کشن گنج میں مجلس اتحاد المسلمین کی جیت کے معانی

0
364

[email protected] 

موسی رضا۔۔ 9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


شاہد حبیب

آخر کار مجلس اتحاد المسلمین کو کشن گنج کے راستے بہار میں داخلے کا راستہ مل ہی گیا۔ ۲۰۱۹ کے ا س ضمنی انتخابات میں مجلس کے امیدوار قمرالہدی کو 70469 ووٹ ملے اور وہ اپنے قریبی حریف بی جے پی کی امیدوار سویٹی سنگھ سے 10204 ووٹوں سے آگے رہے۔ قمرالہدی کو 41.46 فیصدی ووٹ حاصل ہوئے۔ یہ تناسب ظاہر ہے قابلِ ذکر تو نہیں ہے لیکن اگر تیسری کوشش میں ہی سہی41 فیصدی ووٹ بھی بہار میں مجلس اتحاد المسلمین حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو اسے چونکانے والا نتیجہ کہا جائے گا۔ کیا وجہ ہے کہ بہار جیسی رواداری کی مثال قائم کرنے والی ریاست میں بھی مجلس جیسی جماعت کو کامیابی ملنے لگی۔ جسے ملک کا ایک بڑا طبقہ ہی نہیں خود مسلمان بھی ایک فرقہ پرست جماعت کے نظریے سے ہی دیکھتا ہے۔ اس کے اسباب پر غور کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ بہار ہی نہیں پورے ملک میں ایک مسلم نوجوان اپنے اندر قیادت کا ایک انخلاء پاتا ہے بطورِ خاص سیاسی قیادت۔ دینی اور مذہبی قیادت تو اب بھی بر سرِکار ہے اور محدود وسائل کے ساتھ اپنے اپنے میدان ہائے عمل میں اپنے حصے کی خدمت انجام دے رہی ہے۔ ایک مسلم نوجوان کے اندر اس کی تئیں احترام کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے لیکن وہ کیا کرے جب ملک میں عزت و وقار کی زندگی جینے کی کوشش کرتا ہے تو یہ مذہبی قیادتیں اس کی رہنمائی کرنے سے یا تو معذرت کر لیتی ہیں یا پھر ایسا کوئی حل بتانے کی کوشش کرتی ہیں جس پر خود ان کو بھی اطمینان نہیں ہوتا۔ زندگی میں صرف چند مراسمِ عبودیت ہی داخل تو نہیں ہوتیں۔ ایسے میں ظاہر ہے وہ نوجوان ان کے بتائے ہوئے حل پر کیسے عملدرآمد کر سکتا ہے۔ وہ نوجوان سمجھتا ہے کہ ہماری قیادت کے اس انخلاء کو پُر کیا ہے مجلس کے رہنماؤں نے۔ حیدرآباد کی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی تیزی کے ساتھ نوجوانوں کے درمیان پہنچتی رہی ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ مجلس کے رہنماؤں نے کس طرح حیدرآباد کے لوگوں کے مسائل کو آسانی کے ساتھ حل کروایا۔ اس کے نتیجے میں اسی ایک پارٹی کی شناخت ان کے سامنے ایسی بن پائی جو اخلاص کے ساتھ عزت و وقار کی زندگی کے حصول کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہ سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کی اور کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے، انڈین یونین مسلم لیگ، آسام کی اے یو ڈی ایف، جماعت اسلامی ہند سے وابستہ لوگوں کی پارٹی ’ویلفیئر پارٹی آف انڈیا‘ اور راشٹریہ علماء کونسل جیسی مسلمانوں کی قیادت والی پارٹیاں بھی موجود ہیں لیکن ان پارٹیوں کا رسوخ ایک محدود دائرے تک ہی ابھی سمٹی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے اس پر ان نوجوانوں کو اعتماد کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ نوجوان دیکھ رہا ہے کہ اب تک انہیں یہ کہہ کر مجلس کو ووٹ دینے سے روکا گیا کہ اگر تم مجلس کو ووٹ دوگے تو بی جے پی ہندو ووٹ کو اپنے حق میں موڑنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ہندو سمجھیں گے کہ مسلمان جب اپنی مسلمان پارٹی کو ووٹ دے رہا ہے تو ہمیں بھی اپنی ہندو پارٹی کو ہی ووٹ دینا چاہیے۔ اس کی اس سوچ کا فائدہ بی جے پی کو لامحالہ ملے گا اور بی جے پی بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے لگے گی. ان کو سمجھائی گئی یہ بات انہوں نے دو دو انتخابات میں گرہ میں باندھ رکھی تھی اور اس نے ملک کے سیکولر ڈھانچے کی حفاظت کی سوچ کر اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بنائے رکھنے کے لیے مجلس کو ووٹ نہیں دیا. لیکن جب اس نے دیکھا کہ چاہے وہ مجلس کو ووٹ دے یا نہ دے ہندو بی جے پی کو ہی ووٹ دے رہے ہیں اور ان کے لیے مسائل پہ مسائل کھڑے ہو رہے ہیں تو انہوں نے اپنی سوچ پر نظرثانی کرنا ضروری سمجھا۔ انہوں نے غور کیا کہ کیا اب تک جو بات سمجھائی جا رہی تھی، وہ سچ بھی ہے یا کچھ لوگوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لئے ان کو سیکولر پرستی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا بوجھ اپنے سر پر اٹھانے کو کہا تھا۔ کیا صرف مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ترقیات، وقار اور سیاسی قیادت کے جذبے کو بالائے طاق رکھے اور ملک کے سیکولر ڈھانچے کی حفاظت کرے۔ انہیں اپنے تجربات کی روشنی میں اس کا جواب نفی میں ملا۔ پھر انہوں نے مجلس کو ووٹ دینے کا من بنا لیا۔
سوچ میں اس طرح کی تبدیلی کی وجہ سے مجلس کے ووٹ شیئر میں یقیناً کچھ نہ کچھ اضافہ ہوا ہوگا، اس سے انکار نہیں۔ لیکن سب سے زیادہ فائدہ مجلس کو دو اور وجہوں سے حاصل ہوا۔ پہلی وجہ ہے ملکی اور مذہبی معاملات میں مجلس کے رہنماؤں خاص کر اسد الدین اویسی کو میڈیا نے جس طرح اپوزیشن کا ایک چہرہ بنا کر پیش کیا اور ہر چھوٹے بڑے معاملے میں ان کی لیک سے ہٹی رایوں کو جس طرح ہائی لائٹ کر کے پیش کیا اس سے اویسی صاحب کی پہچان یہ بنی کہ یہی ایک ایسا شخص ہے جو وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کی غلط پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کر سکتا ہے۔ ان کے ہاتھ مضبوط کر کے اگر انہیں اقتدار کی کرسی تک پہنچایا جائے تو ملک میں جاری طوائف الملوکی کے آثار کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ رافیل، موب لنچنگ، طلاق ثلاثہ اور این آر سی جیسے معاملات میں اویسی صاحب نے جس طرح کی کنسٹریکیو اپوزیشن کا رول ادا کیا ہے، اسے بلا تفریق مذہب و نسل نوجوانوں کی مجلسوں میں دل کھول کر سراہا گیا اور اویسی صاحب کو یہ موقع میڈیا کی پالیسیوں اور اپوزیشن جماعتوں کی نا اہلی نے فراہم کیا۔ جس کا فائدہ آج مجلس کو کشن گنج کی سیٹ کی صورت میں حاصل ہو رہا ہے۔ دوسری وجہ دیگر مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ اور اسمبلیز کی کارکردگیاں رہیں۔ مین اسٹریم کی پارٹیوں میں جس طرح مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ پارٹی لائن سے باہر اپنی رائے قائم کرنے اور اس کے اظہار کی آزادی سے محروم کر دیئے گئے ہیں اس سے ان نوجوانوں کو لگتا ہے کہ اگر ہماری آواز کو کوئی ملکی سطح پر ایوانِ اقتدار تک پہنچا سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف مجلس کے ہی اراکین ہو سکتے ہیں۔ اس پارٹی میں ان کو چھوٹ ملے گی کہ اپنے خیالات کو وہ بھی اپنے طریقے سے پیش کر سکیں۔ مہاراشٹر اسمبلی میں امتیاز جلیل اور وارث پٹھان کی عوامی کارکردگیوں نے ان کو اس طرح کی رائے قائم کرنے میں تعاون دیا۔
اس طرح کی سوچ سے بہار میں مجلس کے حق میں ماحول تو بننے لگا تھا لیکن ساتھ ہی اختر الایمان کی اپنی شبیہ بھی بہار میں بہت معاون رہی۔ اختر الایمان نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں ایک کامیاب سیاسی رہنما کی طرح ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ راجد اور جدیو میں بھی جب وہ تھے تب بھی انہوں نے ایک خاص طرح کی روش کو اپنا رکھا تھا۔ ’کوچا دھامن‘ حلقے کی نمائندگی کرتے ہوئے جس طرح کشن گنج ہی نہیں پورے سیمانچل کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لی، اس سے بھی ان کی شبیہ میں غیر معمولی تبدیلی آئی۔ کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کے قیام میں اور اس کے بعد 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں مرحوم اسرار الحق قاسمی صاحب کے ساتھ جس طرح کے تال میل کے ساتھ انہوں نے مسلم اور علاقائی مفاد کو سامنے رکھا، اس سے بھی ان کی ایک مضبوط شناخت بنی اور اس کا فائدہ اس الیکشن میں مجلس کو ملا۔
