کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 1868 ہوگئی

0
150

کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 1868 ہوگئی جبکہ عالمی ادارہ صحت نے وبا کے پھیلاؤ سے تقریبات کی منسوخی، دہشت زدہ ہونا یا بحری جہاز کے حوالے سے تشویش کے بعد عالمی سطح پر بے جا رد عمل کے اظہار سے خبردار کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اب تک چین میں 72 ہزار سے زائد افراد چین میں اور چند سو اس کے باہر متاثر ہوچکے ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے زور دیا ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ کے مرکز کے باہر عوام کا ‘تھوڑا حصہ’ وائرس کا شکار ہوا اور ہلاکتوں کی شرح اب بھی بہت کم ہے۔

 

وبا کے پھیلاؤ سے عالمی معیشت پر اثر پڑنے کا خدشہ سامنے آرہا ہے جبکہ چین کی معیشت قرنطینہ اقدامات کی وجہ سے مفلوج ہوگئی ہے اور آئی فون بنانے والے ایپل اور مائننگ کی سب سے بڑی کمپنی بی ایچ پی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے ان کی بنیاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

 

تجارتی تقاریب، کھیلوں کے مقابلے اور ثقافتی تقاریب بھی اس سے متاثر ہوئی ہیں جہاں متعدد ممالک نے چین سے آنے والے مسافروں پر پابندی عائد کردی ہے اور کئی بڑی ایئرلائنز نے چین کے لیے اپنی پرواز معطل کردی ہیں۔

 

جاپان میں بحری جہاز میں کئی سو افراد کے اس وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے کروز شپ کی صنعت اس وقت توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے جبکہ کمبوڈیا میں ایک مسافر میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔

ڈبلیو ایچ او، جنہوں نے پہلے کہا تھا کہ سفری پابندیا غیر ضروری ہیں، نے تجویز دی ہے کہ تمام کروزز کو روک دیا جانا چاہیے۔

 

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ تیدروز ادھانم نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘صورتحال کے مطابق اقدامات کیے جانے چاہیے، احاطہ کرنے والے اقدامات مددگار نہیں ہوسکتے ہیں’۔

انہوں نے وائرس کو روکنے کے لیے چین کے اقدامات کو سراہا۔

بحری جہازوں پر تشویش
جاپان میں یوکوہاما میں قرنطینہ میں رکھے گئے ڈائمنڈ پرنس نامی بحری جہاز میں 450 سے زائد افراد میں وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے۔

پیر کے روز امریکا نے جاپان سے 300 امریکیوں کو واپس بلالیا تھا جنہیں مزید 14 روز کے لیے قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔

ویسٹر ڈیم بھی اس حوالے سے توجہ حاصل کر رہا ہے جہاں کمبوڈیا میں ایک بحری جہاز میں سوار 2 ہزار 200 مسافروں کو ابتدائی طور پر طبی جانچ پڑتال کے بعد جانے دیا گیا تھا۔

انہوں نے کمبوڈیا کے وزیر اعظم سے ملاقات بھی کی، ایک بس میں ملک کے دارالحکومت کا دورہ بھی کیا اور انہیں دنیا بھر میں جانے کی اجازت مل گئی تھی۔

بعد ازاں 83 سالہ امریکی خاتون کے ملائیشیا جانے کے بعد ان میں وائرس کی تشخیص ہوئی۔

معاشی خدشات
عالمی ادارہ صحت کی یقین دہانی کے باوجود عالمی تشویش برقرار ہے اور جنیوا میں عالمی تخلیق کے مظاہرے منسوخ کردیے گئے ہیں جبکہ ہانگ کانگ اور سنگاپور میں دہشت پھیل رہی ہے۔

ایپل کے سپلائر فوکس کون اور کارساز ٹویوٹا کی سپلائی چین متاثر ہوئی ہے کیونکہ چین میں مرکزی پیداواری سہولت عارضی طور پر بند ہے۔

ایپل کا کہنا ہے کہ وہ مارچ کے مہینے میں اپنے ریونیو کے ہدف تک نہیں پہنچ سکیں گے کیونکہ عالمی سطح پر آئی فون کی سپائی ‘عارضی طور پر روک دی گئی ہے’ اور چین میں اس کی مانگ متاثر ہوئی ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی مائننگ کمپنی بی ایچ پی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ذخائر کی مانگ کم ہوسکتی ہے کیونکہ اگر وائرس پھیلتا رہا تو تیل، کاپر اور اسٹیل کا استعمال کم ہوگا۔

کورونا وائرس ہے کیا؟
کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here