جو لوگ 1400 سال سے یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ رسولؐ کی وفات کے بعد کربلا میں صرف 72 ہی کیسے امام حسین ؑ کے ساتھ تھے وہ دَورِ حاضر کو دیکھ لیں، اُن کی سمجھ میں آجائے گا کہ کیسے سب کے سب یزید کے ساتھ تھے یا بزدلی نے اُن کی زبانوں پر تالے ڈال دیئے تھے۔ حکومت بدلتے ہی نہ صرف گاڑیوں میںلگے جھنڈے بدل گئے بلکہ سُر بھی بدلنے لگے، جنہیں آج تک بابری مسجد کی کوئی فکر نہ تھی وہ آج صرف اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کے لئے شہر میں پوسٹر و بینر لگانے کی ہوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیں کہ آپ کی جلدبازی آپ کو اُسی مقام پر نہ پہونچا دے جہاں آپ کو گذشتہ حکومتوں نے رکھا تھا، اُن کی حمایت آپ کی مجبوری بن گئی تھی اور یہی سمجھ کر آپ کو اتنا مجبور اور اپاہج بنا دیا کہ ذرا سی اصولوں کی پابندی نے آپ کو کہیں کا نہ رکھا کیونکہ آپ اس کے عادی ہی نہ تھے۔
میں نے کئی بار کہا کہ ابھی آپ کو موجودہ حکومت سے جو دشواریاں پیش آرہی ہیں وہ اس حکومت کی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ جو تلوار گذشتہ حکومت نے آپ کے گلے پر برہنہ چھوڑ رکھی تھی اور اُس پر اپنی مکاری کا کپڑا اُڑھا دیا تھا جس سے آپ بے خبر تھے، موجودہ حکومت نے بس اُس کپڑے کو ہٹا دیا ہے۔ سلاٹر ہائوس کا رینیول 2013 ء سے پینڈنگ ہے اگر گذشتہ حکومت نے بس اس کا رینیول ہی کردیا ہوتا تو موجودہ حکومت چاہ کر بھی کچھ نہ کرپاتی۔ ایسے ہی اینمی پراپرٹی کا جو ہوا وہ کانگریس کا کیا ہوا تھا بس اس کا ایمپلیمنٹ موجودہ حکومت نے کیا ہے پھر چاہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا مسئلہ ہو، اگر کانگریس نے اس کا کوئی مستقل حل نکال دیا ہوتا تو آج یہ مسئلہ ہی نہیں اُٹھتا۔
یہ صحیح ہے طلاق ثلاثہ کے مسئلے سے فقہ جعفریہ کا دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں اور اس مسئلے سے حکومت کا بھی کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے لیکن غور طلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ حکومت کے زیرنظر پہونچا کیسے؟ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ عورتیں اس حد تک ظلم کا شکار ہوئیں کہ انہیں اس مسئلے کو کورٹ تک لے جانا پڑا؟ پھر روزانہ میڈیا میںآپ کو مل جائے گا کہ آج فون پر، کل وہاٹس ایپ پر، پرسوں پوسٹ کارڈ پر لکھ کر تین بار طلاق دے دیا گیا اور ہم ٹی وی چینل پر روزانہ بحث ہی کرتے رہ گئے کہ یہ غلط ہے، غیرمناسب ہے، بدعت ہے، نہ دیا جائے تو اچھا ہے، جہالت کا فیصلہ ہے لیکن اسے ہم روک نہیں سکتے، کیوں؟ کیونکہ یہ احکام شرعی ہے، جو ہم نے نہیں بنائی۔ تمام سُنی عورتوں سے لے کر آر ایس ایس کے آدمی روزانہ پوچھتے ہیں کہ اس کا قرآن میں ذکر کہاں ہے آسان سا جواب، نماز کیسے پڑھیں یہ قرآن میں کہاں ہے، وغیرہ وغیرہ۔ سب اس پر تو متفق ہیں کہ یہ غلط ہے لیکن غلط کو ہم روک نہیں سکتے۔ اسے روکنے کے لئے ہم نے اب تک کیا کیا اسے بتانے میں بھی سب کے سب قاصر ہیں۔ عالم اسلام بھی ضرور سمجھ رہا ہوگا کہ یہ گلے کی وہ ہڈی ہے جسے نہ نگلتے بن رہا ہے اور نہ اُگلتے۔ اگر اسے قائم رکھیں تو ہماری ہی عورتیں روزانہ ہمیں ہر جگہ ذلیل کریں گی اور 22 ممالک میںاگر ہم بھی شامل ہوجائیں تو جن کو کل تک اس طرح سے طلاق دینا جائز قرار دیتے آئے ہیں وہ سب کے سب ہم سے اپنا حق طلب کریں گی۔ اس کے ساتھ عالم اسلام سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن حضرت عمرؓ کی کسی سُنت پر حرف آئے اُسے برداشت نہیںکرسکتا۔ اس لئے یہ مسئلہ صرف اور صرف ہمارے اہل سُنت بھائیوں کا ہی ہے اُنہیں ہی حل کرنے کا موقع دیں، ویسے بھی کہتے ہیں کہ ظلم کی عمر طویل نہیںہوتی پھر ہم اپنی طرف سے اسے حرام قرار دینے کا مطالبہ کرکے اپنے کو موقع پرست کیوں ثابت کریں۔ یا گائے کے مسئلے پر ہم عالم اسلام سے الگ جاکر اپنی ڈیڑھ اِنچ کی دیوار کیونکر اُٹھائیں، آپ اس غلط فہمی میںہرگز نہ مبتلا ہوں کہ آپ اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ کر کچھ حاصل کرلیں گے کیونکہ مخالف خوب واقف ہے کہ جو اپنوں کا نہ ہوا وہ ہمارا کیا ہوگا۔
جہاں تک کسی عالم سے لائے گئے فتوے یا ہدایت کی بات ہے کہ گائے کاٹنا اور کھانا حرام ہے کیونکہ اس سے اختلاف پھیلنے کا اندیشہ ہے بالکل صحیح ہے، اس سے رتی بھر بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن آیت اللہ سیستانی صاحب سے بھی کوئی جان لے کہ منبروں سے اختلافات اور انتشار پھیلانے والوں کے بارے میں اُن کا کیا کہنا ہے؟ کیا اب ہر اُس چیز سے گریز کیا جائے گا جس سے سماج میںاختلافات اور انتشار پھیلنے کی گنجائش ہو؟ اگر ایسا ہے تو جو طے ہوا، جو کہا گیا وہ سب صحیح ہے، لیکن ہر اُس عمل کے خلاف ایسے ہی پہل ہونی چاہئے جو ترقی کے راستے میںروڑا ہو، جو بدنامی کا سبب ہو، اختلاف اور انتشار کو فروغ دے۔
یہ وقت آپسی اتحاد کا ہے آپ حکومت کے بڑھتے قدم کا انتظار کریں جو ایک قدم آپ کی طرف بڑھے آپ دو قدم آگے بڑھ کر استقبال کریں لیکن ابھی تو آپ کی طرف دیکھا بھی نہیں گیا اور آپ اُن کی طرف دوڑ پڑے آپ اگر پیچھے پیچھے چلیں گے تو کبھی ان کے قریب نہیں پہونچ سکیں گے۔ اُنہیں اپنی طرف آنے دیجئے پھر آپ خیرمقدم کے لئے اُن کی طرف بڑھیں تو عزت کے ساتھ اُن تک پہونچ جائیںگے ورنہ گذشتہ حکومتوں کی طرح پچھلگو تو بنیں گے اُن کے قریب کبھی نہیں پہونچ پائیں گے۔
٭٭٭
Also read