لیکن ان سب سے بھی آگے بڑھ کر فائدہ ملا مجلس کی غیر معمولی پالیسی کی تبدیلی سے۔ جو مجلس پہلے صرف اور صرف مسلمانوں کی پارٹی ہونے کا دعوٰی کرتی تھی آج وہی مسلم اور دلت کی پارٹی بننے کی شعوری کوشش کرتی نظر آ رہی ہے۔ اسی لیے انہوں نے مہاراشٹر میں ڈاکٹر امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر کی پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور دونوں ساتھ ساتھ کئی اسٹیج پر دیکھے گئے۔ اس کے بعد مجلس مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلتوں کے مسائل کو بھی ہر اسٹیج پر اٹھا رہی ہے۔ بلکہ اب تو اویسی صاحب کو بولتے ہوئے صرف مسلمانوں کا نام لیتے شاید ہی کبھی سنا جاتا ہے۔ وہ جب بھی نام لیتے ہیں تو مسلمان اور دلت ساتھ ساتھ بولتے ہیں. اس پالیسی تبدیلی سے مجلس کو دلتوں کا بھی اعتماد حاصل ہوا اور کشن گنج کی سیٹ نکالنے میں کامیاب رہی۔
مجلس نے خدمت خلق کا کام بھی بڑے پیمانے پر انجام دیا ہے۔ طلبہ و طالبات کے لیے الگ الگ تعلیمی اداروں کا قیام، میڈیکل، ٹیکنکل اور اعلی تعلیم کے کالجز کے ساتھ ساتھ ہاسپٹل، مختلف طرح کے وظائف اور دارالسلام بینک جیسی خدمات سے مجلس نے اپنے مستفیدین کو متاثر کیا اور ان کے ووٹ کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ سے اویسی صاحب کی قربت کا فائدہ بھی مجلس کو ملا۔ 2017میں بورڈ کے حیدرآباد اجلاس کی میزبانی میں جس طرح مجلس کے اراکین نے دارالسلام کے دروازے دل کھول کر وا کیے اور بورڈ کے رہنماؤں نے اس دعوت کو قبول کیا اس سے یہ پیغام نوجوانوں کے درمیان گیا کہ اب اویسی صاحب ہماری مذہبی قیادت کے لیے شجر ممنوعہ نہیں رہے۔
ان باتوں سے اور اس جیت سے اگر نتیجہ نکالا جائے تو پوری مسلم قیادت اور پوری ہندوستانی قوم کے لیے کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ لیکن اس سے قطع نظر بس اتنا عرض کرنا ہے کہ آزادی کے بعد جمعیت العلماء ہند نے مسلمانوں کو انتخابی سیاست سے روک کر تاریخی غلطی کی تھی۔ جس کا خمیازہ ہندوستان کے مسلمان ہی نہیں یہاں کے دلت، او بی سی اور ایس سی – ایس ٹی کے لوگ اب تک بھگت رہے ہیں۔ اگر یہ روک نہ ہوتی تو کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہندوستان کی تصویر آج سے کئی گنا بہتر ہوتی۔ لیکن ہمارے بزرگوں نے ایسا کرکے ہندوستانی سیاست میں برہمنوں کی بالادستی قائم رکھے جانے کا راستہ صاف کر دیا تھا۔ نتیجے میں ہندوستانی سیاست سے عدل و انصاف کا تصور جاتا رہا اور ہر طبقے پر ظلم و زیادتی بڑھتی گئی۔ ایسے میں اگر مجلس یا کوئی اور انصاف کی علمبردار جماعت، اس تاریخی غلطی کو سدھارنے کی کوشش میں سنجیدہ نظر آ رہی تو اس کا استقبال کیا جانا چاہئے۔ سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دے کر ہم بہت دنوں تک اپنے ایمان اور ملک میں اپنی شناخت کو بچائے رکھنے میں ناکام رہیں گے۔ سیاست کو اپنانا ہوگا اور اس کے داؤں پینچ کو سمجھنا ہوگا۔
دنیا کے حالات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ جس ملک کے مسلمانوں نے بھی ملکی اور بین الاقوامی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی وہ شناخت تو چھوڑیئے شعائر اسلام کو بھی بچانے میں مشکل سے ہی قابو پا رہے ہیں۔ ایسے میں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سیاست غیر اخلاقی نہیں بلکہ زندگی کا لازمی جزو ہونی چاہیے۔ کیونکہ مسلمان ہی ہیں جو اس سرزمین پر انصاف کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں۔ برہمنی سیاست تو استحصال، عدم رواداری اور غیر برابری کے راستے پر گامزن ہے۔ اس پر بند مسلمانوں کے سیاسی شعور کو بیدار کرکے ہی باندھا جا سکتا ہے اور خوش آئند ہے کہ ایک عام نوجوان بھی اس چیز کو سمجھنے لگا ہے، ضرورت ہے اس شعور کو اجتماعی شکل دینے کی۔ ظاہر ہے یہ کام مسلمانوں کی قیادت میں غیر مذہبی اور غیر طبقاتی سیاسی جماعت کی تشکیل کے بغیر ممکن نہیں۔ شاید یہی کام آج مجلس اتحاد المسلمین کے اراکین انجام دے رہے ہیں اور اسی لیے وہ ایک ایک ریاست میں اپنی کامیابی درج کرا رہے ہیں۔ ہماری مذہبی قیادت اس رخ پر کب سوچے گی؟

(مضمون نگار، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، لکھنؤ کیمپس میں ریسرچ اسکالر ہیں)۔موبائل: 7053234784 / 8539054888

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here