بس اسی کا ڈر تھا

0
86

9415018288

وقار رضوی

بہت دنوں سے شاہین باغ اور اسی کے طرز پر پورے ہندوستان میں بیحد پرُامن طریقے سے احتجاج ہورہا تھا، اس احتجاج کی علمبردار تعلیم یافتہ خواتین تھیں جن کے پاس جواز تھا اس پرُزور احتجاج کا، منصوبہ بندی تھی ہر جھوٹ کو بے نقاب کرنے کی، جوش تھا قومی یکجہتی کا، طاقت تھی سرد راتوں کی سردی برداشت کرنے کی، صبر تھا، تمام الزامات، ظلم اور سختی برداشت کرنے کا، اسی لئے وہ پولیس بھی انہیں اپنی ڈگر سے ہلا نہ سکی جو جامعہ کی لائبریری میں گھس کر نہتے لڑکے اور لڑکیوں پر بربریت کرتے دکھائی دی اور پھر وہی پولیس جے این یو تشدد کے وقت لاچار اور بے بس دکھائی دی۔ الیکشن بھی ہوگیا جس میں پاکستان کی شکست ہندوستان کی جیت، نفرت شکست کھاگئی۔ تمام کوششوں کے بعد بھی پورے ملک میں ٹی وی چینل کے سوا کہیں ہندو مسلمان، پاکستان ہندوستان نہ ہوسکا، یہ تب بھی نہیں ہوا جب کشمیر سے 370 ہٹا دی گئی، کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی سب نے اسے نئی حکومت کا فیصلہ مانا جیسا کہ عموماً نئی حکومتیں کرتی رہتی ہیں، بابری مسجد کا فیصلہ آیا جس میں سپریم کورٹ نے صاف طور سے کہا کہ بابری مسجد میں رام للا خود سے ظاہر نہیں ہوئے بلکہ انہیں ظاہر کیا گیا، سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ 1992 ء میں بابری مسجد کا گرایا جانا جرم ہے پھر بھی سب نے اس کا خیرمقدم کیا ملک میں امن و امان بنے رہنے کیلئے اور کہیں سے ایک ذراسی خبر بھی نہیں آئی کہ کسی نے کہیں پر بھی اس کی مخالفت کی ہو۔ ایسے میں نئی تاریخ رقم کرنے والے شاہین باغ نے سب کو قومی یکجہتی، ہندو مسلمان سکھ عیسائی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی سیکھ دی وہیں ان کو چیلنج بھی جو اسے کسی بھی قیمت پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کورٹ نے بھی اسے پرُامن مظاہرہ مانا اور ان کا حق بھی، جنہیں کورٹ نے بھیجا وہ بھی شاہین باغ کے ہی ہوگئے۔ایسے میں ضروری تھا کہ کہیں تشدد کی واردات ہو،آتشزنی ہو، کچھ لوگ زخمی ہوں اور کچھ لوگوں کی جان بھی جائے تبھی اسے تشدد کا مظاہرہ مانا جائے گا اور پولیس کو وہیں آزمائے ہوئے پرانے حربے استعمال کرنے کی چھوٹ مل جائے گی جس میں وہ گھروں میں گھس کر عورتوں اور بچوں پر ظلم کرتی ہے ورنہ آپ نے دیکھا ہوگا جب تک وہ چاہتی ہے اس کے سامنے لوگ بندوق لہراتے ہوئے فائرنگ کرتے رہتے ہیں، آتشزنی کرتے رہتے ہیں، پتھر پھینکتے رہتے ہیں لیکن وہ اسے ایک فلم کا ٹریلر سمجھ کر مزے سے دیکھتی رہتی ہے جیسے وہ خود ہی اس کہانی کے کہانی کار ہوں۔
اس لئے ضروری ہے کہ وہاں کے سمجھدار لوگ آگے آئیں سمجھداری سے کام لیں پولیس اپنے آزمائے ہوئے حربے اس بار نہ استعمال کرنے دیں ورنہ یہ عورتوں کی سرد راتوں کی ساری محنت بیکار جائے گی۔ یہ فساد کوئی ہندو یامسلمان نہیں کررہا ہے، یہ تب تک ہوتا رہے گا جب تک پولیس چاہے گی ورنہ پولیس کتنی ایکٹیو ہے یہ ہم جامعہ کی لائبریری میں دیکھ چکے ہیں۔ اس لئے آپ فسادیوں سے نہیں پولیس سے ڈریں اور پولیس سے ہی فریاد بھی لگائیں یہ وہی پولیس ہے جسے کپل مشرا اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اور دھمکی دے کر آئے تھے جس کے بعد سے یہ حالات دہلی کے ہوگئے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here