوا ہے، وہ کورونا کے تئیں سنجیدگی سے کہیں بڑھ کر ان کے اسلاموفوبیا کی کھلی غمازی کر رہا.
لاجپت نگر، دلی کے اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس، اتل کمار کے نام تبلیغی جماعت کے مولانا یوسف کی جو درخواست سوشل میڈیا میں گردش کر رہی، اس سے اب یہ صاف ہو گیا ہے کہ اس پورے معاملے کی مجرم صرف دلی پولیس ہے. یہاں یہ بات دھیان رکھنے کی ہے کہ نظام الدین مرکز میں اجتماع پہلے سے جاری تھا. 22 مارچ کو جنتا کرفیو کے نفاذ کے بعد 23 تاریخ کو 2500 میں سے 1500 افراد نے مرکز خالی کر دیا. لیکن انخلا کا یہ عمل اس لیے مکمل نہیں ہو سکا کہ اسی رات 8 بجے اعلان کر دیا گیا کہ 12 بجے شب سے ہی اگلے 21 دنوں کے لیے لاک ڈاؤن رہے گا. جس کا مطلب تھا: جو شخص جہاں ہے، اسے وہیں رہنا ہوگا.
پھر اسی شب 12 بجے اوکھلا ممبرِ اسمبلی، امانت اللہ خان نے جنوب مشرقی دلی کے ڈی سی پی (ڈپٹی کمشنر آف پولیس) اور نظام الدین اے سی پی کو اس بابت اطلاع دی کہ مرکز میں 1000 لوگ پھنسے ہیں. لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا. یہ مزید اس بات کو پختہ کرتا ہے کہ یہ معاملہ بس پولیس کی لاپروائی سے اس قدر سنگین ہوا.
اس کے بعد 25 مارچ کو خود جماعت نے انتظامیہ سے گزارش کی کسی طرح انہیں مرکز خالی کر گھر روانگی کی اجازت دی جاے اور ان کے جانے کا انتظام کیا جاے. لیکن کسی نے کان نہیں دھرا. یہ اس بات کا کھلا اشارہ ہے کہ انتظامیہ اس معاملے میں ٹال مٹول کر رہا تھا تا آں کہ وہاں کورونا کا کوئی پازیٹیو کیس ہاتھ لگے اور مسلمانوں سے اس وبا کا تار جوڑا جا سکے.
راقم بارہا عرض کر چکا ہے کہ کورونا کو مسلمانوں سے جوڑنے کی باضابطہ کوششیں چل رہی ہیں. میڈیا کا یہ کھیل اسی بد نیتی کا عکاس ہے، اور کچھ نہیں. ورنہ سوچیے جموں کشمیر کے ماتا ویشنو دیوی مندر میں 400 لوگوں کی بھیڑ اس وقت بھی موجود ہے. لیکن یہی میڈیا ان کے لیے “پھنسے” ہوے کا لفظ استعمال کر رہا اور مرکز کے لوگوں کے لیے “چھپے” کا. اس لفظی ہیر پھیر میں ذرا سا غور کیجیے تو ساری الجھی گتھیاں سلجھ جائیں گی.
اتنا ہی نہیں، کورونا مہاماری کے دوران، شیوراج سنگھ چوہان سینکڑوں لوگوں کے بیچ وزیر اعلی کا حلف اٹھا تے ہیں. آنند وہار میں اپنے گھروں کی روانگی کے لیے ہزاروں لوگوں کی بھیڑ در بدر کی ٹھوکر کھاتی رہتی ہے. واقعات اور بھی ہیں. یہ چند تو بس مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر پیش کیے گئے ہیں. لیکن یہی میڈیا یا تو ان کو نظر انداز کر دیتا ہے یا بس سرسری نظر دوڑا کر آگے بڑھ جاتا ہے.
اس لیے وہ تمام حضرات جو مسلکی عصبیت یا اور کسی وجہ سے بھی نظام الدین مرکز معاملے میں تبلیغی جماعت کی تنقید کر رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ ہوش کے ناخن لیں. میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں. یاد رکھیے، قرآن حکیم نے ہمیں پہلے ہی متنبہ کر دیا ہے :
“و لتجدن أشد الناس عداوة للذين آمنوا اليهود و الذين اشركوا.” (اور یقیناً تم یہودیوں اور مشرکوں کو مومنوں کا سب سے بڑا دشمن پاؤگے).
یہ جان لیجیے کہ ان کی دشمنی اسلام اور مسلمانوں سے ہے، تبلیغی جماعت یا کسی اور جماعت سے نہیں. اور ہاں! یہ بھی یاد رکھیے، احمد فراز کہہ گئے ہیں:
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
شعبہ تعلیمات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی